ولادتِ نبی ﷺ کے وقت دنیا کے حالات(1)-عمیر فاروق

تاریخ کو عموماً تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عہدِ  عتیق یا ancient times, قرون وسطی یا ڈارک ایجز اور عہد ِ جدید۔عہد عتیق انسانی تہذیب و تمدن آرٹ سائنس کے عروج کا دور تھا جس میں  رومن، ایرانی اور چینی سلطنتیں  ان تہذیبوں کی نمائندہ تھیں۔ یہ یونانی سائنس اور ہندی علم ہندسہ کے عروج کا دور تھا جس کا اس عہد کے خاتمہ کے ساتھ ہی زوال شروع ہوگیا اور قرون وسطی کا آغاز۔

کلاسیکل مورخین عام طور پہ جنگ قادسیہ کو عہدِ  عتیق کے خاتمہ اور قرون وسطی کا آغاز اس لیے تصور کرتے آئے  ہیں کہ اس جنگ سے ایرانی سلطنت ختم ہوگئی۔ لیکن اس امر کی مکمل توجیہہ کبھی پیش نہ ہوسکی کہ اچانک اور یکایک کیوں عہدِ  عتیق کی سائنس آرٹ اور ترقی یکدم ختم ہوگئی جبکہ ایرانی سلطنت ان سب میں سرفہرست کبھی نہیں رہی روم یونان اور مصر ان علمی ترقیوں میں آگے رہے۔

جدید تحقیقات سے علم ہوتا ہے کہ عہدِ  عتیق کا خاتمہ نبی ﷺ کی پیدائش سے بھی کئی دہائیوں قبل سن 536عیسوی میں ہوگیا تھا۔ یہ وہ سال تھا جب دنیا ایک مختصر دورانیہ کے برفانی عہد ice age میں داخل ہوئی۔ اس واقعہ کا اس دور کے وقائع نویسوں نے تو ذکر کیا لیکن کلاسیکل مورخین نے اس کو اہمیت نہ دی البتہ اب اس پہ تحقیق جاری ہے۔ یہ تباہی اتنی ہولناک تھی کہ بازنطینی مورخ پروکوپیس procopius لکھتا ہے کہ پورا ایک سال سورج نکلا ہی نہیں۔ مستقل سورج گرہن کی سی کیفیت تھی سورج اپنی چمک اور تمازت کھو بیٹھا اور ایک نیلگوں تھال کی طرح دکھتا تھا راتوں کو تارے غائب ہوگئے موسم گڈمڈ ہوگئے چین میں گرمیوں میں برفباری ہوئی فصلیں ناکام ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ کیفیت دس سال تک رہی سبزہ غائب ہونا شروع ہوگیا انسان جانور بھوک سے مرنے لگ گئے۔ قسطنطنیہ جو اس عہد کا سب سے بڑا شہر تھا، میں روزانہ پانچ سے دس ہزار جنازے اٹھتے تھے۔

یہ نیوکلیئر موسم سرما کی طرح تھا لیکن یہ اثرات دس سال سے زیادہ عرصہ قائم رہے۔ جدید ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ تب آئس لینڈ میں بہت بڑے آتش فشاں یکدم پھٹے اور انکا غبار جس میں گندھک کے علاوہ مزید اجزا ء شامل تھے، نے تمام شمالی کرہ ارض کی بیرونی فضا پہ ایسی تہہ قائم کردی کہ سورج کی شعائیں زمین تک پہنچنے کی بجائے واپس خلا میں منعکس ہوتی رہیں۔ اور سورج کی روشنی ہی زمین پہ حرارت ، موسموں کے تبدل اور حیات کا سرچشمہ ہے۔ یوں کم سے کم شمالی کرہ ارض پہ مسلسل سردی نے بھوک اور قحط کو مسلط کردیا لیکن یہ آتش فشاں قریباً دس سال بعد 540 کی دہائی میں پھر پھٹے اور 550 کی دہائی میں ایک بار پھر۔ اس طرح تمام مہذب دنیا بھوک، افلاس ، قحط اور اموات کے ایک مسلسل دور میں داخل رہی جس کے نتیجہ میں قریباً ایک تہائی سے آدھی انسانی آبادی موت کے گھاٹ اتر گئی۔ یوں انسانی تہذیب خودبخود زوال کا شکار ہوگئی اور اس کے اثرات ہر جگہ تھے۔ سٹیپ کے گاتھ ہن خانہ بدوش قبائل نے بھوک کا شکار ہوکر یورپ، ہند اور ایران کا رخ کیا۔

صنعا یمن کی عمارتیں یہ طرز تعمیر ہزاروں سال پرانا ہے

یہ وہی دور تھا جب گاتھ قبائل نے روم تاراج کرکے مغربی رومن سلطنت کا خاتمہ کیا اور آخری رومن سیزر کو معذول کرکے گاتھک بادشاہتوں کی بنیاد رکھی۔ ادھر برصغیر میں یہ ہن گاتھ قبائل شاید سوریا ونشی راجپوتوں کی شکل میں وارد ہوئے جو آریا  قبائل کی آخری لہر تھی اور موریا سلطنت کا خاتمہ کرکے راج پوتی راجواڑے قائم کئے۔ اس کے ساتھ ہی سٹیپ میں اونچی ناک اور تیکھے نقوش کے آریا  قبائل ختم ہوئے اور انکی جگہ چپٹی ناک گول چہروں کے منگول قبائل نے لے لی۔

سن 570 عیسوی وہ سال تھا جب اس مختصر برفانی عہد کا خاتمہ ہوا ،سورج پھر سے اپنی آب و تاب سے چمکنے لگا اور موسم دوبارہ بحال ہوئے ۔سن 571 عیسوی نبی ﷺ  کی پیدائش کا سال تھا جس سے علم ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی عہدِ عتیق اور اس کی ترقی کا خاتمہ ہوچکا تھا اور انسانی تہذیب و تاریخ قرون وسطی میں قدم رکھ چکی تھی۔

اسی لیے قبول اسلام کے بعد جب عرب پھیلنا شروع ہوئے تو انکو ایران و روم کی اس مزاحمت سے سابقہ نہ پڑا جو اس کے برعکس ہوتی۔

دیکھنا یہ ہے کہ تب خود عرب کے کیا حالات تھے ؟
رومن جغرافیہ دانوں نے عرب کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا Arabia Petra اور Arabia Felix یعنی شمال کا پتھریلا خشک عربیا اور جنوب کا آباد خوش و خرم عربیا یعنی یمن اور اومان کی ساحلی پٹی جہاں مون سون کی بارشیں ہوا کرتی تھیں۔ Arabia Petra کو اردن کے نبطی شہر پیٹرا سے خلط ملط کرنا غلط ہے اگرچہ یہ عریبیا پیٹرا کا ہی حصہ تھا جو شمال میں پیٹرا شہر سے لیکر جنوب میں طائف تک پھیلا ہوا خطہ تھا۔

اسی طرح اگر جزیرہ نمائے عرب کا جائزہ لیں تو اس کا عہد عتیق، قرون وسطی اور عہد جدید کا سائیکل باقی دنیا سے مختلف اور قدیم تھا یعنی اس کے اس سائیکل کا آغاز باقی دنیا سے قبل ہوا تھا۔ عرب کا عہد عتیق ، جس میں وہ خوش حال متمدن اور ترقی یافتہ تھا بہت ہی قدیم یعنی بابل اور مصر کی تہذیبوں کا ہم عصر تھا۔ بابل اور نینوا کے عروج کے دور میں جب مصری تہذیب بھی عروج پہ تھی ، تب عریبیا پیٹرا اور عریبیا فیلکس بھی عروج کے دور سے گزر رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب یہودی ریاست شمال میں اسرائیل اور جنوب میں یہودیہ کی ریاستوں میں تقسیم نہ ہوئی تھی اور لبنان کی فونیقی تہذیب عروج پہ تھی ابھی یونانی تہذیب اپنے عہد طفولیت سے گزر رہی تھی۔

عریبیا فیلکس جس کا مرکز یمن کا شہر صنعا تھا کی خوش حالی کا راز اس کی زراعت خصوصاً سد مآرب کے ڈیم اور بحر ہند کی بحری تجارت تھا جو چین ، ہند سے افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ صنعا کے شہری ارتکاز کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پہلا انسانی شہر تھا جس میں لوگ چار پانچ منزلہ بلند فلیٹس کی عمارتوں میں رہتے تھے جو اس دور کے سکائی سکریپرز تھے روم میں اس کا رواج چند ہزار سال بعد میں ہوا۔

اسی طرح عریبیا پیٹرا کی خوش حالی کا ایک سبب تو دریائے اردن سے نکالے گئے واٹر چینلز تھے جو انکے شہروں پیٹرا، سدوم اور گمراہ کو پانی فراہم کرتے تھے اور دیگر عریبیا فیلکس سے آنے والے تجارتی قافلے تھے جو فونیقی اور یہودی شہروں کو مشرق کی درآمدات مہیا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ فونیقی اس وقت باقی عالمی تجارت کے اجارہ دار تھے جو یہ مال یورپ ، مصر اور شمالی افریقہ تک برآمد کرتے تھے۔ جبکہ خود یہودی ریاست میں ہیکل سلیمانی اپنی شان و شوکت سے قائم تھا اور یہ امیر ریاست تھی۔

اس عہد میں اگرچہ یونانی سائنس کا آغاز نہیں ہوا تھا لیکن مصری سائنس کا دور دورہ تھا عربی اور عبرانی زبانیں ترقی یافتہ شکل لے چکی تھیں۔ بابل و نینوا یعنی عراق کی سمیری، آرامی اور سریانی زبانیں میخی رسم الخط میں لکھی جاتی تھیں لیکن اسی دور میں خط میخی کی جگہ فونیقی حروف تہجی کے ابجد نے لی جو بعد میں سوائے چینی اور جاپانی کے تمام زبانوں کے رسم الخط کی ماں ثابت ہوا اور مصری کی طرز کے ہیرو غلافی یعنی تصویری رسم الخط ہر جگہ متروک ہوتا گیا۔

آج تک سوائے فونیقیوں کے، کسی قوم نے آواز کو حروف میں ڈھالنے کی دہلیز پار نہ کی آج کے تمام رسم الخطوط چاہے یونانی، لاطینی ہوں یا عربی فارسی ہندی و پہلوی سبھی فونیقی رسم الخط کی خوشہ چینی اور اسی سے مشتق ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ عرب کا عہد عتیق یعنی اس کا سنہری دور تھا۔ اس کا خاتمہ کیوں ہوا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟
ابھی اسی سلسلہ سے متصل دوسری تحریر میں۔
جاری ہے

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply