اداس کیمپوں کی باتیں کون لکھے گا؟ ۔ محمد خان داؤد

روسی دانشور فیدر ٹیو ٹیچیف کے الفاظ پر ٹالسٹائی کی آنکھیں بھیگ جایا کرتی تھیں اور وہ الفاظ تھے کہ
‏،،LET ME PARTAKE OF ANNIHILATION
‏LET ME BE DIFFUSED IN
‏THE SLUMBERING UNIVERSE
‏NOTHING LEAVES ANY TRACE
‏AND IT IS SO EASY NOT TO BE!,,
“میں فنا ہونا چاہتا ہوں
مجھے فنا ہونے دو
نیند کرتی کائنات کی جھولی میں
کوئی نشان چھوڑے بغیر
اس طرع وجود کو گم کرنا بہت ہی آسان ہے”

پر یہاں تو سب کچھ ایک جیسا ہوتا دیکھ کر بھی آنکھیں نہیں بھیگتیں!
اس دنیا میں دو دنیائیں قائم ہیں،ایک دنیا روتی ہے،چیختی ہے، چیختے چیختے پاگل ہو جاتی ہے تو دوسری دنیا بن سنور کر اسے دیکھنے چلی آتی ہے۔ اس لیے نہیں کہ اس روتی دنیا کو تسلی مل جا ئیگی یا اسے تسلی دی جا ئے، پر اس لیے کہ جو دنیا رو رہی ہے وہ اور کتنا رو سکتی ہے۔اس لیے بھی نہیں کہ چلو یہ ہی دیکھ لیا جا ئے کہ وہ دنیا رو تی کیوں ہے؟ نہیں! اس لیے نہیں پر اس لیے کہ چلو دیکھ لیتے ہیں کہ جب سب ہی رو تی دنیا کو دیکھ رہے ہیں، وہ بھی جو اس دنیا میں نامدار ہیں، وہ بھی جو اس دنیا میں کام دار ہیں، وہ بھی جو اپنے گھروں میں اپنے بچوں اور پالتو کتوں کو ناشتہ دے آئے ہیں، وہ بھی جو اپنے ساتھ جدید موبائل فون لائے ہیں جو اس رو تی دنیا کی اپنے ساتھ فوٹو بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کریں گے، وہ بھی جو اس سڑک پر پیدل جا رہے تھے تو سوچا کیوں نہیں رو تی دنیا کو دیکھ لیں،وہ بھی جو اپنی بڑی سے گاڑی میں اپنے بچوں اور اپنی بیگم کو لائے ہیں، جب کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کوئی پکنک پوانٹ نہیں، وہ جانتے  ہیں کہ یہ دردوں والی دنیا ہے۔وہ جانتے ہیں کہ جو یہاں پر اشک بار ہیں، وہ خدا کی جنت سے نکالے ہوئے آدم ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان آدموں کی اس سُکھ والی دنیا کے خداؤں کے پاس کوئی معافی نہیں، پر وہ پھر بھی چھٹی والے دن اپنے بچوں اور اپنی بیگم کو لے آتے ہیں،اور انہیں دو ر و نزدیک سے پوچھنے پر بتا تے ہیں یہ زمینی خداؤں کی نا فرمان قوم ہے اس لیے انہیں ہما رے زمینی خداؤں نے سزا میں رکھا ہوا ہے۔

اور وہ انعام والی قوم سزا والی قوم کو دیکھتی رہتی ہے،اور سزا والی قوم اشک بار رہتی ہے۔

جب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا جس کے باشندے سزا سے بعید ہیں ، جو مزے میں ہیں، جو بہت عشرت میں ہے، وہ بس اس دنیا کے لوگوں کو اس لیے دیکھنے کو آتے ہیں کہ ان کے شب و روز کیسے گزرتے ہیں ۔جب کے ان سزایافتہ مریم ،عیسیٰ حوا و آدم کے دن تو ایسے ہیں جن کے لیے جون نہ کہا تھا کہ
خوب ہے شوق کا یہ پہلو بھی
میں بھی برباد ہو گیا اور تُوبھی
وہ برباد دنیا والے مریم و عیسیٰ حوّا وہ مریم تو اس لیے لُٹ چکے کہ ان کے بچوں نے دیس سے محبت کچھ زیادہ ہی کر لی اس لیے مجرم ٹھہرے اور اب پابندِ سلاسل ہیں!

پر وہ آباد دنیا والے انہیں ان رُلتے کیمپوں میں کیوں دیکھنے آتے ہیں؟
جب وہ ان کے لیے کچھ کر بھی نہیں سکتے اور وہ کوئی پکنک پوائنٹ بھی نہیں؟
پھر کیوں آتے ہیں؟ کیا وہ اس لیے ان کیمپوں میں مٹر گشت کرنے آتے ہیں بقول جون ایلیا کہ
میرے شہر کے خوش پاش لوگ
شام کو اس لیے چلے آتے ہیں کہ
میں کیسے بُجھ رہا ہوں
اگر نہیں تو خوشی لیے لوگ غم کے اداس اور ویران کیمپوں میں کیوں داخل ہو تے ہیں اور نکل جا تے ہیں۔

ایسی حالت میں وہ غم کی وادی کے لوگ اس دنیا میں فنا ہوجانا چاہتے ہیں۔پر انہیں بہت سے دکھ فنا بھی نہیں ہونے دیتے ،پھر وہ اشک نہ بہائیں تو کیا کریں جب کہ فنا ہونا ہوجانا اتنا مشکل بھی تو نہیں!
‏،،LET ME PARTARKE OF ANNIHILATION
‏LET ME BE DIFFUSED IN
‏THE SLUMBERING UNIVERSE
‏NOTHING LEAVES ANY TRACE
‏AND IT IS SO EASY NOT TO BE!,,
میں فنا ہونا چاہتا ہوں
مجھے فنا ہونے دو
نیند کرتی کائنات کی جھولی میں
کوئی نشان چھوڑے بغیر
اس طرع وجود کو گم کرنا بہت ہی آسان ہے
پر یہاں تو سب کچھ ایک جیسا ہوتا دیکھ کر بھی آنکھیں نہیں بھیگتیں!

ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس لیے کہ محبت کی زیادتی بھی تو انسان کو ہواس باختہ کر جا تی ہے۔
وہ جو اداس کیمپوں پر بیٹھے تماشا  بنی ہو ئی ہیں ان کا کیا قصور ہے۔یا وہ دیس ہے ایسا ہے جو جو بھی وہاں جنما گیا ہے اس کا دکھوں سے پالا پڑنا ہے۔بالکل ایسے جیسے ایک روسی کہانی میں لڑکی ماشا بس سیاہ کپڑے پہنتی ہے تو کوئی اس سے پوچھتا ہے ککہ ماشا تم بس سیاہ کپڑے پہنتی ہو کیوں؟
تو ماشا جواب دیتی ہے کہ
کیوں کہ مجھے پوری حیا تی رو رو کر گزارنی ہے میرا دیس جو دروھی (دکھی)ہے
‏i am mourning for life .i am unhappy
میں اپنی زندگی کے لیے رو رہا ہوں۔۔۔۔میں خوش نہیں ہوں!

پر ان کا قصور بس اتنا ہے کہ انہیں اپنے دیس سے بہت پیار ہے اور وہ دیس دروھی بنا دیے گئے ہیں
وہ جانتے تھے کہ راہیں محبت کی بہت مشکل ہیں،لوگ بھی ظالم ہیں،پر انہیں بھی تو شوق تھا
بقول منیر نیا زی کہ
کُج اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کُج گل  وچِ غم دا طوق وی سی
کُج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کُج سانوں   مرن دا شوق وی سی

Advertisements
julia rana solicitors london

پر اس خوش دنیا کے باسی ان اداس کیمپوں میں کیوں آتے ہیں وہ کوئی پکنک پوائنٹ تو نہیں ہے
وہاں تو اشکوں کی باتیں اشکوں میں ہو تی ہیں  اور اشک ہی بہتے ہیں۔۔ اور بس!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply