دیکھنے ہم بھی گئے تھے واں ۔۔۔سید عارف مصطفیٰ

آج بروز جمعہ 30 اگست یوم یکجہتیء کشمیر منایا گیا اور حکومت پاکستان کی جانب سے دن 12 سے ساڑھے 12 بجے تک ٹریفک روک کر گویا کشمیریوں پہ بھارتی مظالم کی ٹریفک روکنے کا اہتمام کیا گیا اور یوں مودی کو نادم کرکے بلک بلک کے رونے پہ مجبور کرنے کی ایک غیرمعمولی طور پہ خوفناک و متاثرکن کوشش کی گئی تھی جس پہ عملدرآمد کی حقیقی صورتحال میں بہ چشم خود دیکھنے ناظم آباد پیٹرول پمپ کراچی کے فلائی اوور کی چورنگی پہ گیا تھا ( اسے ملک کا سب سے پہلا فلائی اوور ہونے کا شرف بھی حاصل ہے) ۔۔۔ مجھے وہاں پہ جماعت اسلامی سندھ کے امیر کے معاون اور شعبہء تنظیم کے نگراں محمد مسلم بھی مل گئے جو یہ ‘دلدوز’ مناظر دیکھنے کے لیے وہاں موجود تھے – وہاں پہ میں نے یہ افسوسناک نظارہ دیکھا کہ عوامی سطح پہ مودی کو تڑپانے اور سسکیاں بھروانے کے اس عظیم حکومتی منصوبے پہ عوام نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی بلکہ ٹریفک پولیس ہی کو محض ایک دو منٹ کے لیے یہ کام کرنا پڑا ، پھروہ بھی ایک طرف کو ہوگئے کیونکہ وہ ایسی رکی ہوئی گاڑیوں میں دلچسپی نہیں لیتے کہ جن سے راز و نیاز نہ ہوسکے اور گردش ِ زر کے اسرار سمجھانے کا موقع نہ ہو ۔۔۔ یوں  مودی سے خوفناک انتقام کےاس قومی وقفے میں بھی سب کچھ حسب معمول چلتا رہا اور اس رواں دواں ٹریفک کے چلتے کوئی گاڑی والا بھی وہاں رکنے کو آمادہ نظر نہ آتا تھا ۔۔۔ گو کہ بارہ بجنے کے وقت آغاز میں فلائی اوور کی سڑک پہ ایک اسکول کے چند بچے پاکستان اور آزاد کشمیر کے جھنڈے لے کے ضرور پہنچ گئے تھے لیکن وہاں کچھ بھی منظم نہ تھا البتہ منظم انداز صرف ہبڑ دبڑ ہی تھی کہ جو مچی ہوئی تھی کیونکہ قومی ترانوں یا ملی نغمے پڑھوانے یا مارچ پاسٹ کا کوئی باضابطہ اہتمام نہیں کیا گیا تھا ۔۔ اور وہ بھی بس وہاں یونہی ذرا سی دو تین منٹ کی نعرے بازی ضرور ہوئی پھر یہ جا اور وہ جا ۔۔۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کی شاید سب سے زیادہ مشہورو مصروف اس جگہ پہ حکومتی اعلان کے ایسے ‘ولولہ انگیز خیرمقدم’ پہ مجھے کوئی خاص حیرت نہیں ہوئی کیونکہ البتہ اس اعلان کے بعد سے حکومت کو شاید اس بات کا ثواب مل جائے کہ روتے ہوؤں کو ہنسا دینا بھی صدقہ ہے تاہم بہتیرے حیرت سے یہ پوچھتے نظر آئے کہ ” کیا انڈیا کی جانب سے کشمیر پہ قیامت کی چال چلنے کا یہ کوئی مؤثر جواب ہے “ ۔۔۔ بیشتر کا کہنا یہ تھا کہ اگر آدھا گھنٹے باہر کھڑے رہنے سے کشمیریوں کےلیے  ہماری ہمدردی ظاہر ہوسکتی ہے تو پھر پورا دن کھڑے رہ کر اکھنڈ بھارت اور ہنو تؤا کے ناسور ہی کو نپٹائے دیتے ہیں “ ۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ بعد میں امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے اس سستے نسخے سے فائدہ اٹھا کر مزید آدھا گھنٹہ  کھڑے رہ کر فلسطین کے ساتھ بھی اظہار یکجہتی میں کیا حرج ہے اسی طرح باقی جلتے سلگتے میانمار ، شام لیبیا ، عراق اور مصری مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا اظہار یکجہتی عین ضروری طور پہ مطلوب ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں تو یہ تو کیا ہی جاسکتا تھا کہ طویل عرصے سے کشیر کمیٹی کے نام پہ کروڑوں کے فنڈ ڈکارنے والے مولانا فضلو کو واہگہ بارڈر کے دوسری طرف اچھال کر پھینک دینے سے کشمیریوں کا غم کچھ تو ہلکا کردیا جاتا ۔۔۔

یہاں یہ کہنا ہرگز بیجا نہیں کہ جس طرح نالائق طالبعلم اچھی تعلیم نہیں اچھے بستے کے لیے زیادہ مستعد ہوا کرتے ہیں اسی طرح نالائق حکومتیں قومی چیلنجز سے نپٹنے کی کوششوں کے بجائےغل غپاڑہ ایکٹیوٹیز یعنی آپٹکس یا فریب نظر پہ مبنی اقدامات کا سہارا لیتی ہیں ۔۔۔ اور آج کشمیر کے معاملے پہ یکجہتی کے نام پہ کی گئی یہ حرکت بھی اسی طرح کی ایک کوشش تھی اور اس سے انڈیا کو اسی طرح سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جس طرح 27 برس سے آپ ہر برس 5 فروری کو یوم کشمیر کے نام پہ ایک قومی تعطیل مناتے ہیں اور اس روز اربوں روپے کے ریونیو سے قومی خزانے کو محروم رکھ کے نجانے بھارت کو  کونسا نقصان پہنچاتے ہیں ۔۔۔ کیونکہ اس نقصان  کے ہوتے بھارت تو یہی چاہے گا کہ آپ ایسا یوم کشمیر سال میں کئی کئی بار منائیں ۔۔۔ اس ضمن میں خاکسار نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ اس حوالے سے سے کشمیر کاز کو حقیقی فائدہ جب پہنچ سکتا ہے کہ جب آپ اس روز کو یوم کشمیر قرار دے کر کوئی چھٹی منانے کے بجائے اس دن کی قومی آمدنی کو کشمیریوں کی مدد اور بحالی کے لیے وقف کرنے کا اعلان و اہتمام کریں ۔۔۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس پہ عمل کیونکر کیا جائے گا جبکہ اصل مقصود کشمیریوں کی مدد نہیں بلکہ انکے نام پہ اپنی بے عملی کو چھپانے کے لیے غل غپاڑے تک محدود رہنا ہو اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جیسا کہ میں نے بتایا کہ وہاں جماعت اسلامی کے ایک رہنماء محمد مسلم بھی موجود تھے تو میں نے ان سے دست بستہ یہ استفسار کیا کہ یکم ستمبر بروزاتوار جماعت اسلامی کراچی میں جو مرکزی ریلی نکال رہی ہے تو وہ بھی تو آپٹکس کی آسان سیاست کررہی ہے ، کیونکہ کیا جماعت کو اس سے کراچی والوں کو کشمیریوں کے معاملے پہ جگانا مقصود ہے ، حالانکہ وہ تو اس ضمن میں پہلے ہی جاگے ہوئے ہیں اور کشمیری بھائی بہنوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پہ بہت شدید مضطرب ہیں ، لیکن اصل بیداری تو ان غافلین کی مطلوب ہونی چاہیئے کہ جو کشمیریوں پہ ہونے والی وحشت و بربریت کے ذمہ دار مودی کی پیٹھ تھپک رہے ہیں اور ضرورت تو اس امر کی ہے کہ جماعت اسلامی اس ریلی پہ لگنے والی توانائیاں و بجٹ کو زیادہ مؤثر طور پہ صرف کرے اور یہ ریلی نکالنے کے بجائے آخر کیوں وہ یو اے ای ، بحرین ، فلسطین ، سعودی عرب اور یواین او کے سفارتخانوں و قونصل خانوں کے سامنے مظاہرے و احتجاج کی راہ نہیں اختیار کرتی ۔۔۔؟؟ میرے اس ناہنجارانہ سوال پہ بھائی مسلم میٹھی سی مسکان کیساتھ مسکرادیئے اور چپ رہے ۔۔۔ ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ کیوں ۔۔۔ کیونکہ انہیں منظور تھا پردہ تیرا۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply