بڑے صاحب۔۔۔سبط حسن گیلانی

بڑے صاحب ہمارے گاؤں میں پیدا ہوئے یہاں کے ہی ہائی سکول سے میٹرک کیا اور پھر قریبی شہر کے کالج سے بی اے کرنے ہی والے تھے کہ ملک کے ایک بڑے اور مقتدر ادارے میں افسر بھرتی ہوگئے ۔ بیس سال بعد ایک بڑے رینک سے ریٹائر ہوئے ۔ شہر میں کوٹھی تھی گاؤں کے مکان کو بھی گرا کر بنگلہ بنا لیا تھا اور لاہور کے قریب دو مربعے زمین بھی ملی تھی انکی خدمات کے بدلے میں ۔ جب بھی گاؤں آتے اپنی بڑی سی لش لش کرتی گاڑی میں سوار ہو کر تو مسجد میں نماز پڑھنے ضرور جاتے اور مولوی صاحب اکثر انہیں وعظ کی دعوت بھی دیتے جسے وہ بخوشی قبول کرتے اور پھر مذہبی مسئلے بیان کرتے وہ لوگوں کو تاکید کرتے کہ  اپنے بچوں کو خدا کے دین کی راہ پر لگاؤ انہیں مجاہد بناؤ تاکہ تم قیامت والے روز بخشے جاؤ ۔ ان کے اپنے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی مگر دونوں بیٹوں کو انہوں نے برطانیہ پڑھنے کے لئے بھیجا ہوا تھا اور بیٹی کو ڈاکٹر بنا رہے تھے ۔ اپنی زمین پر انہوں نے گاؤں کے بچوں کی مذہبی تعلیم کے لیے مدرسہ بنانے کا اعلان کیا تو سارے گاؤں میں انکی تعریفیں ہوئیں مولوی صاحب نے اس گاؤں کو خوش قسمت قرار دیا جس میں ایسے دین دار اور صاحب حیثیت لوگوں نے جنم لیا ۔ حالانکہ مجھے یاد ہے جب وہ ابھی ریٹائر نہیں ہوئے تھے تو گاؤں کے لوگوں نے گاؤں میں ڈسپنسری نہ ہونے کی شکایت کی تھی اور معمولی نزلہ زکام کے لیے بھی تیس میل دور شہر جانے کی مشکلات بیان کی تھیں مگر انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی تھی ۔ وہ اکثر  اپنی بیٹھک میں آ ئے ہوئے لوگوں کو بتایا کرتے کہ صدر ایوب اور جنرل ضیاء جیسے دو چار اور لیڈر پیدا ہو جاتے تو آج یہ ملک صحیح  معنوں میں اسلام کا قلعہ ہوتا ، یہ سیاست دان ہیں جو ملک کو کافر ممالک کے نظام پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں اور اسلام کے نظام کے خلاف ہیں اور سب چور ڈاکو ہیں جو دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹ رہے ہیں ۔ جنرل ضیاء کو یاد کر کے اکثر کہتے وہ بہشتی جب دنیا سے گیا تو اس کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں تھا ، صلاح الدین ایوبی کے بعد امت مسلمہ کو ایسا جرنیل اور لیڈر نصیب ہوا تھا جس نے روس جیسی سپر پاور کے ٹوٹے ٹوٹے کر ڈالے تھے ۔ یہ سن کر میرے دماغ میں سوال ابھرا کہ پھر انہوں نے اپنے بچوں کو اسلامی ممالک کی بجائے ایک کافر ملک میں تعلیم حاصل کرنے کیوں بھیجا لیکن یہ سوال میں ان سے پوچھ نہیں سکا کیونکہ وہ ہمارے بڑے تھے۔ ایک دن گاؤں کے ایک بندے نے پوچھ لیا کہ صاحب رات ٹی وی پر سن رہا تھا کہ ایک مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کافروں کا بنایا ہوا علم ہے ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہمارے پاس اپنے دین کا جو علم ہے وہ ہی کافی ہے تو بڑے صاحب یہ سن کر جوش میں آ گئے اور اپنا نیا آئی فون کوٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے بولے یقیناً ہمارے علما سچ فرماتے ہیں حضرت علامہ مودودی کھول کھول کر بیان کر گئے  ہیں کہ جس سائنسی ترقی سے تم مرعوب ہو رہے ہو اس کی حقیقت تو مچھر کے پر سے بھی زیادہ حقیر ہے مگر تم لوگ کچھ پڑھو تو تمہیں خبر ہو ۔ ایک دن وہ مسجد میں واعظ کرتے بتا رہے تھے کہ میں اس لحاظ سے بڑا بدقسمت ہوں کہ جامع الازہر جا کر تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پوری نہ کر سکا ، اس وقت پھر یہ سوال میرے دماغ میں ابھرا کہ اگر یہ اتنی ہی بڑی خوش قسمتی کی بات تھی تو کم از کم ایک بیٹے کو ہی وہاں بھیج دیتے ، اس دن سخاوت کی دین میں جو فضیلت ہے اس پر بھی خاصا زور دیا اور بتایا کہ اسلام میں اونچ نیچ کی کوئی گنجائش نہیں سب انسان برابر ہیں جبکہ دوسرے ادیان میں ایسی کوئی بات نہیں ۔ اس وقت مجھے گاؤں کا چاچا بشیرا یاد آ گیا جو بڑے صاحب کے بنگلے پر ملازم ہے اور ایک دن وہ بتا رہا تھا کہ صاحب تنخواہ بہت تھوڑی دیتے ہیں اور چھٹی بھی نہیں دیتے ، مہینے میں ایک دن کی چھٹی دیتے ہیں اور ایک دن زیادہ رک جاؤں تو تنخواہ میں سے پیسے کاٹ لیتے ہیں ۔ بنگلے کے ملازمین کے لیے کھانا الگ سے بنتا ہے جو اکثر پتلی دال ہوتی ہے ، گھر کے اندر ملازمین کو سر پر ٹوپی کے بغیر گھومنے کی اجازت نہیں ، ملازمین کو مہمانوں کے سامنے بیٹھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ۔ اس سال صاحب اپنی بیگم صاحبہ کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کرنے بھی گئے تھے اور وہاں سے لوگوں کے لیے آب زم زم کھجوریں اور تسبیحات بھی لائے جب وہ گھر میں مبارک باد دینے کے لیے آ ئے ہوئے لوگوں میں تسبیحات اور آب زم زم تقسیم کر رہے تھے تو ان کے محلے کی ماسی نذیراں جس نے انہیں بچپن میں اٹھا کر گلیوں میں گھمایا تھا بولی وڈے صاحب میری یتیم دوہتری جوان ہو گئی ہے اس کو اپنے گھر والا کرنا ہے میں غریب ہوں اسے سوہا جوڑا کپڑوں کا بھی دینے لائق نہیں تو صاحب بولے نذیراں ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ تو خدا کی راہ میں خرچ کر آ ئے مگر تو فکر نہ کر میں ابھی گاؤں کے ناظم سے کہتا ہوں وہ تمہیں حکومت کے زکوٰۃ فنڈ سے کچھ مدد دلوا دے گا ،

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply