• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا مواخذہ اور سکینڈلوں میں گھرے ٹرمپ اگلا صدارتی الیکشن جیت پائیں گے۔۔ غیور شاہ ترمذی

کیا مواخذہ اور سکینڈلوں میں گھرے ٹرمپ اگلا صدارتی الیکشن جیت پائیں گے۔۔ غیور شاہ ترمذی

امریکی سیاست میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذہ کےمطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں جن سے ان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ تجزیہ نگار سوال کر رہے ہیں کہ اس صورت حال میں کیا ڈونلڈ ٹرمپ اگلے سال 2020ء کے اکتوبر میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکیں گے یا نہیں۔ اس کے علاوہ امریکی ذرائع ابلاغ کہتے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ کی حرکتوں کی وجہ سے , 2 سابقہ بیویوں کے موجودہ تیسری بیوی سے اختلافات اور 5 سوتیلے بہن بھائیوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے ٹرمپ فیملی کی مشکلات بھی دن بدن بڑھ رہی ہیں۔
حال ہی میں امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ جونیئر کو بھی طلب کرلیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ امریکی انتخابات 2016ء میں مبینہ روسی مداخلت پر بیان دینے کے لئے ٹرمپ فیملی کے کسی فرد کو باقاعدہ سمن جاری کیا گیا ہو۔ ڈونلڈ جونیئر اس سے قبل رضا کارانہ طور پر ذاتی حیثیت میں کمیٹی میں پیش ہوئے تھے مگر اب وہ ٹرمپ کے بیٹے اور امریکی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات میں شکوک کی فضاء میں پیش ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ جونیئر سے 9 جون 2016 ء کو روسی وکیل سے ملاقات پر سوالات پوچھے گئے تھے۔ ڈونلڈ جونیئر سے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج سے رابطے پر بھی سوالات پوچھے گئے تھے۔دوسری طرف ٹرمپ کی پہلی بیوی اور موجودہ تیسری بیوی میں بھی میڈیا پر طنز اور طعنوں بھری لڑائی چل رہی ہے۔ ایوانا ٹرمپ نے چینل اے بی سی کے پروگرام ’گُڈ مارننگ امریکہ ` میں کہا کہ چونکہ وہ ٹرمپ کی پہلی بیوی ہیں اس لئے اصلی ’خاتونِ اوّل‘ وہ ہیں اگرچہ ان کی ڈونلڈ سے طلاق ہو چکی ہے۔ اس کے مقابلہ میں ٹرمپ کی تیسری اور موجودہ بیوی میلانیا ٹرمپ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کے شوہر کی سابق اہلیہ ایوانا کی جانب سے دیا گیا تازہ بیان محض توجہ حاصل کرنے کی کوشش ہے۔واضح رہے کہ ایوانا ٹرمپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی بیوی ہیں جن سے ٹرمپ کے تین بچے ڈونلڈ جونیئر، ایوانکا اور ایرک ٹرمپ ہیں۔ ایوانا سے طلاق کے بعد ٹرمپ نے ماریا میپلز سے شادی کی جس سے ایک بیٹی ٹفنی ٹرمپ ہے جبکہ تیسری اور آخری شادی میلانیا ٹرمپ سے کی جس سے ایک نوعمر بیٹا بیرن ٹرمپ ہے۔ ان کی ساری اولاد میں پہلی بیوی سے بیٹی ایوانکا اپنے یہودی شوہر جیراڈ کوشر کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں رہتی ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ بیوی میلانیا اور اس کا بیٹا بیرن ٹرمپ نے صدر مانتخب ہونے کے 8 مہینوں بعد ہی ٹرمپ کے ساتھ وائٹ ہاؤس رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ٹرمپ فیملی سے متعلق خبریں لیک کرنے کے جرم میں ٹرمپ نے حال ہی میں اپنی پرسنل اسسٹنٹ (پی اے) میڈلین ویسٹر ہاؤٹ سے استعفی طلب کر لیا تھا حالانکہ میڈلین کو ٹرمپ کے کافی نزدیک سمجھا جاتا تھا۔
ٹرمپ نے صدر بننے کے بعد بہت سی غلطیاں کی ہیں، ان کا رویہ اکھڑ رہا، بے سروپا جملے بھی کستے رہے، خواتین سے میل ملاپ کے چرچے بھی رہے اور اب سیاسی میدان میں بھی انہیں بڑے معرکوں کا سامنا ہے، خصوصاً چین سے جاری تجارتی کشیدگی بڑا معرکہ ہے، مگر اب ٹرمپ کی یوکرائن کے صدر ولادی میرزیلنسکی کے ساتھ کی جانے والی فون کال کی ٹیپ پکڑی گئی ہے جس کی بنیاد پر ٹرمپ پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور غیر اخلاقی کاموں میں ملوث ہونے جیسے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت ٹرمپ مخالف سیاسی جماعت ڈیموکریٹس کی اکثریت پر مشتمل ایوان نمائندگان کے ممبران کی کمیٹی میں ان الزامات پر تفتیش جاری ہے۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ ماضی کے تمام خدشات اور معرکوں کے علاوہ اب وہ ممکنہ مواخذہ کی جس مشکل میں پھنسے ہیں وہ ان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنستا جا رہا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما اور اسپیکر نینسی پلوسی نےمواخذہ کی تحریک پر انکوائری شروع کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ صدر نے یوکرین کے صدر ولادی میرزیلنسکی کو فون کرکے سابق امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے صاحبزادے ہنٹربائیڈن( جو اس وقت یوکرین کی ایک بہت بڑی تیل کی کمپنی میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں) کے بارے میں تفتیش کرکے ذاتی معلومات ٹرمپ کو فراہم کرنے پر زور دیا۔مشہور امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے کہا ہے کہ یوکرائن کے صدر کو ٹیلی فون کے علاوہ بھی صدر ٹرمپ نے کم از کم آٹھ بار اپنے وکیل پر زور دیا تھا کہ وہ ہنٹربائیڈن کے خلاف تحقیقات شروع کرے مگر اس کے بدلے میں وہ اس کو کیا دیں گے ,کچھ نہیں بتایا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر کو ان کا کام نہ کرنے پر ان کی فوجی مدد ختم کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نےجوبائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کے بارے میں ایسی ذاتی معلومات جمع کرنے کی ہدایت اس لئے کی کہ بائیڈن آئندہ صدارتی الیکشن میں ڈیموکریٹس کی طرف سے صدر کے الیکشن کے امیدوار ہوں گے۔ اس وقت کے جائزوں کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کی پوزیشن قدرے بہتر ہے اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کےبعد سیاسی ذاتی و سماجی رویوں کی وجہ سے ان کا گراف نیچے آرہا ہے۔
ماضی میں بھی ٹرمپ پر الزام رہا ہے کہ بیشتر خواتین کو جن سے ان کے ناجائز تعلقات تھے، ان کو بڑی رقوم دے کر چپ کرایا گیا اور معاملہ دبا دیا گیا۔ مگر اب یوکرائن کے صدر کے ٹیلیفون کے معاملے کو لے کر وائٹ ہاؤس کی سکیورٹی کے چند اعلیٰ افسران اور ڈیموکریٹک پارٹی صدر کے مواخذے پر زور دے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد ان کی ایف آئی اے کے سربراہ سے بھی ناچاقی ہوگئی تھی۔ ایف آئی اے کےسربراہ جیمز کومی اس وقت قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن کے روس سے تعلقات کے بارے میں تفتیش کررہے تھے۔ صدر ٹرمپ نے جیمز کومی کو ہدایت کی کہ وہ مائیکل فلن کے خلاف تحقیقات ختم کردیں۔دوسری طرف ایف بی آئی کا کہنا تھا کہ مائیکل فلن اور صدر ٹرمپ نے اپنے اوول آفس میں روس کے وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی جس کے بارےمیں انہوں نے بات چیت کا مکمل متن بتانے سے انکار کیا اور کہا یہ صرف داعش کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات چاہتے تھے۔ ایف بی آئی اور سکیورٹی اداروں کا کہنا تھا کہ بات چیت میں اور بھی بات ہوئی ہے جو صدر ٹرمپ بتانے سے انکاری ہیں۔ ایف بی آئی اس حوالے سے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلن کے روس سے تعلقات کے بارے میں تفتیش بھی کر رہی تھی۔ ٹرمپ کی طرف سے تفتیش میں مداخلت کے خلاف ڈائریکٹر کومی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد ایک انٹرویو میں بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس اہم ترین عہدے پر فائز رہنے کے اہل نہیں ہیں کیونکہ وہ نسیان کی بیماری کی ابتدائی شکل سے گزر رہے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا اقرار تو کرلیا ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر ولادی میرزیلنسکی کے ساتھ فون پر بات کی تھی مگر وہ بائیڈن کے بیٹے کے بارے میں نہیں تھی۔ اس بارے میں ان سے مزید پوچھا گیاتو صدر ٹرمپ باقی بات گول کرگئے۔ اس سے پہلے ٹرمپ نے میڈیا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ یوکرائن کے صدر سے اجازت لے کر ان سے ہونے والی اپنی ٹیلی فون بات چیت کا ٹرانسکرپٹ (مسودہ) جاری کر دیں گے۔ انہوں نے یہ تصدیق بھی کی تھی کہ انہوں نے یوکرائن کے لئے 4 کروڑ ڈالر کی امریکی امداد روک لی ہے لیکن اس بات سے انکار کردیا کہ انہوں نے یہ امداد ولادی میر زیلینسکی کو وہ تحقیقات شروع کرنے کے لئے دباؤ کی خاطر روکی تھی جس سے سابق امریکی نائب صدرجوبائیڈن کو نقصان پہنچے گا۔ صدر ٹرمپ نے رپورٹروں کو بتایا ’ہم ایک ملک کی مدد کر رہے ہیں۔ ہم یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ ملک دیانتدار ہو‘، ان کا مزید کہنا تھا،بدعنوانی کے بارے میں بات کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر آپ بدعنوانی کے بارے میں بات نہیں کرتے تو آپ ایک ایسے ملک کو رقم کیوں دیں گے جسے آپ بدعنوان سمجھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے اس نیم اعترافی بیان کے بعد ڈیموکریٹ سینیٹرز نے زور دیا ہے کہ صدرنے اپنی تمام حدیں پار کرلی ہیں اس لئے ان کا مواخذہ ضروری ہے۔صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے مخالفین کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ان کے خلاف مواخذہ ہوا تو دنیا کی مارکیٹ مندی کا شکار ہوجائے گی اور بہت نقصان ہوگا، مگر میرے خلاف کچھ نہیں نکلے گا۔ صدر ٹرمپ نے سختی سے کہا کہ یہ صرف ان کے اقوام متحدہ کے دوران جاری مصروفیات کو خراب کرنے اور ان پر کیچڑ اچھالنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے نینسی کے الزامات کو مسترد کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس جان بوجھ کر ایسا کررہے ہیں تاکہ الیکشن 2020ء کے لئے ان کی مضبوط پوزیشن کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی امریکی تاریخ میں عہدے پر برقرار چوتھے صدر کے باضابطہ مواخذے کے لیے سماعتوں کا آغاز کرکے بڑا خطرہ مول رہی ہیں کیونکہ آخری دفعہ جب 1998ء میں ری پبلیکنز اراکین نے ایوان نمائندگان میں صدر بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کے افئیر کے انکشاف کے بعد مواخذہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی جو سینٹ میں ناکام ہو گئی تھی کیونکہ وہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت تھی۔ اس ناکامی کے بعد ایوان نمائندگان کے بہت سے سینئر ری پبلکن ارکان کو اگلی مرتبہ ووٹروں کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔اسی وجہ سے نینسی پلوسی ماضی میں ٹرمپ کے مواخذے کے حق میں نہیں تھیں کیونکہ انھیں یہ خدشہ تھا کہ معتدل ڈیموکریٹس جنھیں 2020 ءکے انتخابات میں کڑے مقابلے کا سامنا ہے، کہیں وہ مشکل میں نہ پڑ جائیں اور ان کی پارٹی کی ایوانِ زیریں میں اکثریت خطرہ میں نہ پڑ جائے۔ ویسے بھی کسی امریکی صدر کو مواخذہ کے ذریعہ اس کے عہدے سے ہٹانا مشکل اس لئے ہے کہ اس کے لئے کانگریس کے دونوں ایوانوں کی منظوری چاہیے۔ اس وقت ایوانِ نمائندگان (ایوانِ زیریں) میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے جہاں مواخذہ کر کے اسے سینٹ بھیجنے کے لئے صرف ایک سادہ اکثریت چاہیے۔ مگر اس کے بعد سینیٹ (ایوانِ بالا) صدر پر ایک مقدمہ چلاتی ہے جس میں سزا کی صورت میں انھیں عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے مگر اس کے لئے سادہ اکثریت کافی نہیں بلکہ دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے یعنی سینیٹ کے 100 میں سے 67 سینیٹرز کی حمایت چاہیے۔ اس وقت سینٹ میں 53 سینیٹر ریپبلکن ہیں لہذا اس بات کا امکان بہت کم ہے ان کی کوئی بڑی تعداد صدر ٹرمپ کو عہدے سے ہٹانے کے حق میں ووٹ ڈالے گی۔
اگرچہ ٹرمپ کے خلاف مواخذہ سینیٹ میں ریپلکن اکثریت کی وجہ سے آگے نہیں جا پائے گا لیکن اس کارروائی سے عوامی رائے کو ضرور فرق پڑے گا۔ رائے شماری کے ایک جائزہ کے مطابق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ صدر ٹرمپ نے یوکرائن کو فوجی امداد اسی لئے روکی تھی تو 55 فیصد امریکی مواخذہ کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ مزید انکشافات انھیں اور نقصان پہنچائیں اور شاید پھر ان کی سیاسی پوزیشن بہت کمزور ہو جائے۔ ایسا تاریخ میں ہو بھی چکا ہے۔ 70 ء کی دہائی میں صدر ر چرڈ نکسن کے خلاف جب مواخذہ کی کارروائی شروع ہوئی تھی تو صرف 19 فیصد امریکیوں کا خیال تھا کہ انھیں عہدے سے ہٹایا جائے مگر اس کارروائی کے دوران انکشافات اتنے ہوئے کہ یہ نمبر 57 فیصد تک جا پہنچا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مواخذہ کی کارروائی کا ٹرمپ کی صدارتی کارکردگی پر بہت اثر پڑ سکتا ہے اور مواخذہ روکنے میں بڑی توجہ لگ جائے گی۔ صدر کلنٹن کی صدارت کے آخری دو سال بھی ان ہی مسائل میں گھرے رہے ہیں بلکہ کئی لوگوں کے ذہن میں صدر کلنٹن کی صدارت کا سب سے یادگار عنصر ان کا مونیکا لیونسکی سکینڈل ہی ہے۔ ایک تجزیہ نگار نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ بل کلنٹن کے سکینڈل نے ہلیری کلنٹن کی سنہ 2016ء کی صدارتی دوڑ پر منفی اثرات مرتب کیے تھے کیونکہ عوام یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک اور سکینڈلوں سے بھر پور صدارتی دور گزاریں۔ تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ عہدے سے ہٹائے جانے کا امکان ٹرمپ کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچائے گا اور ان کے دوبارہ منتخب ہونے کے امکان کو کم کرے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply