معراج محمد خاں کی کچھ باتیں اور یادیں۔۔ارشد بٹ

عمران خان کہنے لگے حسن نثار نے جلسہ کے پوسٹر کے لئے بڑا زبردست نعرہ تجویز کیا ہے۔ انہوں نے جیب سے ایک پرچی نکال کر معراج محمد خاں کی جانب بڑھا دی، جس پر لکھا تھا”احتساب ورنہ انتقام”۔۔ تحریک انصاف کے مرکزی دفتر سکاچ کارنر مال روڈ لاہور میں معراج محمد خاں کے ساتھ بیٹھے تحریک انصاف پنجاب کے اس وقت جنرل سیکریٹری خواجہ سلیم اور راقم صدر پی ٹی آئی لاہور حیران و ششدر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ معراج محمد خاں نے بڑے اطمینان سے سگریٹ کا ایک کش لگایا اور دھیمے انداز میں مخاطب ہوئے،

عمران ! تحریک انصاف آئین و قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کے اعلیٰ انسانی آدرشوں کی علمبردار ہے۔ بلا امتیاز سب کا احتساب ہمارا نعرہ ہے جس میں انتقام نام کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا۔ اس کے بعد “احتساب ورنہ انتقام” کا نعرہ پوسٹر کی زینت بنتے بنتے رہ گیا۔

یاد رہے یہ واقعہ اپریل 1999 کاہے جب لاہور کے تاریخی موچی گیٹ میں تحریک انصاف کا پہلا عوامی جلسہ منعقد کرنے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ مجھے قطعاً حیرانی نہیں ہوتی کہ عمران خان نے بر سر اقتدار آکر قانون کی بالادستی اور عدل و انصاف کی دھجیاں کیونکر بکھیریں اور احتساب کے نام پر انتقام کے جھنڈے گاڑھ دیے۔ کاش معراج محمد خاں آج زندہ ہوتے اور وہ بھی “احتساب ورنہ انتقام” کے نعرے کی عملی تعبیر کا نظارہ اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے کرتے۔

معروف دانشور، کالم نگار اور سینئر ایڈووکیٹ محمود مرزا مرحوم تحریک انصاف کا منشور اور آئین مرتب کرنے والی کمیٹی کے اہم رکن تھے۔ کمیٹی کے چیئرمین معروف وکلاء راہنما اور سینئر ایڈووکیٹ حامد خان تھے۔ ستمبر 1998 کو مرزا صاحب نے مجوزہ منشور پر مشورہ کے لئے معراج محمد خاں کو اپنے گھر دعوت دی اور راقم معراج صاحب کے ساتھ تھا۔ مرزا صاحب کہنے لگے معراج صاحب اس وقت آپ اپنے نظریات کے مطابق پارٹی منشور میں جو کچھ لکھوانا چاہیں لکھوا لیں کیونکہ عمران ہر بات آسانی سے ماننے کو تیار ہو جاتا ہے۔ معراج محمد خاں نے چائے کی چسکی لی اور میری طرف دیکھتے ہوئے مسکرائے اور کہنے لگے ارشد بٹ، مرزا صاحب بڑےسچے مگر بھولے انسان ہیں۔ پھر معراج صاحب نے مرزا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ،مرزا صاحب! جب یہ عوام میں سیاسی طاقت پکڑے گا تو پارٹی منشور و آئین کی حیثیت ردی کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں رہے گی۔ اس بات پر مرزا صاحب نے ایک زور دار قہقہہ  لگایا ۔ مرزا صاحب بولے پاکستان کی تاریخ کا سبق تو یہ ہی ہے کہ عوامی مقبولیت حاصل کرکے لیڈروں نے عوامی امنگوں کا خون کرنے سے دریغ نہیں کیا۔

معراج محمد خاں کی پیش گوئی اس قدر سچ ثابت ہو گی، اس وقت یقین کرنا مشکل تھا۔ تحریک انصاف کے منشور کی دھجیاں اڑتی دیکھنے کے لئے نہ محمود مرزا اس دنیا میں رہے اور نہ ہی معراج محمد خاں اپنی پیش گوئی کی تعبیر دیکھنے کے لئے موجود ہیں۔ مگر منشور کمیٹی کے چیئرمین محترم حامد خان اپنے ہاتھوں سے لکھے تحریک انصاف کے آئین و منشور کی درگت بنتے دیکھ رہے ہیں۔ یاد رہے حامد خاں تحریک انصاف کے بانی رکن، منشور و آئین کمیٹی کے چیئرمین اور تحریک انصاف کے وائس چیئرمین رہے ہیں۔

معراج محمد خاں نے 22۔ جولائی 2016 کو وفات پائی۔ انکی وفات سے تقریباً ساڑھے تین ماہ قبل، 7۔ اپریل 2016 کو راقم ان سے ملاقات کرنے کراچی گیا ۔ معراج صاحب نے ڈنر پر سینئر ایڈووکیٹ رشید رضوی، ماضی کے مقبول ترقی پسند ہفت روزہ الفتح کے سابق ایڈیٹر وہاب صدیقی، فیض کلچرل فاؤنڈیشن برطانیہ کے روح رواں اکرم قائم خانی کے علاوہ متعد ترقی پسند کارکنوں اور دانشوروں کو مدعو کر رکھا تھا۔ ایک صوفہ پر میرے اور وہاب صدیقی کے درمیان معراج محمد خاں بیٹھے تھے۔ سب کی موجودگی میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے بڑے دکھی لہجے میں بولے “ارشد بٹ میں نے تحریک انصاف میں شامل ہو کر اپنے ساتھ تمہیں بھی مروا دیا”۔

یہاں یہ وضاحت کرتا چلوں کہ راقم نے معراج محمد خاں کی دعوت پر 1998 میں پی ٹی آئی میں شمولیت ا ختیار کی اور تقریباً دو سال مارچ 2000 تک پی ٹی آئی لاہور کا صدر رہا۔ پی ٹی آئی لاہور کی صدارت اور رکنیت کو میں نے اس وقت خیر باد کہا جب عمران خان نے فوجی آمر جنرل مشرف کی حمایت کرنا شروع کر دی۔

1978 میں تین سالہ قید سے رہائی کے بعد معراج محمد خاں نے ایک سیاسی جماعت پاکستان قومی محاذ آزادی کی بنیاد رکھی۔ جنرل ضیاء مخالف جمہوریت بحالی کے متحدہ سیاسی محاذ ” تحریک بحالی جمہوریت” یعنی ایم آر ڈی میں شامل ہو کر قومی محاذ آزادی کے کارکنوں نے پاکستان بھر میں بے مثال قربانیاں دیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ معراج محمد خاں نے ضیاء فوجی آمریت کے خلاف جمہوریت بحالی کا پرچم سر بلند رکھنے کے جرم میں تقریباً پانچ سال تک جیل کی سختیاں برداشت کیں۔ جنرل ایوب اور جنرل یحیی مار شل لاء کے دوران معراج محمد خاں نے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے لیڈر اور بعد ازاں پیپلز پارٹی کے راہنما کی حیثیت میں طلبہ، مزدوروں، کسانوں اور کمزور طبقات کے حقوق کے لئے بے مثال جد و جہد کی۔

معراج محمد خاں پاکستان کے ان گنے چنے سیاسی راہنماؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے عوامی حقوق کا پرچم سر بلند رکھنے کے جرم کی پاداشت میں اپنی زندگی کے تیرہ سال عوامی حقوق غصب کرنے والے حکمرانوں کی قید میں گزارے۔ پاکستان میں جنرل ایوب، جنرل یحیی اور جنرل ضیاء کی مارشل لاوں کے خلاف عوامی جمہوری جد وجہد کی تاریخ معراج محمد خان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

ضیا آمریت کے خاتمے کے بعد اور 1990 کی دہائی میں قومی محاذ آزادی کی سرگرمیاں بتدریج کم ہونا شروع ہو چکی تھیں۔ دوسری جانب ملکی سیاست میں سرمائے کا عمل دخل بہت بڑھ چکا تھا۔ عمومی طور پر یہ دور ترقی پسند اور بائیں بازو کی سیاست کی بے عملی یا زوال سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ صرف قومی محاذ آزادی ہی نہیں بلکہ بائیں بازو کی سیاست کا دعوی کرنے والے گروہوں یا پارٹیوں کی سیاست عوام سے کٹ چکی تھی۔ محنت کشوں، طلبہ، عوام دوست دانشوروں اور شہری درمیانہ طبقوں میں بائیں بازو کی تنظیمیں اپنا اثر کھو بیٹھی تھیں۔ میجر اسحاق کی مزدور کسان پارٹی، کمیونسٹ پارٹی کا فرنٹ نیشنل پروگریسو پارٹی، سی آر اسلم کی سوشلسٹ پارٹی، لاہور کا پروفیسر گروپ، کراچی کا طفیل عباس گروپ وغیرہ، نظریاتی، تنظیمی اور سیاسی بحرانوں کی وجہ سے مفلوج ہو چکے تھے۔ ان حالات میں قومی محاذ آزادی، سوشلسٹ پارٹی اور کئی جھوٹے گروپوں نے متحد ہوکرعوامی جمہوری پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی مگر یہ بیل زیادہ عرصہ منڈے نہ چڑھ سکی اور یہ جماعت بہت جلد سیاسی منظر سے غائب ہو گئی۔

1996 کے انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست کے بعد عمران خان سیاسی مایوسی اور تنہائی کا شکار تھے۔ وہ معراج محمد خان کے گھر کراچی جا پہنچے۔ عمران خان نے معراج محمد خاں سے کہا میں آپ کی ایمانداری، اصول پسندی اور جدوجہد سے بہت متاثر ہوں۔ اگر ہم اتحاد کر لیں تو آپکے نظریات اور خواہشات کے مطابق عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والی ایک بڑی عوامی سیاسی جماعت معرض وجود میں لائی جا سکتی ہے۔ قومی محاذ آزادی کی ماند پڑتی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے اور کراچی کے کچھ دانشور دوستوں کے مشورے کے بعد معراج محمد خان نے 1998 کو قومی محاذ آزادی کا پی ٹی آئی کے ساتھ ادغام کر دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

معراج محمد خاں ایک وسیع البنیاد سیاسی پلیٹ فارم سے ترقی پسند نظریات کی ترویج اور عوامی حقوق کے لئے جمہوری جدوجہد کے قائل تھے۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں شمولیت کے فیصلے اسی سیاسی حکمت عملی کا اظہار تھا۔ معراج محمد خاں کا شمار پیپلز پارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے معراج محمد خاں کو پارٹی میں اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ معراج محمد خاں پیپلز پارٹی میں شمولیت کے فیصلے کا دفاع کرتے تھے جبکہ وہ تحریک انصاف میں شمولیت کے فیصلے کو بہت بڑی سیاسی غلطی مانتے تھے جسے انہوں نے کھلے دل سے تسلیم کیا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply