• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا انٹر نیشنل لاء کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کی اجازت دیتا ہے؟

کیا انٹر نیشنل لاء کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کی اجازت دیتا ہے؟

بھارت کے بڑھتے ہوئے مظالم اور اقوام عالم کی لاتعلقی سے تنگ آ کر کشمیری اگر بندوق اٹھانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو کیا انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں یہ ایک جائز اقدام ہو گا؟میں اس وقت حکمت عملی اور زمینی حقائق کی بات نہیں کر رہا ، میرے پیش نظر صرف معاملے کا قانونی پہلو ہے۔1949 ء کے جنیوا کنونش کے ایڈیشنل پروٹوکول 1کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میں اس حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔یہ پروٹوکول بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مسلح تصادم اور جنگوں کے متاثریں کے تحفظ سے متعلق ہے اور اس کے آرٹیکل 1 کی ذیلی دفعہ 4 میںکہا گیا ہے کہ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے اگر کوئی کسی غاصب قوت سے لڑ رہا ہے تو اس مسلح تصادم کو بھی دیگر جنگوں کی طرح (انٹرنیشنل آرمڈ کانفیلکٹ) بین الاقوامی تنازعہ سمجھا جائے گا۔اہم نکتہ یہ ہے کہ اسے دہشت گردی نہیں تصور کیا جائیگا بلکہ یہ بین الاقوامی تنازعہ قرار پائیگا ۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 3314بھی کشمیریوں کو مسلح جدوجہد کا حق دیتی ہے۔

اب پچھتاتے ہیں خداایجاد کرکے۔۔۔اسد مفتی

اس قرارداد میں ’ جارحیت‘ کے لفظ کی تشریح کرتے ہوئے آرٹیکل 7 میں کہا گیا کہ حق خود ارادیت اور غاصب قوت سے آزادی کے لیے جو جدوجہد کی جا رہی ہو گی اس پر اس قرارداد کا اطلاق نہیں ہو گا یعنی اسے ناجائز تصور نہیں کیا جائے گا۔ یہاں بعض مبصرین نے یہ نکتہ آفرینی ضرور کی کہ قرارداد میں صرف Struggle کی بات کی گئی ہے Armed Struggle یعنی مسلح جدوجہد کی بات تو نہیں کی گئی ۔لیکن اگر اس لفظ کا سیاق و سباق دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسلح جدوجہد ہی کی بات کی جا رہی ہے کیونکہ یہ قرارداد ’ جارحیت‘ کی تشریح کر رہی ہے اور جارحیت کو عالمی امن کے خطرہ قرار دے رہی ہے اور اس میں یہ استثناء رکھا گیا ہے کہ حق خود ارادیت کے لیے اور غاصب قوت سے آزادی کی خاطر جدوجہد کی جا سکتی ہے۔یہ پوری قرارداد سیاسی جدوجہد سے متعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق جنگ اور جارحیت سے ہے ۔اس لیے قرارداد میں جو بھی اصطلاح استعمال کی جائے گی اسے سیاق و سباق میں دیکھنا ہو گا۔ جمہوری جدو جہد کی تو ویسے بھی اجازت ہے اور اس کے لیے جنرل اسمبلی کو اتنے تردد میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی؟جو چیز پہلے ہی سے جائز تھی اسے جائز قرار دینے کے لیے جنرل اسمبلی کو پوری قرارداد لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ پھر بھی اگر کوئی اختلاف یا ابہام موجود تھا تو جنرل اسمبلی نے اسے بھی دور کر دیا۔

کیا مواخذہ اور سکینڈلوں میں گھرے ٹرمپ اگلا صدارتی الیکشن جیت پائیں گے۔۔ غیور شاہ ترمذی

3 دسمبر 1982 ء کو جنرل اسمبلی میں ایک اور قرارداد ( نمبر 37/43) منظور کی گئی اور اس کی کلاز 2 میں نہایت واضح انداز سے لکھ دیا کہ حق خود ارادیت اور غاصبانہ قبضے کے خلاف مسلح جدو جہد ایک جائز اقدام تصور ہو گا۔ یہ قرارداد اتنی واضح ہے کہ اس کے بعد کسی اگر مگر کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ۔ ذرا دیکھ لیجیے اس قرارداد میں کیا لکھا گیا: Reaffirming the importance of the universal realization of the right of peoples to self-determination,….. (General assembly) Reaffirms the legitimacy of the struggle of peoples for independence, territorial integrity, national unity and liberation from colonial and foreign domination and foreign occupation by all available means, including armed struggle; یہاںدو چیزیں اہم ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ جدو جہد کی نوعیت کو واضح کر دیا کہ حق خود ارادیت اور غاصب قوت کے ناجائز قبضے کے خلاف آزادی کے لیے لڑنے والوں کو مسلح جدو جہد سمیت تمام دستیاب ذرائع استعمال کر نے کا حق ہے۔ یہاں all available means, including armed struggle کہا گیا ہے اور اس میں جہان معنی پوشیدہ ہے۔ دوسری اہم بات اس قرارداد میں reaffirm کا لفظ استعمال ہونا ہے۔ اس کا مطلب ہے کسی چیز کی دوبارہ تصدیق کرنا۔ تو جب یہ قرارداد مسلح جدوجہد کے حق کو ایک بار پھر تسلیم کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جنرل اسمبلی کے مطابق مسلح جدوجہد کا حق پہلے بھی موجود تھا۔یعنی قرارداد نمبر 3314 میں جس جدوجہد کی بات کی گئی تھی وہ مسلح جدوجہد ہی تھی۔

کرکٹ کی ڈائن بقیہ کھیلوں کو کھا گئی۔۔۔۔مستنصر حسین تارڑ

Advertisements
julia rana solicitors london

چنانچہ ہم نے دیکھا کہ جب حماس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈالا گیا تو لگسمبرگ کی عدالت نے اس فیصلے کو منسوخ کر تے ہوئے حماس کے قاسم برگیڈ کا نام اس فہرست سے نکالنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا کہ اسے مسلح جدوجہد کا حق حاصل ہے۔دہشت گردی پر منعقد بین الاقوامی کانفرنس میں او آئی سی کا موقف بھی یہی تھا کہ حق خود ارادیت اور غاصبانہ قبضے کیخلاف لڑنے والے دہشت گرد نہیں ہوتے کیونکہ ان کی مسلح جدوجہد کا حق تسلیم شدہ ہے۔ پاکستان میں کچھ لوگوں کا موقف یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا بدل چکی ہے اور دنیا مسلح جدوجہد کی کسی بھی شکل کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ایسا نہیں ہے۔ قانونی پوزیشن آج بھی وہی ہے جو اوپر بیان کر دی گئی ہے۔اور کسی چیز کے جائز یا ناجائز ہونے کا تعلق اہل دانش کے تبصروں یا خوف سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ اس چیز کے بارے میںانٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے۔اور کشمیریوں کی مسلح جدو جہد کے حق کی بابت انٹر نیشنل لاء کیا کہتا ہے ، یہ آپ کے سامنے ہے۔ حکمت عملی کا معاملہ البتہ الگ ہے اور وہ وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔حالات بطاہر نا سازگار ہوں تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ انٹر نیشنل لاء نے جو چیز جائز قرار دی ہے ڈر اور خوف سے اسے ناجائز قرار دے دیا جائے۔ اسی طرح انٹر نیشنل لاء میں مسلح جدو جہد کی اجازت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ لازمی طور پر اب ہر وقت مسلح جدوجہد ہی کی جائے۔یہ مظلوم اور محکوم قوم کا فیصلہ ہو تا ہے کہ وہ کس وقت کون سی حکمت عملی اختیار کرتی ہے ۔تاہم کشمیری اگر کسی مرحلے پر مسلح جدو جہد کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے انٹر نیشنل لاء کی روشنی میںیہ ایک جائز اقدام ہو گا۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply