اعتراف۔۔امجد اسلام امجد

اگرچہ فن اور تخلیقی صلاحیت آپ اپنا اجر ہوتے ہیں اور آفتابِ آمددلیل آفتاب کی طرح انھیں کسی خارجی گواہی کی ضرورت نہیں ہوتی مگر یہ بات بھی اپنی جگہ پر اہم ہے کہ کسی شخص کی خوبی کارنامے یا فن کی تحسین اُ س کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں کا حوصلہ بڑھاتی ہے اور وہ رول ماڈل کی طرح ہم عصروں اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک روشن مثال کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔

اس معاملے کی ایک شکل وہ ایوارڈز ہیں جو کسی ادارے یا حکومت کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں، اگرچہ ہر ایوارڈ اپنی جگہ پر اہم اور قیمتی ہوتا ہے لیکن قومی اور انٹرنیشنل ایوارڈز نسبتاً زیادہ محترم سمجھے جاتے ہیں کہ ان کے لیے مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے۔

پاکستان کے سِول ایوارڈ ہوں یا عالمی سطح کے نوبل، آسکر ٹائپ ایوراڈ ان کو حاصل کرنیوالے کامیاب انسان رول ماڈل کی شکل اختیار کرجاتے ہیں اور یوں جہاں ایک طرف انھیں جیتے جی “غیر معمولی” ہونے کی سند مل جاتی ہے، وہیں وہ بعد میں آنے والوں کے لیے ایک قابل تقلید منزل اور محرک کی شکل بھی اختیار کر جاتے ہیں۔

ایک وقت آتا ہے جب کچھ لوگوں کے لیے یہ ایوارڈز ایک روزمرہ کی بات کی طرح معمول کی صف میں آجاتے ہیں کہ انھیں اس کی عادت سی پڑجاتی ہے لیکن سب سے پہلے یا شروع شروع میں ملنے والے ایوارڈز کا ایک اپنا ہی مزا ہوتا ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت Life Time Achivement Award کی بھی ہوتی ہے کہ یہ عمر بھر کی محنت کی کمائی کی طرح دلکش بھی ہوتے ہیں اور حوصلہ افزا بھی۔

گزشتہ جمعے کو گورنر ہائوس لاہور میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی طرف سے اس خوبصورت روائت کی تجدید کرتے ہوئے ایک تقسیم ایوارڈ کی تقریب منعقد کی گئی جس میں کُل ملا کر 30لوگوں کو ایوارڈز دیے گئے جن میں اکثریت دردِ دل رکھنے اور عوامی خدمت میں پیش پیش افراد کو حاصل تھی جو ایک بہت اچھا اقدام ہے کہ خدا کی راہ میں خلقِ خدا کی بہتری، سہولت اور مدد کے لیے کام کرنیوالے مخیّر حضرات ربِ کریم کی طرف سے عطا کی گئی دولت اور نعمتوں پر سانپ بن کر بیٹھنے کے بجائے انھیں ایک امانت کی طرح خیر کے کاموں میں استعمال کرتے ہیں، یہاں مجھے پہلی بار چھیپا صاحب کو براہِ راست دیکھنے کا موقع ملا جنھوں نے بلاشبہ ایدھی صاحب کی طرح خدمتِ خلق کے میدان میں ایک نئی روائت کی بنیاد ڈالی ہے۔

برادرم اعزاز احمد چوہدری، ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک، “ہم ” ٹی وی کی روحِ رواں سلطانہ صدیقی اور مجھ سمیت بہت سے احباب کو اُن کے مخصوص شعبوں میں غیر معمولی خدمات کی بنیاد پر اس ایوارڈ کا حق دار سمجھا گیا لیکن زیادہ زور انھی لوگوں پر تھا جنھوں نے صحت، تعلیم یا عوامی فلاح کے کاموں میں زیادہ اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، اس تقریب میں اور تو سب کچھ صحیح اور قابلِ تعریف تھا لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اسٹیج پر ہونے والی کارروائی کا 95% حصہ انگریزی میں کیوں تھا؟ اگر کوئی ایسی تقریب ہوتی جس میں غیر ملکی یا اُردو سے نابلد افراد معقول تعداد میں موجود ہوتے تو پھر شاید اس کی گنجائش کسی طرح سے نکل آتی مگر جب سب لوگ ہی مقامی اور اپنی قومی زبان بولنے کی صلاحیت رکھنے والے تھے تو پھر یہ غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا۔

تقریب میں چوہدری سرور کی شخصیت کے بارے میں ایک ڈاکیومنٹری دکھائی گئی، اُس کا انگریزی میں ہونا اس لیے قابلِ قبول تھا کہ اس کے ناطرین اور سامعین میں پاکستان سے باہر کے لوگ بھی پیشں نظر تھے مگر قرآنِ مجید کی تلاوت کا صرف انگریزی میں ترجمہ اور ایوارڈ یافتگان کی Citation کا انگریزی میں ہونا کوئی اچھا فیصلہ نہ تھا، اسی طرح کے روّیوں اور انگلش میڈیم میں پڑھنے والے بچوں کی اپنی زبان سے دُوری کی وجہ سے ہمارا معاشرہ پہلے ہی بہت توڑ پھوڑ اور مسائل کا شکار ہے، اس پر سرکاری اور معاشرتی سطح پر انگریزی کے غیر ضروری استعمال کی وجہ سے بھی معاملات مزید بگڑتے جارہے ہیں۔

میری ذاتی رائے میں انگریزی یا کسی بھی غیر ملکی زبان کو بلا ضرورت استعمال کرنا سوائے ذہنی غلامی کے اور کوئی تاثر نہیں چھوڑتی۔ بیگم صباحت رفیق اور بیگم چوہدری سرور محترمہ پروین سرور اور اسٹیج سیکریٹری خاتون سے تقریب کے بعد گفتگو کا موقع ملا تو ان سب کی اُردو اتنی اچھی، نفیس اور عمدہ تھی کہ کیا کہئے۔ سو میں اربابِ اختیار اور گورنر صاحب کو یہ مشور دینا اپنا فرض سمجھتاہوں کہ ازراہِ کرم ملک کے اندر جو تقریبا ت ہوں اور جہاں سب لوگ قومی زبان میں کہہ اور سُن سکتے ہوں وہاں ہمیں انگریزی سے احتراز کرنا چاہیے اس ایک قدرے منفی تاثر سے قطع نظر ساری تقریب بہت عمدہ اور متوازن تھی۔

بیگم صباحت رفیق ایک بہت مہذب، صاحبِ نظر اور شعر و ادب کی دلدادہ خاتون ہیں وہ ہماری محترم ادیبہ نثار عزیز بٹ کے قریبی احباب میں سے تھیں اور اس ناتے سے انھوں نے مجھے اور میری بیگم کو بھی رات کے کھانے پر اپنے گھر مدعو کیا جہاں سلطانہ صدیقی اور اعزاز احمد چوہدری بھی آرہے تھے جن سے تقریب کی بھیڑ بھاڑ میں ڈھنگ سے بات بھی نہیں ہوسکی اس لیے میں نے فوراً حامی بھرلی اس محفل کا لُطف اس لیے بھی بڑھ گیا کہ وہاں کامران لاشاری اور ان کی بیگم بھی موجود تھے۔ صباحت اور اُنکے میاں نوید کا گھر بھی اُنکے دل کی طرح بڑا اور خوبصورت تھا۔ گورنر چوہدری سرور اپنی سرکاری مصروفیت کی بنا پر ازبک اور ٹرکش مہمانوں کے ساتھ مصروف تھے البتہ اُن کی بیگم نہ صرف ٹھیک وقت پر پہنچ گئیں بلکہ بعد از طعام ہونے والی محفلِ موسیقی میں بھی شامل رہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

برادرم حامد علی خاں کے بیٹے نایاب نے خوب رنگ جمایا لیکن زیادہ خوشگوار حیرت یہ تھی کہ کچھ دیر بعد خاتونِ خانہ یعنی صباحت بیگم سے بھی گانے کی فرمائش کی گئی، معلوم ہوا کہ وہ گزشتہ تین ماہ سے باقاعدہ نایاب سے ہی موسیقی کی کلاس لے رہی ہیں، اُن کی آواز بھی اُن کی عمومی شخصیت کی طرح سریلی اور خوشنما تھی سو اس حبس زدہ ماحول میں جب یہ پورا معاشرہ سیاسی بے چینی اور میڈیا کے ٹاک شوز کی پھیلائی ہوئی بے معنویت کا شکار ہے، یہ ایک دن جو اچھی خبروں اور ماحول کے درمیان گزرا، بہت اچھا لگا، کاش وطنِ عزیز پر گزرنے والا ہر دن ایسا ہی خوبصورت اور آباد ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply