یہ دنیا اتنی بری نہیں۔۔۔۔۔وہارا امباکر

“مبارک ہو، تاریخ میں پہلی بار میں ہم ایک تاریخی سنگِ میل تک پہنچ گئے ہیں۔ ہم اب پہلی بار ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں غربت دنیا کی اکثریت کو تنگ نہیں کرتی”۔ یہ جملہ درست ہے لیکن کسی محفل میں ذرا کہہ کر دیکھیں۔ آپ کی “اصلاح” کروائی جائے گی۔ لیکن چلیں، آج کچھ دیر کے لئے وہ یاسیت کی ٹوکری الگ رکھ کر دنیا کو ڈیٹا کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

آج اب اس سیارے کی زیادہ آبادی مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے یا پھر امیر ہے۔ جی جی، مجھے معلوم ہے کہ غربت بہت ہے لیکن اس سے پہلے ہم کبھی ایسی دنیا میں نہیں رہے جہاں اکثریت غریبوں کی نہ ہو۔ اور نہیں، مجھے یہ مت بتائیے کہ یہ زبردست خبر نہیں۔ شاید آپ کچھ سوال پوچھ رہے ہوں۔ جیسا کہ “یہ پوسٹ لکھنے والے کا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا”، “ہر طرف تو مایوسی نظر آتی ہے”، “کیا خبریں غلط ہیں” اور “اگر ایسا ہے بھی تو پھر ماحول؟”، “کیا دنیا تباہ نہیں ہونے والی؟” تو چلیں پھر ان سوالوں کو دیکھتے ہیں۔

عام تاثر یہ ہے (اور تمام دنیا میں ہے) کہ ہم ایک دکھ سے بھری دنیا میں رہتے ہیں۔ امیر اور غریب میں بہت فرق ہے۔ ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ جی ٹھیک ہے، ایسا ہی ہے۔ لیکن یہ سب کم ہو رہا ہے۔ جب بھی ٹی وی کھولیں، انٹرنیٹ پر خبریں دیکھیں، ہمیشہ ہر طرح کی تباہی اور بربادی کا ذکر ملتا ہے۔ کبھی کوئی اچھی خبر نظر نہیں آئے گی۔ حالانکہ یہ اہم ہیں، لیکن اچھی خبریں دلچسپی کا باعث نہیں بنتیں۔

بروکنگ انسٹی ٹیوٹ اور ورلڈ ڈیٹا لیب کے مطابق یہ غیرمعولی سنگِ میل ہم نے ستمبر 2018 کو عبور کیا تھا جب آبادی کی اکثریت غریبوں کی نہیں تھی۔ اب تین ارب اسی کروڑ افراد کا تعلق مڈل کلاس یا اس سے اوپر سے ہے۔ مڈل کلاس کا مطلب وہ لوگ جو واشنگ مشین یا فریج جیسی چیزیں رکھ سکتے ہیں، ریسٹورنٹ جا سکتے ہیں، غیرمتوقع بیماری یا کچھ دیر کی بے روزگاری ان کو غربت میں نہیں دھکیل دیتی۔ اس سٹڈی میں اس کا معیار گیارہ ڈالر فی کس روزانہ کی پی پی پی رکھا گیا ہے۔ لیکن ابھی اس کا بہترین حصہ باقی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ غربت بہت ہے۔ دنیا کے پینسٹھ کروڑ افراد شدید غربت والی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کو خوراک جیسی بنیادی ضرورت کی گارنٹی بھی نہیں۔ یہ چھوٹا نمبر نہیں لیکن پچھلی کچھ دہائیوں نے سب کچھ اس تیزی سے بدلا ہے کہ یہ عدد بھی کم ہو رہا ہے۔ کتنی تیزی سے؟ ہر سیکنڈ میں ایک شخص شدید غربت کے جال سے نکل رہا ہے۔ 1990 سے اب تک تین چوتھائی لوگ اس سے نکل چکے ہیں۔ اس سے زیادہ تیزرفتار وہ عدد ہے جس سے لوگ مڈل کلاس میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس سے پانچ گنا تیز۔ اگر یہی رفتار 2030 تک جاری رہے تو اگلے بارہ سال میں دنیا کے دو تہائی لوگوں کا تعلق مڈل کلاس سے ہو گا۔ بڑی مڈل کلاس کا مطلب یہ کہ زیادہ تعداد میں وہ لوگ جو پڑھ سکیں گے، علم پھیلا سکیں گے، کاروبار شروع کر سکیں گے، نئے ادارے بنا سکیں گے، اپنی حکومتوں سے زیادہ سوال پوچھ سکیں گے۔ دنیا کو مزید تیزی سے آگے بڑھا سکیں گے۔ اس میں سب سے تیزی سے نکلنے والوں میں بڑا حصہ دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والی ممالک یعنی انڈیا اور چین کا ہے۔

اگر آپ کے ذہن میں ماحول اور آلودگی اور وسائل کا سوال آ رہا ہے تو وہاں بھی خبر بری نہیں۔ بدلتا کلائیمیٹ ، مٹتی انواع، آلودہ پانی، یہ سب کہنے کی ضرورت ہی نہیں، سب ان چیلنجز کا جانتے ہیں۔ خبریں دیکھیں تو لگتا ہے کہ ہم تیزرفتاری سے مکمل تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لوگ جب امیر ہوں گے تو اس کا کیا ہو گا؟ یہ سب کیسے چلے گا؟

ایک خاص حد کے بعد دولت اور ماحول کا تعلق مثبت ہو جاتا ہے اور یہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ ماحول کے لئے ہم دنیا کی بڑی اکانومیز کو دیکھ لیتے ہیں کہ وہاں حالیہ برسوں میں کیا ہوا ہے۔ یعنی امریکہ، یورپی یونین، چین اور جاپان میں۔ 1960 میں امریکہ میں فی ڈالر پروڈکشن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 0.94 کلوگرام تھا، 2014 میں یہ گر کر 0.34 تک رہ گیا تھا۔ یعنی ایک تہائی ہو گیا تھا۔ یورپ نے 1991 سے اب تک اس میں چون فیصد کمی کی ہے اور یہی نمبر جاپان کا ہے۔ چین نے پچھلی چار دہائیوں میں 75 فیصد کمی کی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی اور ماحولیات کے مسئلے سے آگاہی آلودگی میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔ کم آلودگی کے ساتھ زیادہ پروڈکشن ہو رہی ہے۔ ہاں، آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ ہمارے سیارے کو ہونے والے نقصان کی شرح کم ہو رہی ہے اور کچھ جگہوں پر یہ حالات بہتری کو جانا شروع ہو گئے ہیں۔ 1970 سے اب تک امریکی آبادی میں چالیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگ ڈھائی گنا زیادہ امیر ہو گئے ہیں، گاڑی پہلے سے دگنی چلاتے ہیں لیکن پھر بھی پانچ بڑے آلودگی کے عناصر کی سطح کا دو تہائی کم ہو چکا ہے۔ (1970 وہ سال تھا جب امریکہ میں ماحولیات کی حفاظت کی ایجنسی قائم کی گئی)۔

جب معاشرہ خوشحال ہوتا ہے تو ماحول کی پرواہ بھی زیادہ کرتا ہے اور صاف ٹیکنالوجیز کی طرف زیادہ فوکس کرتا ہے۔ جرمنی میں مہنگی لیکن صاف توانائی کے حالیہ بڑے پراجیکٹس اس کی مثال ہیں۔ آبادی بڑھنے کی شرح میں بھی کمی آتی ہے (پاکستان کے شہری علاقے بھی اس کی مثال ہیں)۔ ہوا، پانی، جنگل اور قدرتی رہنے کی جگہوں کے انڈیکس میں اس کے دلچسپ نتائج ہیں۔ دنیا کے 180 ممالک اس کا حصہ ہیں۔ پچھلے دس برسوں میں اس انڈیکس میں دو ملکوں کو چھوڑ کر باقی تمام ملکوں میں اس میں بہتری آئی ہے۔ اور ساتھ یہ کہ جو ممالک زیادہ امیر ہیں، ان کو آب و ہوا بھی زیادہ صاف ہے۔ امیر ملک ماحول بچانے کیلئے زیادہ وسائل خرچ کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔ دنیا کے protected areas کا رقبہ 1990 کے مقابلے میں دگنا ہو چکا ہے۔ اب دنیا کا پندرہ فیصد سے زیادہ علاقہ پروٹیکٹڈ ہے۔ جنگلات کا ختم ہونا جو بہت بڑا عالمی ماحولیاتی مسئلہ ہے، کم ہو رہا ہے۔ ایمیزون کے جنگل کے کم ہونے کی شرح سب سے زیادہ 1995 میں تھی۔ 2004 میں یہ گرنا شروع ہوئی اور اگلے دس برسوں میں صرف پانچواں حصہ رہ گئی۔

بڑی مڈل کلاس کا مطلب زیادہ لوگوں میں ماحولیاتی آگاہی بھی ہے اور یہ بھی کہ زیادہ لوگ صاف ٹیکنالوجیز پر کام کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ہمیں بڑے مسائل کا سامنا نہیں۔ بہت بڑے چیلنج ہیں لیکن ٹرینڈ حوصلہ افزا ہے۔ ماحول کی حفاظت کیلئے بہت کام کرنا ہے لیکن ہم عظیم تباہی کے دہانے پر بھی نہیں۔ اور شواہد بتاتے ہیں کہ لوگوں کے معیارِ زندگی کا بلند ہونا اس میں مدد کر رہا ہے۔ امیر اور منظم معاشرے اس سلسلے میں بہتر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔

اگر آپ پوچھیں کہ قدرتی آفات، جنگوں، وباووؐں اور بیماریوں سے ہونے والی اموات کے بارے میں کیا خیال ہے تو ان میں ہونے والے حیرت انگیز کمی کی پھر ایک الگ پوسٹ کرنا پڑے گی۔ جو خبروں میں ہے، وہ درست لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے سوویت یونین کے قحط یا دریائے یانگ زی کے سیلاب سے ایک ہی وقت میں ہونے والی کئی ملین اموات کی خبروں کا نہ ہونا ایک دیکھنے والی خبر ہے۔

اور اگر کوئی کہے کہ یہ سب باقی دنیا کا معاملہ ہے۔ پاکستان سپیشل کیس ہے۔ تو نہیں، وہ ایک بار پھر غلط ہو گا۔

لیکن ایک بار پھر وارننگ۔ کسی محفل میں ایسی باتیں کریں گے تو پاپولر نہیں رہیں گے۔ اچھی خبر، خبر نہیں ہوتی۔ اعداد و شمار روز کی خبروں کی پینٹ کی گئی تصویر کو سپورٹ نہیں کرتے۔ یہ دنیا اتنی بُری نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: روزانہ خبریں دیکھنا مضرِ صحت ہے۔ ایسا کرنے والے لوگوں کا پوسٹ سے خاصا اختلاف رکھنے کا امکان ہے اور ممکن ہے کہ کمنٹس میں بھی نظر آئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply