کشمیری قوم پر اس وقت جو اُفتاد آن پڑی ہے اور جس طرح مودی حکومت نے ان کے تشخص و انفرادیت پر کاری وار کیا ہے، ہونا تو چاہیے تھا کہ مذہبی عناد سے اُوپر اٹھ کر اس کا مقابلہ کیا جاتا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ کشمیری پنڈتوں (ہندوؤں) کے بااثر طبقے اور اکثریت نے ایک بار پھر اپنے ہم وطنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر تاریخ کے مختلف ادوار کو دوہرا کر ظلم و جبر کے آلات (Instruments of Tyranny) بننے کا کام کیا۔ چند باشعور افراد جن میں سابق ایر وائس مارشل کپل کاک، مقتدر اسپورٹس صحافی سندیپ میگزین، اشوک بھان، نتاشا کول، فلم میکر سنجے کاک اور ایم کے رینہ وغیرہ شامل ہیں ، انکے علاوہ پنڈت برادری کشمیریو ں پر اس آفت پر جھوم اُٹھی ہے۔قومی میڈیا میں موجود اسی کمیونٹی کے تین افراد سیکورٹی کے ہمراہ کشمیر میں گھوم کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے کشمیری خوش ہیں اور کسی بھی طرح کے ردِ عمل کا اظہار نہیں کر رہے ہیں ۔ یہ تو بھلا ہوا بین الاقوامی میڈیا کا ، جس نے ان کی پول کھول دِی۔
حیرت کا مقام ہے کہ جہاں بقیہ تمام میڈیا ، انٹرنیٹ و فون کی عدم دستیابی کی وجہ سے بے دست و پا ہوگیا تھا، یہ تین افراد لمحہ بہ لمحہ تصویریں و رپورٹیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر رہے تھے۔ وہ کشمیر کو بھول کر فرقہ واریت کے پیمانے سے معاملات کو جانچ رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا گیا کہ 1990میں کشمیری پنڈتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، جس کی وجہ سے وہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، آج مودی حکومت نے اس کا بدلہ چکایا ہے۔ آخر اس کی سزا اجتماعی طور پر پوری کشمیری قوم کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ ویسے 1990سے لیکر اب تک کشمیر میں تو بھارت ہی کی عملداری ہے۔ جن لوگوں نے کشمیری پنڈتوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے اسکو محض پروپیگنڈہ کا ہتھیار بنایا گیا۔ یہ خود کشمیری پنڈتوں کیلئے بھی سوچنے کا مقام ہے۔
یہ سچ ہے کہ1989 میں کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی طوائف الملوکی کے ساتھ خوف کی فضا طاری ہوگئی تھی۔ عسکریت پسندی پر کسی کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث، آوارہ ، اوباش اور غنڈہ عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد توبغیر کسی مقصد، محض ہیرو بننے کی غرض سے یا کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت میں شامل ہوگئے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین کو چھوڑ کرایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری تنظیمیں تھیں۔اس طوائف الملوکی کو مزید ہوا دینے میں بھارتی ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ 1989ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کرادِیا۔بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔اس انارکی کا خمیازہ کشمیری پنڈتوں ہی کو نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق30برسوں میں 250 پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے ڈھائی لاکھ کی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوگئی۔اگر یہ نسل کشی ہے تو جو اس دوران کشمیر میں اندازاً ایک لاکھ مسلمان بھی مارے گئے، وہ کس کھاتے میں ہیں۔ جموں خطہ کے دور دراز علاقوں میں 1500 کے قریب غیر پنڈت ہندو ، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتلِ عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر ان خطوں میں آبادی کا کوئی انخلا نہیں ہوا۔ چونکہ میں خود اِن واقعات کا چشم دید گواہ ہوں، اس لئے مکمل ذمہ داری کے ساتھ یہ تحریر کرسکتا ہوں کہ گورنر جگ موہن، پنڈتوں کے انخلا میں براہ راست ملوث ہویا نہ ہو، مگر اس نے حالات ہی ایسے پیدا کئے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔
اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سیکورِٹی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی بھارتی فوج کے 19ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ایک تو اپنے گھروں کے ساتھ ان کا رابطہ بھی رہتا اور حالات ٹھیک ہوتے ہی واپس بھی آجاتے۔جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا، کہ آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے۔ کوئی ان افواہوں کی تردید کرنے والا نہیں تھا۔90 کے اوائل میں انارکی کے حالات اور بندوق کے غلط ہاتھوں میں جانے اور سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کئی بے گناہوں کی جانیں چلی گئیں‘ مرنے والوں میں پنڈت بھی شامل تھے۔ مگر جہاں اب کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر سرکار سے لے کر بھارتی میڈیا کے ایک بااثر حلقے تک‘ اکثریتی طبقے کے جذبات واحساسات کو جان بوجھ کرمنفی انداز میں پیش کر رہے ہیں‘ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے وہ بندوق بردار جب تائب ہوئے تو انہیں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔
کشمیر کی آزاد حیثیت کو زیر کرکے جب مغل بادشاہ اکبر نے آخری تاجدار یوسف شاہ چک کو قید اورجلا وطن کیا، تو مغل گو کہ مسلمان تھے، مگر اس خطے میں ان کی سیاسست کا انداز سامراجیوں جیسا تھا۔ چونکہ کشمیر میں مسلمان امرا ہی نے مغل فوج کشی کی مزاحمت کی تھی، اسی لئے انہوں نے کشمیری پنڈتوں کی سرپرستی کرکے اقلیت گری (minority complex) کو ابھارا اور مسلمان امرا کو نیچا دکھانے کیلئے کشمیری پنڈتوں کو اپنا حلیف بنایا۔ بقول شیخ محمد عبدللہ پنڈتوں کے جذبہِ امتیاز کو تقویت دینے کیلئے آدتیہ ناتھ بٹ کو ان کی مراعات کا نگہبان مقر ر کیا۔ جنوبی و شمالی کشمیر میں کشمیری پنڈت ہی گورنر بنائے گئے۔ معروف مورخ جادو ناتھ سرکار کے مطابق مغل سلطنت کے دوران کشمیری مسلمانوں کو امور سلطنت سے دور رکھا گیا۔ اس طرح کشمیر کے بطن سے مغلوں نے ایک قابل اعتبار Fifth Columnist فروش گھر کا بھیدی پیدا کیا۔ مسلمانوں پر فوج کے دروازے بند تھے، مگرپنڈتوں کیلئے کھلے تھے۔ کشمیری میرو پنڈت تو نو ر جہاںکی ذاتی فوج کا نگرانِ اعلیٰ تھا۔ پنڈتوں کی یہ بالا دستی اورنگ زیب کے دور میں بھی جاری تھی۔ اس کے دربار میں مہیش شنکر داس پنڈت کا خاصا اثر ر ُسوخ تھا۔
افغان دورکی ظلم و ستم کی کہانیاں جہاں کشمیر میں زباں زدِ عام ہیں، اس وقت بھی کشمیری پنڈت ظالموں کی صف میں اپنے ہم وطنوں سے کٹ کر کھڑے تھے۔ بلند خان سدوزئی نے کیلاش در پنڈت کو وزیر اعظم بنایا تھا۔ حاجی کریم داد خان نے پنڈت دلا رام کوپیش کار کا عہدہ دیا تھا۔ افغان حکومت کے زوال کے بعد سکھ اور ڈوگرہ دور میں بھی پنڈتوں ہی کا طوطی بولتا تھا۔ یہ دونوں دور ظلم و ستم میں افغانوں سے بازی لے گئے۔ کشمیر کے مشہور’’ در‘‘ خاندان کا عروج اسی دور میں ہوا۔ سکھوں کے دور ہی میں کشمیری پنڈتوں کی ایما پر نہ صرف گاؤ کشی بلکہ گائے کا گوشت برآمد ہونے پر سزائے موت کا فرمان جاری ہوا، جس کو بعد میں ازراہِ ترحم ڈوگرہ حکمرانوں نے عمر قید میں تبدیل کیا۔ تب تک 19کشمیری مسلمان اس جرم میں پھانسی کی سزا پا چکے تھے۔ ڈوگرہ حکمراں مہاراجہ گلاب سنگھ نے راج کاک در کو کشمیر کا گورنر بنایا، جس کی سختیوں اور شال بُننے والے کاریگروں پر اسکے ٹیکس کی مار نے 1865میں سرینگر کی سڑکوں پر دُنیا کی پہلی مزدو ر بغاوت برپا کی۔
مصنف اور بندوبست آراضی کے کمشنر سر والٹر لارنس کے مطابق ڈوگرہ حکومت میں ساری قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھی۔ مسلمان کا شت کار کو برہمنوں کے آرام و آسائش کیلئے بیگار پر مجبور کیا جاتا تھا۔ 19ویں صدی کے اواخر میں جب پنجاب سے آنے والے ہندو اور کشمیری نژاد مسلمانوں نے ڈوگرہ دربار میں نوکری حاصل کرنی شروع کی ، تو کشمیری پنڈتوں نے کشمیر ، کشمیریوں کیلئے اور اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کرکے علاحدہ شہریت کا مطالبہ کیا۔ اب ایک صدی کے بعد کشمیری پنڈتوں ہی نے اسی قانون کی مخالفت میں زمین و آسمان ایک کئے۔ 1931میں جب تحریک کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر پروپگنڈہ کیا کہ یہ دراصل ہندو مہاراجہ کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پورے بھارت میں ظالم و مظلوم کی جنگ کو کشمیر مسلمان بنام پنڈت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔
ڈوگرہ حکومت کے دور میں جب چند پڑھے لکھے مسلمانوں کو معمولی سرکاری نوکریا ں ملنی شروع ہوئیں، تو کشمیری پنڈتوں نے اس کے خلاف ’’روٹی ایجیٹیشن ‘‘ شروع کی۔ انہوں نے مہاراجہ کو ایک میمورنڈم پیش کیاکہ کولگام علاقے میں ان کیلئے ایک علاحدہ وطن بنایا جائے۔ یہ وہی مانگ ہے جو کشمیری پنڈت آجکل ایک علاحدہ ہوم لینڈ یعنی’’ پنن کشمیر ‘‘کے نام سے کر رہے ہیں۔ بھلا ہو چند روشن خیال کشمیری پنڈتوں کا، خاص طور پر پنڈت پریم ناتھ بزاز کا ، جس نے برطانوی حکومت کی ایما پر بنائے گئے گلینسی کمیشن کو بتایا کہ مسلمانوں کے مقابلے کشمیری پنڈتوں کی حالت خاصی بہتر ہے۔ خود جواہر لعل نہرو نے کشمیری پنڈتوں کے گڑھ شیتل ناتھ جاکر ان کو مشورہ دیا تھا کہ و ہ ظالم و مظلوم کی جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں۔ نہرو اس وقت اپنے دوست شیخ عبداللہ کیلئے پنڈتوں کی حمایت چاہتے تھے۔ مگر پنڈت ڈوگرہ مہاراجہ کا دامن چھوڑنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ انفرادی طور پر کئی پنڈت لیڈر کشمیری مسلمانوں کے شانہ بہ شانہ رہے ، مگر طبقاتی حیثیت سے وہ تحریک آزادی کے دھارے سے کٹے ہی رہے۔
اسی مہاراجہ نے 1947میں قبائلی حملوں کے خوف سے رات کے اندھیرے میں بھاگ کر ان کو اپنے حال پر چھوڑ دِیا۔ یہ تو کشمیری مسلمان ہی تھے، جنہوں نے ان کی حفاظت یقینی بنائی۔
پنڈت پران ناتھ جلالی ایک واقعہ سناتے تھے، کہ شیخ عبداللہ نے بطور چیف ایڈمنسٹریٹر جب زمامِ کار سنبھالی تو ان کو کشمیری پنڈتوں کی باز آباد کاری کا کام سونپا گیا۔ ان کو اطلاع ملی کہ ہندواڑ ہ تحصیل کے کسی گاؤں میں کشمیری پنڈتوں کے کئی خاندان ہفتوں سے غائب ہیں۔ سرینگر سے روانہ ہوکر سوپور تھانے سے سپاہیوں کی کمک لیکر وہ اس گاؤں میں پہنچے۔ معلوم ہوا کہ اطلاع صحیح تھی۔ گاؤں کے سرکردہ افراد کو بلا کر ان کا انٹروگیشن کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کی سخت پٹائی کی ، حتیٰ کی ان کی خواتین و بچوں تک کو نہیں بخشا، مگر سبھی گاؤ ں والے عذا ب تو سہتے رہے، مگر بس یہی کہتے رہے کہ ان کو کچھ نہیں معلوم کہ یہ پنڈت خاندان کہاں چلے گئے ہیں۔ خیر جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ ایک خالی پنڈت مکان میں انہوں نے اور سپاہیوں نے ڈیرا ڈالا۔ ایک رات ایک سپاہی نے انکو بتایا کہ رات گئے گاؤں میں لوگوں کی کچھ غیر معمولی نقل و حرکت محسوس ہوتی ہے۔ اگلی رات انہوں نے ناکہ لگاکر دیکھا کہ و اقعی گاؤں کے سرکردہ افراد سروں پر ٹوکریاں جمائے پاس کے جنگل کی طرف رواں ہیں۔ جلالی صاحب اور سپاہیوں نے انتہائی ہشیاری کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ چند ایک میل چلنے کے بعد معلوم ہوا کہ نالے کے دوسری طرف ایک محفوظ و تنگ گھاٹی میں کشمیری پنڈت خاندان چھپے ہوئے تھے اور گاؤ ں والے ہر رات ٹوکریوں میں ان کو کھانا پہنچا رہے تھے۔ جلالی صاحب کا کہنا تھا کہ مذامت سے ان کے پاؤں زمین میں گڑ گئے۔ گزشتہ کئی روز سے انہوں نے ان گاؤں والوں کا جس طرح ٹارچر کیا تھا، وہ اس پر پشیمان تھے۔ ان جاہل ان پڑھ دیہاتیوں نے ٹارچر اور گالیا ں کھانا برداشت تو کیا، مگرکیا بچے کیا خواتین ، کسی نے پنڈتوں کے ٹھکانے کا افشا نہیں کیا۔ بعد میں گاؤں والوں نے بتایا کہ ان کو جلالی صاحب کی ٹیم پر بھروسہ نہیں تھا، کہ آیا وہ واقعی سرینگر سے ان پنڈتوں کو بچانے آئے ہیں یا ان کو قتل کرنے کے درپے ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت کا ہے، جب جموں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ ایک باضابطہ نسل کشی کے ذریعے ان کی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا تھا۔ اسی لئے مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ جب پورا برِصغیر فرقہ وارانہ آگ میں جل رہا تھا تو کشمیر سے انکو روشنی کی کرن نظر آرہی تھی۔
کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ دہلی کے ایوانوں میں نوکر شاہی کو اپنا کعبہ و قبلہ تصور کرنے کے بجائے کشمیری پنڈت حضرات ہم وطنوں کے مفادات کا بھی خیال رکھیں۔ مگر جب بھی مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ احساسِ کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوں کو اس بھرم میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دہلی کے آشیرواد سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کردیں گے۔ کشمیریوں نے اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ انہیں ہمیشہ ہی اپنے بیچوں بیچ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر کشمیری قوم کی بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا‘ یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی، نہ صرف ہم قدم اور ہم خیال نہیں تھی بلکہ بار بار ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا جو اکثریتی شاہراہ کے مخالف رہا ہے۔ وقت ہے کہ پنڈتوں کو اپنا دامن دیکھ لینا چاہیے کہ آخر دونوں فرقوں کے بیچ نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا؟
اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی فرقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اُدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے؟ اگر بھارت کے مفادات کی بھی بات کریں، جس طرح کی رسائی پنڈتوں کی دہلی دربار میں تھی، وہ بھارت کیلئے بھی ایک طرح کے پل کا کام کرسکتے تھے۔ مگر دہلی کے جاسوسوں اور ففتھ کالم کا کردار ادار کرکے انہوں نے کشمیر میں بھارت کے مفادات کو بھی زِک پہنچائی۔ ان کے کردار نے کشمیری مسلمانوں کو نہ صرف بھارت مخالف بنایا، بلکہ نفرت کرنے کی حد تک پہنچادیا۔ کشمیری پنڈتوں کے حالیہ رو یے سے یہ کہاوت بھی ثابت ہوگئی کہ جب ’’در‘‘ عروج پر ہوتے ہیں، تو کشمیر پر زوال آتا ہے۔ کشمیر ایک بار پھر آگ اور خون نے دہانے پر کھڑا ہے۔ ان حالات میں اس دعا کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
دیار یار تری جوشش جنوں کو سلام
میرے وطن ترے داماںِ تار تار کی خیر
رہ ِیقین تری افشاں خاک و خون پہ سلام
میرے چمن تیرے زخموں کے لالہ زار کی خیر
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں