چین, ہندوستان اور گلگت بلتستان کا مستقبل۔۔۔شیر علی انجم

محترم قارئین5 اگست 2019 کو ہندوستان کے فاشسٹ وزیر اعظم مودی کی جانب سے جموں کشمیر لداخ کی خصوصی حیثیت کے حوالے سے ہندوستانی آرٹیکل 370 اور 35A کی خاتمے کے بعد کہا تو یہ جارہا تھا کہ مودی کے اُس غلط اقدام نے کشمیر کے مسئلے کو پھر سے زندہ کیا اور مسئلہ کشمیر واپس اقوام متحدہ کی  اُس  میز  پر چلا گیا، جہاں اقوا م متحدہ کی  قرارداد UNCIP بنی تھی۔ہندوستان کے اس دہشتگرانہ عمل پر پاکستان سمیت پوری دنیا نے احتجاج کیا ،وہیں ریاست جموں کشمیر کے عوام میں مزید  بے چینی پیدا ہوئی ۔کیونکہ مودی نے جہاں خصوصی حیثیت کو ختم کیا وہیں ریاست کو پھر سے بٹوارہ کرکے لداخ ریجن کے دو اضلاع کارگل اور لہہ کو الگ یونین ٹریٹری کا درجہ دے کر براہ راست دہلی سرکار کے ماتحت کردیا۔ ساتھ ہی اُنہوں  نے 10 لاکھ فوجی کشمیر میں اُتار دیے ۔

سوشل میڈیا پر وائرل خبروں کے مطابق فوج میں زیادہ تر آر ایس ایس کے دہشتگردو ں کو خصوصی ٹاسک دے کر کشمیر پہنچایا ہے ۔ اس دوران وہاں کے عوام نے کرفیو توڑ کر احتجاج کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ پاکستان نے اس مسئلے کی حساسیت اور اہمیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے امن کا پیغام دیا اور موودی کے غیر قانونی اقدام کو اقوام متحدہ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس حوالے سے پاکستان کے قریبی دوست ،چین ۔۔جوسلامتی کونسل کے ممبر ہیں،کے ذریعے اقوام متحدہ کا اجلاس بلایا لیکن کشمیر میں جاری بھارتی جارحیت میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ اس وقت مودی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو بھی اپنا اٹوٹ انگ سمجھ کر مسلسل دعویٰ کر رہا ہے۔

اسی طرح گزشتہ ماہ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ میں کشمیر کے لئے آیا ہوں اور حق ِ خودارادیت کشمیر کے عوام کا حق ہے لیکن بدقسمتی سے سوائے ایران اور ترکی کے دیگر طاقتور مسلم ممالک نے اس اہم اور دیرینہ حل طلب مسئلے کی حساسیت کا ذرّہ  بھر بھی احساس نہیں کیا بلکہ عمارات کی حکومت نے مودی کو عین اُسی وقت ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازدیا ،جب اُنہوں نے کشمیر میں جارحیت کی  ابتداء کی تھی۔

قارئین !مسئلہ کشمیر کے  حل کیلئے پاکستان کی جانب سے چین سے اُمیدیں لگانے کے حوالے سے بھی مختلف سیاسی سماجی اور صحافتی شخصیات نے سوال اُٹھایا کہ چین خود مسئلہ کشمیر کا عملی طور پر ایک فریق ہے اور وہ کیسے چاہے گا کہ کشمیر میں رائے شماری ہو اور اُنہیں اپنے قبضے میں موجود علاقوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس وقت چین کے صدر کا دورہ ہندوستان اور مسئلہ کشمیر عالمی اور ملکی میڈیا کیلئے اہم نقطہ نگاہ بنا ہوا ہے ۔ چینی صدر کا دورہ ہندوستان کے حوالے سے اب تک کی رپورٹ جو میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے، اس کے مطابق دونوں ملکوں نے ہر قسم کے مسائل پر طویل گفتگو کی سوائے کشمیر کے۔اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ شگزگام اور اقصائے چن جو گلگت بلتستان کا حصہ ہے اور رقبہ 5 ہزار مربع میل سے ز یادہ ہے، پر قابض چین کبھی نہیں چاہتا  کہ مسئلہ کشمیر رائے شماری کی طرف جائے اگر ایسا ہوا تو ریاست جموں و کشمیر گلگت بلتستان کے وہ علاقے جہاں چین نے اپنی دفاعی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے   انفراسٹرکچر تعمیر کیا  ہُوا  ہے ،اس کا کیا بنے گا؟ ستم ظریفی یہ بھی ہے اس وقت چین کا ذکر اقوام متحدہ کی  قرارداد میں بھلے ہی نہ ہو لیکن چین مسئلہ کشمیر کا عملی طور پر ایک فریق ہے اور فائدہ اُٹھا رہا ہے لہذا چین کبھی نہیں چاہے گا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو۔

محترم قارئین اقصائے چن اور شکسگام کے حوالے سے آج بھی بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں کہ چین کس طرح ریاست جموں کشمیر کے علاقے پر قابض ہوسکتا ہے۔لہذا عرض یہ ہے کہ بھارت اور چین کی جنگ کے بعد 1962 میں لداخ کا علاقہ اقصائے چین کا علاقہ چین کے قبضے میں چلا گیا تھا۔اقصائے چن، ریاست جموں وکشمیر کے شمال مشرقی علاقہ خطہ لداخ کی اکائی ہے۔ جس کارقبہ ریاست جموں و کشمیر کے کل رقبے (86000مربع میل) کے 20 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔ اسی طرح شکسگام جو بلتستان کا حصہ ہے کے حوالے سے 2 مارچ 1963 کو پاکستان اور چین کے مابین ہونے والے سرحد کے تعین کے معاہدے کے مطابق چین نے شکسگام کے 750 مربع میل علاقے پر پاکستان کا کنٹرول تسلیم کیا جبکہ پاکستان نے شکسگام وادی کا 2085 مربع میل علاقہ چین کے حوالے کیا ۔ ڈوگرہ دور میں شکسگام وادی بلتستان کے علاقے موجودہ ضلع شگر کا انتظامی حصہ تھی جہاں اماچہ کے شاہی خاندان نے ایک پولو گراونڈ بھی بنایا تھا اور یارقند کے امیروں اورموجودہ ضلع شگر بلتستان کے راجاوں کے درمیان پولو میچ بھی کھیلے جاتے تھے ۔ شکسگام میں تمام پہاڑوں، جھیلوں، ندی نالوں اور دروں کے نام بلتی یا لداخی زبانوں میں ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ وادی لداخ بلتستان کا حصہ ہے ۔

یوں گزشتہ ہفتےچینی صدر کا دورہ ہندوستان کے بعد بھارتی میڈیا نے ایک مرتبہ پھر گلگت بلتستان کے حوالے سے منہ کھول لیا ہے ،ان کا گلگت بلتستان پر مسلسل دعویٰ ہے، یہاں تک آرمی چیف نے بھی میڈیا پر کہا ہے جیسے ہی حکومت کی طرف سے ا شارہ ملے گا ، ہم نے اپنے علاقوں کو خالی کرانے کیلئے پیش قدمی کرنی  ہے۔مگر بدقسمتی سے پاکستان تحریک انصاف کی سادہ لوح عوام کو یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ چین سکیورٹی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کرکے مسئلے کو حل کی طرف لے جائے گا۔اس  تمام صورت حال دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں گلگت بلتستان کو ایک بار پھر سنگین حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔ مگر یہاں کے عوامی نمائندے اس حوالے سے بالکل ہی لاتعلق نظر آتا ہے بلکہ کچھ ایسا اقدام اُٹھانے کی تیاری کی جارہی ہےجو مودی کو گلگت بلتستان کی طرف پیش قدمی کا جواز فراہم کرے گا اور خطے کے عوام حقیقت سے منہ موڑ کر آج بھی مدہوش نظر آتے  ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دوسری طرف یہ بات بھی اب پہلے سے کہیں  زیادہ واضح ہوگئی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے تناظر میں گلگت بلتستان کسی بھی قسم کا صوبہ نہیں بن سکتا ہے جس پیکج  کے ساتھ جو نام دیا ہوا ہے اسی پر گزارا کرنا پڑے گا۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں کے سادہ لوح عوام کو آئینی عبوری کے نام پر دہائیوں سے گمراہ کرنے والے مذہبی اور سیاسی شخصیات سے سوال کون کرے گا؟ کہ آپ نے جھوٹ کے فارمولے کو حقیقت بنا کر عوام کو کس کے کہنے پر مسلسل گمراہ کیا؟آج بھی اگر پاکستان کے حکمرانوں کو کشمیر سے ذرا بھر بھی ہمدردی ہے تو گلگت بلتستان پر توجہ دینی ہوگی کیونکہ دنیا کی نگاہیں اس وقت گلگت بلتستان پر  ہیں ۔ اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کے حکومت کی جانب سے لینڈ ریفارمز کمیشن کے نام پر سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کا نیا ٹیکنکل طریقہ اپنا یا جارہا ہے اس سے مووی کو سیاسی طور پر فائدہ ہوگا۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے قراداد پر گلگت بلتستان سے عملدرآمد شروع کریں اور سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں ۔
(تاریخی بحوالہ جات : ایک براعظم کا دل ۔ مطبوعہ 1896 ۔ مصنف فرانسس ینگ ہسبینڈ ۔ صفحہ 200) ۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply