کائناتی مہمان۔۔۔۔محمد شاہ زیب صدیقی

19 اکتوبر2017ء کی بات ہے کہ چِلّی میں موجود پین سٹار ٹیلی سکوپس کے ذریعے رابرٹ وریک نامی ماہرِ فلکیات نے ایک پُراسرار شے کو آسمان پہ منڈلاتے دیکھا۔ اس کی پُراسراریت کا اندازہ ایسے لگائیے کہ اِس کے متعلق رابرٹ وریک نے جیسے ہی عالمی فلکیاتی تنظیموں کو بتایا تو پوری دنیا میں کمپین چل پڑی اور دنیا کی پانچ بڑی خلائی آبزرویٹریز نے اس شے کو بیک وقت اپنے نشانے پہ رکھا اور ڈیٹا جمع کیا، تحقیقات کے بعد اسے دُم دار ستارہ قرار دیا گیا اور اس کا نامC/2017 U1رکھا گیا ، لیکن بعد ازاں اس پہ اعتراض اٹھایا گیا کہ دُم دار ستاروں کے پیچھے گیسز پہ مشتمل ایک دُم ہوتی ہے، لیکن اس پتھر سے ایسی کوئی گیس خارج ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھیں، جس کی وجہ سے فلکیاتی اجسام کو نام دینے والی تنظیم International Astronomical Union نے اس کو Asteroid قرار دے کر اس کا نیا نام A/2017 U1رکھ دیا۔

ابھی اس پُراسرار شے کے متعلق قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ نئی تحقیقات نے سائنسدانوں کو چونکا دیا، اِن تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ اس پتھر کی رفتار 50 کلومیٹر فی سیکنڈ ہےاور ہمیں معلوم ہے کہ نظام ِ شمسی سے باہر نکلنے کے لئے 42 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار چاہیے ہوتی ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ لمبوترا پتھر نظام شمسی کے باہر سے آیا ہے۔ یہ حقیقت جاننے کے بعد سائنسدانوں نے جدید کمپیوٹر سیمولیشنز کے ذریعے اسکے راستے کا نقشہ بنانا شروع کیا ،جس سے معلوم ہوا کہ 9 ستمبر 2017ء کو یہ سورج کے نزدیک سے گزرا ، اس وقت اس کی رفتار 87 کلومیٹر فی سیکنڈ تک تھی،یہی وجہ ہے کہ International Astronomical Union نے اعلان کیا کہ یہ کوئی عام پتھر نہیں بلکہ یہ پہلا پتھر ہے جو نظام شمسی کے باہر سےآیا ہے، لہٰذا اسے انٹرسٹیلر پتھر قرار دے کر1I نام دیا گیا، اس نام میںI کا مطلب انٹرسٹیلر ہے جبکہ 1 کا مطلب ہے پہلا پتھر، یعنی ہم نے نسل انسانی میں پہلی بار ایسے پتھر کا نظارہ کیا جو ہمارے نظام شمسی میں بطور مہمان آیا تھا اور سورج ، زمین کےنزدیک سے چکر لگا کر اب نظام شمسی سے باہر نکل رہا ہے۔ عوام الناس کی آسانی کے لئے اسے Oumuamua (اومواموا) نام دے دیا گیا۔”اومواموا “ہوائین زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ ” دور سے آیا ہوا پہلا مسافر”۔

بات صرف یہی تک محدود ررہتی تو ٹھیک بھی تھی مگر اس پتھر نے سائنسدانوں کو مزید ورطہ حیرت میں اس وقت ڈبو دیا جب اس سے آنے والی روشنی کو ریکارڈ کرکے معلوم ہوا کہ بظاہر یہ پتھر تو گول ہی دکھائی دے رہا ہے مگر اس سے آنے والی روشنی ہر 8 گھنٹوں میں کم ہوتی ہے اور زیادہ ہوجاتی ہے، ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب کوئی شے لمبی ہواور مختلف سمتوں میں قلابازیاں کھا رہی ہو، جس سے اندازہ ہوا کہ اس کی لمبائی 100 سےایک ہزار میٹر اور چوڑائی 35 سے 167 میٹر کے درمیان ہے، یعنی یہ گول نہیں بلکہ سِگھار کی طرح لمبوترا پتھرہے۔ اس سےمنعکس ہونے والی سُرخ رنگ کی روشنی سے مزید معلوم ہوا کہ یہ مکمل دھات سے بنا ہوا پتھر ہے،جبکہ اس کی چمک بتا رہی تھی کہ اس نے کروڑوں سال تک کائنات میں موجود خطرناک ریڈیشنز کا سامنا کیاہے۔اکثر و بیشتر نظام شمسی کے کناروں سے آنے والے پتھروں پہ گیسز کی ایک برفیلی تہہ موجود ہوتی ہے مگر اومواموا پہ برفیلی تہہ کا نام و نشان نہیں تھا۔یہ تمام نشانیاں دیکھ کر سائنسدانوں کو 1973ء میں شائع ہونے والے سائنس فکشن ناول Rendezvous with Rama کی یاد آگئی کیونکہ اس ناول میں موجود”راما” نامی خلائی جہاز کچھ ایسا ہی تھا جو کسی اور ستارے سے زمین کی جاسوسی کرنے آتا ہےاور اِسی انداز سے نظام شمسی میں داخل ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ اس لمبوترے پتھر کے متعلق قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں کہ کہیں یہ کوئی ایلین اسپیس شپ تو نہیں تھی جو زمین کا چکر لگانے آئی تھی؟ کچھ فلکیات دانوں نے اس کو اتنے وثوق سے ایلین شپ کہا کہ باقاعدہ ریڈیو ٹیلی سکوپس کو اس کی جانب کرکے سگنلز بھی سننے کی کوشش کی گئی مگرایسے کوئی سگنلز ہمیں موصول نہ ہوئے۔اِس پتھر کو ایلین شپ ثابت کرنے کے لئے باقاعدہ سائنسی ریسرچ پیپرز تک لکھے گئے۔

لیکن اس سب کے جواب میں سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر یہ کسی قسم کا خلائی جہاز ہوتا تو یہ یقیناً عجیب و غریب راستے کو فالو کرتا مگر تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ اسی راستے پہ گامزن ہے جو خالصتاً سورج کی کشش ثقل کے باعث بنا ہے۔اس کے راستے کو دیکھتے ہوئے سائنسدانوں نے اندازہ لگایا کہ “اومواموا” نے لائیرا (Lyra) نامی ستاروں کے جھرمٹ میں موجود “ویگا”ستارے سے چھ لاکھ سال پہلے اپنا سفر شروع کیا ہوگا، چھ لاکھ سال خلاء کی تاریکیوں میں گُم رہنے کے بعد اب یہ ہمارے سورج کا چکر کاٹ کر ایک اور لمبے سفر کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس دوران اکتوبر 2017ء کو یہ زمین کے نزدیک سے گزرا، جس کے بعد نومبر 2017ء کو مریخ ، مئی 2018ء کو مشتری ،جبکہ جنوری 2019ء کو زحل کے نزدیک سے گزرا۔2022ء میں یہ نیپچون کو کراس کرے گا،جس کے بعد یہ اگلے 20ہزار سال تک ہمارے نظام شمسی کے کناروں کی جانب بڑھتا رہے گا اور بالآخر ہمارے کائناتی مُحلّے کو الوداع کہہ دے گا۔اس کے بعد یہ 76 لاکھ سال تک کائناتی تاریکیوں میں اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اپنی اگلی منزل پہ پہنچے گا جو کہ Pegasusنامی ستاروں کا جھرمٹ ہے۔

جنوری 2018ء کو اس کی روشنی اس حد تک کم ہوگئی کہ یہ عام ٹیلی سکوپ سے دکھائی دینے کے قابل نہیں رہا، جسکے بعد ہبل ٹیلی سکوپ کو اس کے تعاقب میں لگا دیا گیا، اس دوران 27 جون 2018ء کو ہمیں اس کی رفتار میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو ملا، یہ ایک چونکا دینے والی بات تھی کیونکہ یہ رفتار میں اضافہ کشش ثقل کے باعث نہیں تھا!، پھر “اومواموا” کی رفتار میں اضافہ کیوں ہوا؟ اس کا ممکنہ جواب فلکیات دان یہی دیتے ہیں کہ ممکن ہے اس کی سطح میں کہیں گیسز ٹھوس شکل میں پھنسی ہوں، جو سورج کی مسلسل روشنی کے باعث پگھل گئیں ، اس دوران جب وہ پریشر سے باہر نکلیں تو انہوں نے اس کی رفتار بڑھا دی، لیکن حیرانگی کی بات یہ تھی کہ اس دوران کسی قسم کی کوئی گیس ریڈیشنز کی شکل میں نکلتی ہمیں دکھائی نہیں دی، اسی خاطر فلکیاتی جستجو کے حامل احباب یہ مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس پتھر کی جانب کوئی خلائی مشن لازمی بھیجا جانا چاہیےتاکہ اس کی حقیقت اور تاریخ معلوم کی جاسکے۔

اس پُراسرار پتھر نے کس ستارے سے اپنا سفر شروع کیا؟ اس متعلق سائنسدان جواب دینے سے قاصر ہیں، کیونکہ اندازہ یہی کہتا ہے کہ یہ پتھر اربوں سال پُرانا ہوسکتا ہے اور کئی ارب سالوں سے ہماری کہکشاں میں آوارہ گھوم پھر رہا ہے، اس دوران یہ کئی ستاروں کا مہمان بھی رہ چکا ہوگا اور آجکل ہمارے سورج کا مہمان بنا ہوا ہے، یہ ممکن ہے کہ یہ پتھر کسی تباہ حال سیارے کا ٹکڑا ہو، کیونکہ جب سیارے آپس میں ٹکراتے ہیں تو ان کے ٹکڑے کئی بار اتنی شدید رفتار حاصل کرلیتے ہیں کہ اپنے ستارے کی کشش سے باہر نکل جاتے ہیں، یا پھر جب کوئی ستارہ اپنی طبعی عمر پوری کرکے شدید قوت سے پھٹتا ہے تو اُس واقعے کو سُپرنووا کہتے ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ پتھر کسی سیارے کا ٹکڑا ہو،جو سُپر نووا کے باعث اپنے ستارے کے مدار سے نکل گیا اور اس دوران مختلف ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے ان کی کشش ثقل کے باعث ٹوٹ پھُوٹ کا شکار ہوگیا ہو اور “اومواموا” اُسی سیارے کا ایک ٹکڑا ہو جو ہمارے سورج کی جانب آپہنچا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نومبر2018ء میں ہاورڈ یونیورسٹی کے طالبعلم عامر سراج نے مفروضہ پیش کیا کہ عین ممکن ہے کہ اومواموا کی طرح کے کئی پتھر ہمارے نظام شمسی میں آج بھی موجود ہو جو زیادہ رفتار نہ ہونے کے باعث نظام شمسی میں رہ گئے ہوں،اس ضمن میں انہوں نےمشتری کے نزدیک چند شہابیوں کی نشاندہی بھی کی جو ممکنہ طور پہ نظام شمسی کے باہر سے آئے تھے۔ آج بھی ہمیں معلوم ہے کہ ایسے پتھر ہزاروں کے حساب سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہورہے ہیں، لیکن کھربوں پتھروں میں ایسے کو دریافت کرنا یقیناً جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایسے پتھروں کو ڈھونڈنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ ایسے لگائیے کہ اکتوبر 2017ء سے لے کر 2019ءتک ہمیں کوئی ایسا دوسرا پتھر نہیں ملا تھا لیکن اب حال ہی میں 30 اگست 2019ء کو روس سے تعلق رکھنے والے فلکیات دان Borisovنے ایک اور ایسا آوارہ پتھر دریافت کرلیا ہے، جسے 2I/Borisovنام دیا گیاہے۔ بوریسوف کی اس دریافت کا موازنہ سائنسدان پلوٹو کی دریافت سے کررہے ہیں کیونکہ بوریسوف نے کسی دیوہیکل ٹیلی سکوپ سے نہیں بلکہ اپنے ہاتھوں سے بنائی گئی ایک معمولی ٹیلی سکوپ سےکے ذریعے اس پتھر کو دریافت کیا ہے۔ یہ “Cassiopeia” نامی جھرمٹ سے آیا ہےاور 2 کلومیٹر کے سائز کا حامل ایک پتھر ہے جس سے گیسز کا اخراج ہورہاہے۔یہ دسمبر 2019ء میں سورج کے نزدیک پہنچے گا، اس دوران اس کا کسی بھی سیارے سے سامنا نہیں ہوگا، سورج کے گرد چکر لگانے کے بعد یہ Telescopium نامی جھرمٹ کی جانب بڑھ جائے گا۔یہ ستمبر 2020ء تک عام ٹیلی سکوپس سے دکھائی دیتا رہے گا، جس کے بعد اکتوبر 2020ء میں ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے اس کو کھوجنے کی کوشش کی جائے گی۔چونکہ اس کی اور اومواموا کی رفتار انتہائی تیز ہے جس وجہ سے سائنسدان ان کی جانب مشن بھیجنے سے قاصر ہیں، اندازہ ہے کہ اگر ہم کسی ایسے پتھرپہ مشن لینڈ کروانا چاہتے ہیں تو اس کےلئےہمیں 5 سال پہلے سے تیاری کرنی پڑے گی۔ہماری کائنات حیرت کدہ ہے، اور یہ حیرت کدہ ہمیں صدیوں سے حیرت زدہ کرتا آرہا ہے۔ اس سارے ضمن میں انسان جب کائنات کو کھوجنے کی بات کرتا ہے تو کئی سوالات اُٹھتے ہیں، کہ ہم کائنات کے متعلق کتنا جانتے ہیں؟ اور جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ حقیقت کے کتنا قریب ترین ہے؟ کیونکہ ابھی تو ہم اپنے نظام شمسی کی رنگینیوں سے باہر نہیں نکل سک رہے ، باہری کائنات ہمارے لئے کتنے حسین مناظر سموئے ہوئے، اس کا گمان کرنا بھی شاید ممکن نہ ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply