“اندھوں کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی”

محترمہ ڈاکٹر روتھ فاؤ صاحبہ کے متعلق سوشل میڈیا پہ لوگوں کی بلکہ ہمارے مذہبی و غیر مذہبی مفکرینِ کرام کی آراء دیکھ کے جرأت قلندر بخش صاحب کے مصرع اولی کے جواب میں انشااللہ خان انشا صاحب کا مصرعہ ثانی یاد آ رہا ہے مصرعہ ثانی کچھ یوں ہے کہ
“اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی”
لگتا ہے سب اندھے اندھیرے میں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں، اس معاملے میں جس کا ہمیں اختیار تو کُجا، علم بھی نہیں دیا گیا، کہ کسی کے ساتھ اخروی زندگی میں کیا معاملہ ہونے والا ہے اور یہ روش کتنی مضحکہ خیز ہے کہ ہمیں اپنا علم بھی نہیں کہ ہمارے اپنے ایمان کی حالت کیا ہے اور ہمارے ساتھ کیا معاملہ ہو گا اور ہم نے دوسروں کے معاملے میں فیصلہ کن انداز اختیار کیا ہوا ہے۔
ہم جنت دوزخ کے ٹکٹ ایسے تقسیم کرتے ہیں جیسے اللہ رب العزت نے ہمیں جنت دوزخ کے مالکانہ حقوق دئیے ہوئے ہیں یا ہمیں داروغہ مقرر کیا ہوا ہے۔ کوئی ٹکٹیں جاری کر رہا ہے تو کسی نے ہاتھ میں لٹھ پکڑی ہوئی ہے اور لوگوں کو جنت دوزخ کی طرف ہانک رہا ہے، کسی کی موت کو حرام موت کی سند دی جا رہی ہے تو کوئی کسی کو شہید کا سرٹیفکیٹ جاری کر رہا ہے۔ کراماً کاتبین بھی سوچتے ہوں گے کہ رب العالمین نے انسان کو اتنا درجہ اور علم دیا ہے مگر یہ اپنے آپ کو پہچاننے سے قاصر ہے اور انسان بننے کی بجائے خدا بننے کی جستجو میں ہے۔
ایمان کا معاملہ خالصتاً اللہ اور بندے کے درمیان ہے اور کسی کی اخروی زندگی کیسی ہوگی یہ بھی خالصتاً اللہ رب العزت کا اختیار ہے۔ کسی کا ایمان کیسا ہے، اس کا معیار کیا ہے، اس کو کیسے پرکھنا ہے، اسے قبول کرنا ہے یا رد کرنا ہے، سب اسکی مرضی و منشاء پہ منحصر ہے، اور انسان کی عزت اللہ رب العزت کو اتنی عزیز ہے کہ اللہ رب العزت نے اس معاملے کو صرف انسان اور اپنے درمیان رکھا ہے تاکہ کوئی بھی بات کسی کے سامنے عیاں نہ ہو بلکہ جو بھی معاملہ ہو اس پہ پردہ رہے۔
کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو جس ایمانی کیفیت کو اپنے اندر تلاش کرنا چاہیے وہ دوسروں میں ڈھونڈتے ہیں۔ چاہیے تو یہ کہ کسی کے ایمان پہ کوئی قدغن نہیں لگائی جائے مگر اس پہلو پہ سب سے زیادہ نقطہ چینی کرتے ہیں، جہاں بات آتی ہے ایمانیات کی، تو کسی کی بھی ایمانی کیفیت کو مشکوک نہیں کہا جا سکتا، کسی کی نیت کیسی ہے وہ ایمان کے کون سے درجے پہ فائز ہے، کوئی انسان ہرگز نہیں جان سکتا، اگر کوئی کسی کی نیت و ایمان پہ بات کرتا ہے تو اس کا مطلب سوا اسکے اور کچھ نہیں کہ کسی کے متعلق بات کرنے والے کا ایمان کیسا ہے اس کے دل میں بغض و عناد بھرا ہوا ہے یا انسانوں سے محبت کا عنصر غالب ہے۔ کسی بھی انسان کا ایمان کیسا ہے اس کی نیت کیا ہے سب کچھ اسکے اعمال و گفتگو میں چھلکتا ہے، اپنا احتساب کرنے کی انتہائی ضرورت کے باوجود بھی ہم اپنے گریبان کے تعفن کو مشک و کستوری سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کے مشک و کستوری بھی تعفن زدہ محسوس ہوتے ہیں۔
یہ ہمارا فی زمانہ المیہ رہا ہے کہ ہمیں اپنے ایمان کی کم اور دوسروں کے ایمان کی فکر زیادہ رہی ہے جس کا نتیجہ ہمیں ہمیشہ مختلف مکاتب فکر کے آپس میں ٹکراؤ کی صورت میں ملا ہے، کسی کو معلوم بھی ہے کہ ایمان کو ناپنے کا پیمانہ کیا ہے؟ نہیں معلوم، جب اللہ نے انسان کو یہ حق تفویض ہی نہیں کیا تو کیسے معلوم ہو سکتا ہے مگر ہر شخص نے اپنا پیمانہ مقرر کیا ہوا ہے اور وہ پیمانہ اس کی اپنی ذات ہے، اس کی سوچ، اس کی فکر، اس کا خیال ہے “یعنی جو چاہے نگاہ کرشمہ ساز کرے” اپنے خیال و فکر سے مطابقت جنت کا ٹکٹ تھما دیتی تو عدم مطابقت جہنم کی عمیق وادیوں میں دھکیل دیتی ہے۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ صاحبہ نے اپنی زندگی کے بہترین دور کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کر دیا ان کی زندگی کا ظاہری اسلوب انتہائی اعلیٰ انسانی اخلاقی اقدار کا ثبوت ہے۔ باقی رہ گیا اللہ اور ان کا معاملہ تو اللہ رب العزت نے نہ تو کسی کو اس کا حق دیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی علم کہ فیصلہ کن انداز میں کسی کی آخرت کا فیصلہ کرتا پھرے، بلکہ جب اس قسم کا کوئی موڑ آئے تو اندھوں کی طرح اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے، کسی کی ذات پہ کوئی فیصلہ کن انداز اپنائے بغیر، احسان کا بدلہ احسان کی روش کو اپناتے ہوئے بات کو اللہ رب العزت کی مرضی پہ موقوف کیا جائے اور ان کو خراج تحسین پیش کیا جائے کہ انہوں نے اپنی زندگی ہمارے لوگوں کے لئے وقف کردی۔
ہمارا کام یہ نہیں کہ کس نے کیا کیا اور کیا نہ کیا، بلکہ اپنی ذات میں نکھار پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس سے معاشرے میں اخلاقی و سماجی پہلوؤں سے کوئی مثبت نتائج سامنے آئیں اور فقط اس بات کی طرف توجہ دی جائے کہ کیا میری ذات سے انسانیت کی بھلائی کے لئے ایسے کارہائے نمایاں ہیں جنہیں میں رب جلیل کے سامنے پیش کر سکوں جو میری مغفرت کا سامان ہوں، اور کسی کے ایمان کی فکر کرنے کی بجائے پہلے اپنی ذات کو مکمل کیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ روزِ محشر کسی کے گناہ ہماری پھیلائی ہوئی بدگمانی کی وجہ سے ہمارے سر آ جائیں۔
آخر میں جرأت قلندر بخش صاحب اور انشا اللہ خان انشا صاحب کی روح سے معذرت کے ساتھ ذرا تبدیلی سے شعر عرض ہے کہ
“اس فکر پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
اندھوں کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی”

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply