• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شکریہ کی دم توڑتی روایت اور ایک گل فروش سے ملاقات۔۔۔عامر عثمان عادل

شکریہ کی دم توڑتی روایت اور ایک گل فروش سے ملاقات۔۔۔عامر عثمان عادل

نجانے ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنی ساری اچھی روایات ایک ایک کر کے دفن کرتے جا رہے ہیں خوش اخلاقی تو درکنار کسی سے سیدھے منہ بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔
قرآن پاک میں کم وبیش 75 مرتبہ شکر ادا کرنے کا ذکر آیا ہے، کائناتوں کے مالک کو اپنے بندوں کا اظہار تشکر اس قدر پسند ہے کہ محض شکر کرنے پر بے حساب انعام سے نوازنے کا اعلان کر دیا
لئن شکرتم لا ازیدنکم۔۔
اگر تم میرے شکر گزار بنو گے تو میں تمہیں مزید نوازتا چلا جاؤں گا!

جس خالق و مالک نے ہمیں دنیا جہان کی بیش قیمت نعمتوں سے بن مانگے سرفراز فرمایا ہم اس کا شکر ادا نہیں کرتے ،ہم تو آپس میں ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرنے میں بخل کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اپنے پالن ہار کا شکر کیسے ادا کریں گے۔ اس بارے میں نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من لا یشکر الناس لا یشکر اللہ
جو بندوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ رب کا شکر بھی ادا نہیں کرتا!

مصنف :عامر عثمان عادل

آپ کسی ریڑھی والے سے چند روپے کی چیز خریدیں یا کسی مہنگے شاپنگ مال سے ہزاروں روپے کی خریداری ،مجال ہے جو آپ کا شکریہ ادا کیا جائے ،الٹا آپ کو یہ احساس ہو گا کہ آپ نے نہیں بلکہ اس نے آپ پر احسان کیا ہے۔
راہ چلتے کسی گاڑی والے کو راستہ دینا ہو تو یہ آس مت رکھیں کہ وہ آپ کا شکریہ ادا  کرے گا ،بلکہ وہ تو اس رعونت سے گزرے گا جیسے آپ اس کے باجگزار ہوں اور سڑکیں اس کے باپ دادا کی ملکیت۔
صبح سے شام تلک اپنے معمولات کا مشاہدہ کر کے دیکھ لیجیے ،کہ آج آپ کا کتنے لوگوں نے شکریہ ادا کیا اور خود آپ نے کس کس کو اس لفظ سے نوازا۔۔کیا ہی اچھا ہو جو ہم اپنی نام نہاد  اَنا کے خول سے باہر نکل کر “شکرہے” کو اپنا شعار بنا لیں۔

گھر ہو یا دفتر بازار ہو یا مسجد گلی محلہ ہو یا کورٹ کچہری ،کیسا منظر ہو کہ ہم ہر کس و ناکس کا کھلے دل سے شکریہ ادا کرنے کی روایت پال لیں۔

زندگی دھوپ چھاؤں کا کھیل۔۔۔عامر عثمان عادل
کسی خدمت گزار کا شکریہ،
اس چھوٹے بچے کا شکریہ جو آپ کو پانی کا گلاس پیش کرے،
کھانا بنانے سے لے کر آپ کے کپڑے استری کر کے دینے والی بیگم کا شکریہ،
کسی میرج ہال میں دوڑ دوڑ کر آپ کی فرمائشیں پوری کرنے والے ویٹر کا شکریہ،

ایک لمحے کو تصور کیجیے  آپ کسی کے ساتھ اچھا کرتے ہیں بھلائی  سے پیش آتے ہیں تو فطری طور پہ آپ کے کان منتظر رہتے ہیں کہ آپ کا شکریہ ادا کیا جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو کچھ اچھا نہیں لگتا۔

میں نے شکریہ کہنا کہاں سے سیکھا۔۔
کبھی کبھار اکثر بسم اللہ چوک سے گلیانہ جانے لگیں تو المدثر سپیشل ایجوکیشن سنٹر کے طلبہ گاڑی کے منتظر ہوتے ہیں جب بھی انہیں لفٹ دی سنٹر کے مرکزی دروازے پر اترتے ہوئے وہ خاص بچے جو قوت گویا ئی   سے محروم ہوتے ہیں اپنے معصوم اشاروں سے شکریہ ادا کرنا کبھی نہیں بھولے۔

ایک مرتبہ موٹر سائیکل پر سفر کے دوران بزرگوال  سے گزرتے ہوئے ایک بچے پر نظر پڑی جس کی عمر بمشکل دس بارہ برس ہو گی ڈرائی  فروٹ کے پیکٹ فروخت کرنے والا یہ بچہ شدید سردی اور دھند کے موسم میں پیدل چلا جا رہا تھا، بائیک اس کے پاس روکی ،پوچھا کہاں تک جانا ہے، اس نے ڈرتے ڈرتے کہا دولت نگر، میں نے اسے بیٹھنے کو کہا اور جب دولت نگر پہنچ کر وہ بچہ بائیک سے اترا تو شکریہ ادا کرتے کرتے ایک پیکٹ ڈرائی  فروٹ کا اتار کر معصومیت سے گویا ہوا کہ آپ شکریےکے طور پر یہ رکھ لو اور میں تھا کہ گنگ رہ گیا
لب پر شکریے کی لرزتی ہوئی  لکیر
آنکھوں میں امتنان کے رنگوں کی دھاریاں
جاتے جاتے یہ بچہ مجھے سکھا گیا کہ ریا کے بغیر کیسے شکریہ ادا کیا جاتا ہے

بچوں کو موبائل نہیں اپنا پیار دیجیے۔۔۔عامر عثمان عادل

Advertisements
julia rana solicitors london

پرسوں رات گئے لاہور سے واپسی پر چناب ٹول پلازہ سے گزرتے ہوئے ایک گل فروش نظر آ گیا، گاڑی روکی سائیڈ پر پارک کی ،اسے پاس بلایا پوچھا موتیے اور گلاب کا گجرا کتنے کا ہے ،کہنے لگا 100 روپے کا ،اگر جوڑی لیں تو 150 روپے ،کہا بھلے آدمی یہ گجرا حد سے حد تیس سے پچاس روپے تک ملتا ہے ،اتنا مہنگا؟ اس کے چہرے پہ مسکراہٹ آئی  ۔۔جس کے پیچھے اس کی مجبوریاں جھلک رہی تھیں بولا صاحب جی کب سے کھڑا ہوں اوپر سے موتیے کا موسم بھی کچھ دن کا مہمان ہے۔
خیر کہا دو گجرے دے دو
کیونکہ
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا
زنجیر پڑی دروازے پہ
کیوں رات گئے گھر آئے ہو
سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
گجرے تھما کر وہ گل فروش بولا، صاحب جی جزاکم اللہ
میں نے چونک کر پھولوں کو دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگے
یہ ہماری صحبت کا اثر ہ،
پھول بیچنے والے کا اخلاق ایسا ہی ہونا چاہیے!

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply