مبشر کی یاد میں ۔۔۔۔محمد شافع صابر

کل جیسے ہی پیپر دیکر فارغ ہوا، ابھی ہا سٹل کی طرف جانے ہی لگا تھا کہ  گھر سے امی کی کی کال آ گئی، ان کی آواز میں کچھ اداسی سی تھی،  وجہ دریافت کرنے پر بتانے لگیں کہ “مبشر کی وفات ہو گئی ہے، میں نے پوچھا کون مبشر؟؟ بولیں، تمہاری ٹیچر فاخرہ کا بھائی ۔ یہ سننا تھا کہ میرے اوسان خطا ہو گئے اور فون بند ہو گیا۔۔

اس کال کے بعد، ماضی کے سارے واقعات آنکھوں میں فلم کی طرح چلنے لگے۔
تب ہم گاؤں میں رہتے تھے، سکول سے آ کر میں کتاب کم ہی کھولتا تھا، ہوم ورک بھی اتنا خاص نہیں کرتا تھا، اس کا حل امی نے یہ نکالا کہ مجھے انکی سٹوڈنٹ فاخرہ کے گھر ٹیوشن پڑھنے بھیجا جانے لگا، میرے ساتھ میری بڑی بہن ڈاکٹر افراح بھی ہوتی تھی۔ ٹیچر فاخرہ اور انکی چھوٹی بہن نبیلہ امی کی اچھی سٹوڈنٹس میں سے  تھیں، اور دونوں اب   کالج میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں ۔ٹیچر (اب آپی ہی کہتا) فاخرہ کے ذمے  مجھے قرآن پڑھانا بھی تھا، جب کبھی کبھار وہ تھک جاتی تو مجھے  قرآن پڑھانے کی ذمہ داری  ان کے بھائی آصف اور مبشر پر آجاتی، ایسے ہی مبشر سے میری جان پہچان ہوئی۔
مبشر ایک عام سا لڑکا تھا، اسکے والد کی وفات اسکی پیدائش کے بعد ہی ہو گئی تھی، اسکی ماں نے سب بچوں کو پڑھایا لکھایا، مبشر سب بہن بھائیوں سے تعلیم میں کمزور تھا، البتہ کرکٹ اچھی کھیلتا تھا، گاؤں کی ٹیم کا اوپنر تھا۔۔۔

مبشر کی ایک عادت تھی وہ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا، میری  اس سے جان پہچان بس قرآن پاک پڑھنے کی وجہ سے بنی تھی، لیکن جب بھی ملتا، مسکرا کر مجھے گلے لگاتا، پھر میں ہاسٹل چلا گیا، رہائش بھی گاؤں سے شہر منتقل کر لی، رفتہ رفتہ گاؤں سے رابطہ بھی کم ہوتا گیا۔

مجھے اتنا پتہ  تھا کہ اس نے dvm کا ڈپلومہ کر لیا تھا اور فیملی سمیت بہاولپور شفٹ ہو گیا تھا۔ وہ ہنسے والا لڑکا، اب سنجیدگی کا پیکر تھا،اس کا سٹور اچھا چل رہا تھا۔آج جب اچانک اس کی ناگہانی وفات کا سنا تو دل کٹ سا گیا۔

موت وہ حقیقت ہے جس کو کوئی ٹال نہیں سکتا، لیکن کچھ لوگوں کا اس دنیا سے چلے جانا، آپ کے وجود پر ایک گہرا زخم چھوڑ جاتا ہے۔

حضرت موسی نے ایک بار اللہ سے کہا، یااللہ کتنا اچھا ہوتا، زندگی ہوتی اور موت نہ  ہوتی۔۔

تو اللہ نے جواب دیا، اے موسی، اگر موت نہ  ہوتی تو میرا دیدار کیسے ہوتا؟

موت برحق ہے، اللہ کی تدبیر کے آگے بے بس ہے ۔اس کے فیصلے وہ ہی بہتر جانتا ہے ، ہاں البتہ صبر کرنا انسان کے بس میں ہے۔

اللہ نے اپنے پیارے محبوب، نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم سے ان کے باپ کا سایہ آپ کی پیدائش سے پہلے ہی اٹھا لیا، آپ کی والدہ ماجدہ کا انتقال بھی آپ کی پیدائش کے بعد جلد ہی ہو گیا،پھر دادا عبدالمطلب نے پرورش کی، ان کی وفات کے بعد چاچا ابو طالب نے آپ کی پرورش کی۔جب آپ کے چاچا ابوطالب اور آپکی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کا انتقال ایک ہی سال ہوا، تو آپ نے اسے غم کا سال قرار دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر پے  درپے آزمائشوں کے بعد ایک ایسی شخصیت سامنے آئی جس کی نظیر  رہتی دنیا تک نہیں ملے گی۔

موت سے کسی کو فرار ممکن نہیں۔ اسی لئے بزرگ فرماتے ہیں انسان کو رخت سفر تیار رکھنا چاہیے، پتا نہیں کب، کہاں بلاوا آ جائے۔۔
آج کا انسان کام میں اتنا مصروف ہو گیا کہ وہ موت کو یکسر ہی فراموش کر بیٹھا ہے ۔انسان کو موت سے پہلے موت کی تیاری کر لینی چاہیے ۔لیکن ہم اپنی انا کی تسکین کے لیے زندہ انسانوں کی قدر نہیں کرتے، جب ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔، پھر سوائے افسوس ،ندامت اور پچھتاوے کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا ۔
خدارا، زندہ انسانوں کی قدر کرنا سیکھیں۔ یہ سب مال و دولت، شان و شوکت عارضی ہے۔ان کے پیچھے لگ کر اپنی آخرت خراب مت کریں۔ ان عارضی  و مادی  اشیاء کے پیچھے اتنا مت بھاگیں کہ زندہ انسانوں کو ہی فراموش کر دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دینا کی زندگی عارضی ہے۔ہم اس عارضی زندگی کو بہتر بنانے کیلئے دن رات ایک کر دیتے ہیں ۔لیکن کیا ہم نےکبھی غور کیا، ہم نے اگلے جہان کے لئے، جو مستقل ہے، اس کے لئے کیا تیاری کی؟ کیا ہم نے اس کو بہتر بنانے کے لئے تگ ودو کی؟ اگر نہیں کی ،تو کیجیے ۔۔ موت سے پہلے موت کی تیاری کر لیں۔۔تاکہ جب بھی بلاوا آ جائے تو کوئی شرمندگی نہ  ہو۔
اللہ تعالیٰ، مبشر کے صغیرہ کبیرہ گناہ معاف فرمائے، اسکو جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply