بچوں کو موبائل نہیں اپنا پیار دیجیے۔۔۔عامر عثمان عادل

سکول اپنے دفتر میں مصروف کار تھا کہ ایک خاتون تشریف لائیں ،سلام دعا کے بعد یوں گویا ہوئیں۔۔۔
سر جی میرے تین بیٹے آپ کے ہاں زیر تعلیم ہیں آج میں آپ سے ان کی تعلیمی کارکردگی کے متعلق کوئی  بات کرنے نہیں آئی، بلکہ ایک شکایت ہے۔
میرا ماتھا ٹھنکا۔۔ آئی کوئی  نئی شکایت سکول سے متعلق!

لیکن خاتون نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میرے تینوں بچے سکول سے جاتے ہی موبائل فون تھامتے ہیں اور پھر رات گئے تک چھوڑتے نہیں، انہیں کسی چیز کا ہوش نہیں رہتا۔آپ پلیز انہیں سختی سے ڈانٹیے بلکہ دفتر بلوا کر ہدایت کیجیے  کہ ہم آپ کے موبائل ضبط کر لیں گے۔
ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ آپ نے انہیں فون دیے کس لئے ؟ سکول کے طلبہ و طالبات کو موبائل کی ضرورت چنداں نہیں ہوتی۔۔۔
بھلا ہو اس متفکر ماں کی سچ بیانی کا کہنے لگیں ان کے ابا بیرون ملک مقیم ہیں اور دادا ابو نے انہیں موبائل لے دئیے ہیں۔

عرض گزاری کہ ہم نے سکول میں موبائل لانا سختی سے منع کر رکھا ہے اور اس کا ہم کڑا پہرا دیتے ہیں، کسی بچے سے موبائل برآمد ہو تو ضبط کر کے والدین کو واپس کرتے ہیں، اب گھر پہ تو آپ نے ہی ان کی نگرانی کرنی  ہے، خیر ان کا گمان تھا کہ سکول کی جانب سے سختی ہو گی تو بچوں پہ کچھ اثر ہو پائے گا۔

مجھے بے اختیار اپنے ابا حضور یاد آ گئے۔۔ اپنے وقت کے نامور استاد اور انتہائی سخت گیر ہیڈ ماسٹر ،جو گلی محلوں میں مستیوں میں مصروف بچوں پر کڑی نظر رکھتے اور اگلے دن سکول کی مارننگ اسمبلی میں ان کی شامت آ جاتی ،بلوروں کے ساتھ کھیلنے والے ،کبوتر بازی کرنے والے اور چوک چوراہوں میں آوارہ گردی کرنے والوں کا موقع پر احتساب شروع ہو جاتا۔
ایک لمحے کو سوچا تو خود پر افسوس ہوا کہ شاید آج کے استاد نے بچوں کی کردار سازی اور تربیت سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

تینوں طلبہ کو اپنے دفتر بلوایا دوم ششم اور ہشتم گریڈ کے طالب علم میرے سامنے کھڑے تھے پوچھنے پر سب نے اقرار کیا کہ ہاں ہم سب کے پاس الگ الگ موبائل موجود ہے سب سے چھوٹے کو ماڈل کا کچھ علم نہ تھا جبکہ دونوں بڑوں کے پاس J7 موبائل تھے مزید پتہ چلا کہ ان کے دادا جان نے ان تینوں کو ڈبہ پیک موبائل گفٹ کیے تھے ،چھوٹے میاں اس پہ ڈوریمون مان کارٹون دیکھتے ہیں اور بڑے بھائی  ویڈیو گیمز۔۔۔تھوڑا بہت ڈانٹ ڈپٹ کے کہا کہ سوموار کو آپ اپنے موبائل سکول جمع کرا دیں گے۔

پچھلے سال کا ایک اور واقعہ یہاں نقل کرنا ضروری ہے، اسی طرح ایک فیملی کے کچھ افراد دفتر تشریف لائے جو غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے ان کا بس چلتا تو مجھے بھی اٹھا کر دفتر سے باہر پھینک آتے مشکل سے انہیں صبر و تحمل کا درس دے کر پوچھا کہ وجہ تو بتائیں۔۔۔ کہنے لگے آپ کے سکول کا ایک طالب علم ہمارے گھر کے نمبر پہ کالز کر کے تنگ کرتا ہے ہم نے شناخت کر لیا ہے، جونہی بچے کا نام پتہ چلا میرے پیروں تلے سے  یوں لگا زمین سرک گئی ہو، میرے خدا ساتویں جماعت کا طالب علم اور یہ لچھن۔۔ ان کا اصرار تھا کہ ابھی بلائیں بچے کو ،ہمارے سامنے ہم خود  اس سے نمٹ لیتے ہیں کہا یہ ہماری پالیسی نہیں۔۔ ہمیں مہلت دیجیے۔ اس بچے کے گھر والوں کو اطلاع کر لینے دیں، اگلے دن بچے کی والدہ کو بلوایا ،پوچھا تو پتہ چلا کہ اس طالب علم کے والد بھی بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم ہیں ،پچھلے سال چھٹی پر  آئے تو اسے نیا موبائل لے کر دے گئے کہ باہر آوارہ گردی سے بہتر ہے گھر پہ رہے گا اور موبائل پہ گیمز سے دل بہلاتا رہے گا ۔عرض کیا کہ سِم کی کیا ضرورت تھی کہنے لگیں اس نے ابا سے یہ کہہ کر سم منگوائی  کہ دوستوں سے گپ شپ کرنا ہوتی ہے۔

لگتا ہے میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت جواب دے چکی ہے یہ دو واقعات نہیں ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔ اور بالخصوص جو مہربان بیرون ملک مقیم ہیں ان کی طرف سے یہ اپنے بچوں سے پیار کی انتہا ہے جو ان کی ہر فرمائش پوری کرتے ہیں۔
اسے کیا نام دوں ،بے جا لاڈ پیار؟ باہر کی کمائی  کی نمودو  نمائش یا پھر اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی ایک راہ۔۔۔۔؟
کچھ اندازہ ہے ہمیں کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کی تباہی کا  تمام سامان مہیا کر رہے ہیں؟
یقین کریں خود ہمارے بچے اور بیرون ملک بسنے والوں کے بچے ترسے ہوتے ہیں کہ ہمارے بابا بھی ہمیں سکول سے لینے آئیں۔۔۔کبھی ایک لمحے کیلئے ہم نے سوچا ان معصوم پھولوں کو کس شے کی ضرورت ہے ؟ مہنگے موبائل قیمتی آئی  پیڈ سے بھی زیادہ خوشی ان کو ہماری چند گھڑیوں کی رفاقت دے سکتی ہے۔

ہم نے اپنا طرز زندگی ایسا کر لیا ہے کہ خود ساختہ مصروفیات کو خود پہ طاری کر کے بچوں سے بہت دور جا چکے ہیں، خود میں بھی اپنے آپ کو بچوں کا مجرم سمجھتا ہوں کہ گنتی کے چند لمحات جو شام کو میرے بچوں کا حق ہے وہ میں خبروں اور موبائل کی نذر کر کے ان کی حق تلفی کر رہا ہوں۔
کوئی  دانشور ہے ایسا جو میٹرک تک کے طلبہ کو موبائل دینے کی وکالت کر پائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک ریڑھی والے سے لے کر گریڈ بائیس کے افسر تک جس سے پوچھو کہے گا کہ ہم سارا دن اپنے بچوں کی خاطر دھکے کھاتے ہیں اور وہ بچے ہمارے چند لمحوں کے ساتھ کو ترستے رہ جاتے ہیں۔خدارا بس کیجیے  اپنی عمر بھر کی کمائی  اپنے آنگنوں میں کھلے ان پھول کلیوں کو اپنے ہاتھوں برباد تو نہ کیجیے۔گیجٹس آج کے زمانے کی ضرورت ہیں ان سے فرار ممکن نہیں لیکن ایک حد تک باقاعدہ نگرانی کے ساتھ۔۔۔اور ہاں یاد رکھیے۔۔
ابھی وقت ہے، ہمارے بچوں کو موبائل نہیں ہمارے پیار کی ضرورت ہے، انہیں پیار لوٹا دیجیے، ایسا نہ ہو ہماری لاپرواہی  اور نظر اندازی سے یہ باغی ہو جائیں اور کسی ہوس بھری محبت میں پناہ ڈھونڈنے لگ جائیں۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply