اخلاقی زوال۔۔۔۔توقیر یونس بُھملہ

ملک دہشت گردی کی لپیٹ سے نکلا تو میڈیا گردی کی زد میں آگیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر جو کچھ کہہ دیا جاتا تھا یا چھاپ دیا جاتا اسکو چیلنج کرنے کا کوئی پلیٹ فارم دستیاب نہیں تھا، سوشل میڈیا اوپر مذکورہ دونوں کے بعد آیا لیکن یہ ایک ایسا دیو ثابت ہوا جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کو بڑی حد تک جہاں نگل گیا وہاں عام آدمی کو اپنی بات کہنے سننے اور پھیلانے کا ایک پلیٹ فارم مل گیا ۔میڈیا جو جھوٹ سچ دکھاتا تھا اسکی تشریح اور پوسٹ مارٹم سوشل میڈیا پر ہونے لگا اور اس طاقت سے ہونے لگا کہ بڑے بڑے طاقتور میڈیا ہاؤسز اور لوگ اس طاقت کے سامنے بے بس نظر آنے لگے، سوشل میڈیا پر کوئی اخلاقی اقدار یا قواعد و ضوابط نہ تو عام روزمرہ زندگی کی طرح لاگو ہوسکتے ہیں نہ کوئی کسی کو پابند کرسکتا تھا، یہ طاقت عوام کے ہاتھوں میں تھی جس پر وہ کسی کو جوابدہ نہیں تھے اس بے ہنگم اور شتر بے مہار دوڑچل نے سوشل میڈیا پر لوگوں سے اخلاق، نظم و ضبط اور قاعدے قانون یکسر چھین لیے اور لوگ اس مصنوعی دنیا پر خود کو آزاد اور بہتر گرداننے لگے، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی قیمتوں میں کمی سے یہ تقریباً ہر خاص و عام کی دسترس میں آگئے جس سے سوشل میڈیا کے استعمال کنندگان یا صارفین میں سے ایک عام شخص بیک وقت خود کو عالم، بریکنگ نیوز دینے والا اینکر، سنسنی پھیلانے والا صحافی، افراتفری پھیلانے والا اخبار، نیم حکیم، ہمہ جہت ڈاکٹر، سائنسدان، انجینئر ، فوجی ، وکیل،شاعر، ادیب، افسانہ نگار، جج، سیاستدان اور ایسے ہی ان گنت شعبوں میں نہ صرف ماہر سمجھ بیٹھا بلکہ گاہے بگاہے اصرار کرنے لگا اور ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا کہ اس کو ہر مرض کی دوا اور ہر شعبے کا ماہر تسلیم کیا جائے، اس کم علمی اور جہالت کو پھیلانے والے ہمہ جہت ماہرین بننے والے گروہ نے فیسبک کی دیوار الم غلم چیزوں سے بالکل اسی طرح کالی کرنی شروع کردی جس طرح ملک عزیز میں جی ٹی روڈ کے اطراف میں گھروں اور فیکٹریوں کی دیواریں آلودہ اور آلودگی کی نفسیات کا مظہر ہیں۔

سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک پر باقاعدہ گلی، محلے، ڈیرے، دارے اورچوک بن چکے ہیں تھڑے، کرسیاں، چارپائیوں سے پنڈال سجے ہوئے ہیں، کہیں تو بغداد ہے کوے کو حلال و حرام قرار دیا جارہا ہے تو کوئی تاتاری بن کر مخالف رائے رکھنے والے پر قہر و غضب بن کر ٹوٹ پڑا ہے، کوئی تو سپر پاور کے نشے میں مبتلا ہوکر کمزور بستیوں کو اجاڑ رہا ہے اور وہاں اپنا جھنڈا لگانے پر بضد ہے، تو کوئی  کسی کی پراکسی وار میں پھنسا ہوا ہے غرض اختلاف رائے تو اختلاف رائے اب رہا ہی نہیں، دشنام طرازی اور مخالف کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے کو اختلاف رائے اور اپنا حق کہہ کر غلط کام کو صحیح ثابت کیا جاتا ہے، یہ سب تو عام عوام اور کم پڑھے لکھے یا سکول مدرسے کو دشمن سمجھنے والے  کی حالت ہے، لیکن اسکے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کے چند تیس مار خان اور انٹلکچوئل توپ حضرات بھی یہاں سوشل میڈیا پر ہی جاگیر دار اور خوامخواہ کی سیلیبریٹی بن کر ساتھ سینئر کا دم چھلا لگا کر ایسی اعلی اور نایاب قسم کی جہالت کے موجد بنے ہیں کہ خدا کی پناہ ہی  انکے  مقابلے  میں سلامتی ہے ورنہ انکے ہتھے چڑھے تو کسی اور کے ہتھے چڑھنے  کے  قابل کوئی بھی نہیں رہتا، یہ طبقہ ویسے جانبدارانہ مورچوں میں رہتا ہے اور انتہائی چالاکی سے اپنا شکار تاڑتا ہے اور وہ پھر مورچے کے اندر ہی بیٹھے بلکہ دبکے ہوئے ایسی شدید گولہ باری کرتا ہے کہ متاثرین کو تو پہلے پہل سمجھ ہی نہیں آتی کہ یہ شہابیے کہاں سے گر کر آگ لگا رہے ہیں اور جب سمجھ آتی ہے تب تک فیسبکی محلے دار اپنی اپنی دیواروں کو پھلانگتے متاثرین کی کند پر جھاتیاں مارتے ہوئے گروہوں اور جتھوں کی صورت میں کمنٹوں کمنٹ ہوجاتے ہیں ۔اسی دوران ایک دوسرے کو، شیعہ، سنی، چوڑا، پٹواری، یوتھیے، جیالے، ڈیزلی، جماعتیے، پشتینی، اور نجانے کن کن القابات کی سندیں بانٹی  جاتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم پہلے اکہتر یا بہتر فرقوں کے درمیان پسے اور بٹے ہوئے تھے اب ہم فرقوں سے نکل کر پارٹیوں اور جماعتوں میں تقسیم ہوکر سوشل میڈیا گرد ہوگئے ہیں، اور یہ گردی تب تک رہے گی بلکہ مزید ستیاناس ہوتا رہے گا جب تک ہم سوشل میڈیا اور اخلاقیات کو نصاب میں شامل کر کے سنجیدہ مضمون کے طور پر پڑھنا اور پڑھانا نہ شروع کردیں۔

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply