جگجیت کی غزل سے جیمز ویب دوربین تک۔۔ارشد غزالی

17 جون 1982 کو جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کی البم “دا لیٹسٹ” ریلیز ہوئی اس البم کی ایک غزل ” وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی” آج چالیس سال بعد بھی سننے والوں کو مسحور کر کے بے اختیار بچپن تک پہنچا دیتی ہے جہاں کچی مٹی میں بہتے بارش کے پانی میں کاغذ سے بنائی کشتیاں چلانے کی یادیں زندگی کی تلخیوں میں خوشیوں کے رنگ بھر دیتی ہیں۔ کاغذ کو بناء کاٹے اور گلیو لگائے تہہ  کر کے اشیاء بنانے کا صدیوں پرانا فن اوریگامی کہلاتا ہے۔ یہی فن جیمز ویب دوربین میں استعمال کر کے سائنسدانوں نے کمال کردیا اور ایک نئی تاریخ رقم کی۔

بنیادی طور پر کاغذ کی ابتدائی شکل “پیپرس” تھی جس کی ابتداء مصر میں تقریبا ً چار ہزار سال قبل ہوئی اور یہ پیپرس نامی پودے سے تیار کیا جاتا تھا۔ ان پودوں کے تنے کاٹ کر مستطیل پٹیاں بنا لی جاتی تھیں پھر ان کو ایک قطار میں رکھ کر ان پر ایک اور قطار رکھی جاتی تھی پھر انہیں لیس دار آمیزہ سے جوڑ کر کوٹا جاتا تھا کوٹنے سے ان کی سطح برابر ہو جاتی پھر ان تیار شدہ ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک بڑا ٹکڑا تیار کر لیا جاتا اور اس پر ایک آمیزہ پھیر کر اس کی سطح کو چکنا بنا لیا جاتا تھا۔ آج کے دور میں رائج کاغذ کی ابتداء کا سہرا چینی باشندے تسائیلن کے سر جاتا ہے جس نے 105 قبل از مسیح اسے تیار کیا مگر چینیوں نے صدیوں تک اس راز کو باقی دنیا سے پوشیدہ رکھا۔ اوریگامی کی حتمی تاریخ کے حوالے صرف سے قیاس ہی کیا جاسکتا ہے کہ چین سے اس کی ابتداء ہوئی مگر بعد میں یہ جاپان سمیت پوری دنیا میں رائج ہوگیا۔

اوریگامی کی ٹیکنیک کو استعمال کرتے ہوئے جیمز ویب خلائی دوربین کو فولڈ کر کے خلاء میں بھیجا گیا کیونکہ اس کا سائز اس قدر بڑا تھا کہ اسے کسی بڑے سے بڑے راکٹ میں بھی فٹ کرنا ممکن نہیں تھا اس لئے اس کے مختلف حصوں کو فولڈ کر کے پیک کیا گیا تھا۔ یہ سارا نظام اس قدر پیچیدہ تھا اور 344 ایسے مقامات تھے کہ ان میں سے اگر ایک بھی پرزہ فیل ہوجاتا یا درست کام نہ  کرتا تو پوری کی پوری دوربین ناکارہ ہوجاتی۔

اس دوربین کا پہلا مرحلہ سب سے پیچیدہ اور مشکل ترین تھا جس میں ٹینس کورٹ کے سائز کی فولڈ ہوئی سن شیلڈ کو پھیلایا جانا تھا جو کہ پانچ تہوں پر مشتمل تھی۔ پچھلے چند دن میں سن شیلڈ کو کامیابی سے کھول دینے اور انھیں الگ الگ کرنے کا کام مکمل کیا گیا تھا اور اب ناسا نے اعلان کیا ہے کہ اس دوربین کے فولڈ کئے ہوئے آ ئینے  بھی کامیابی سے کھول دیئے گئے ہیں اور دوربین مکمل کنفیگریشن میں آچکی ہے۔ زمین سے گیارہ لاکھ کلومیٹر دور اس دوربین کو کامیابی سے مکمل کرنا انجینئرنگ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اگلے چند دنوں میں اس دوربین کے آئینوں کا فوکس درست کیا جائے گا اور اس ماہ کے آخر تک یہ مزید تین لاکھ چھہتر کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے اپنے فائنل مدار L1 پوائنٹ تک پہنچ جائے گی۔

دس ارب ڈالر سے زیادہ کی لاگت سے تیار ہونے والی اس شاہکار دوربین کا سائز ایک بوئنگ 737 طیارے کے نصف جتنا ہے جب کہ اس سے قبل خلاء میں موجود ہبل دوربین کا سائز ایک بس جتنا تھا جب کہ جیمز ویب دوربین کے شیشے کا قطر بھی ہبل دوربین کے شیشے سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ دونوں دوربینوں میں ایک اور بنیادی فرق یہ ہے کہ ہبل دوربین زمین سے 570 کلومیٹر بلند مدار میں ہے جس کے زیادہ تر ڈیٹیکٹر الٹراوائلٹ اور ویزیبل اسپیکٹرم کو ڈیٹیکٹ کرتے ہیں جب کہ جمیز ویب دوربین کو انفراریڈ اور ریڈیو فریکوئنسی کو ڈیٹیکٹ کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے جو ہبل دوربین نہیں ڈیٹیکٹ کر پاتی یعنی ہم اس کی مدد سے ایسے مناظر اور کہکشائیں بھی دیکھنے کے قابل ہوجائیں گے جو تیرہ ارب نوری سال سے بھی دور ہیں نیز یہ دوربین زمین سے کل پندرہ لاکھ کلومیٹر دور L1 پوائنٹ پر مدار میں گردش کرے گی جہاں اس کے ڈیٹیکٹرز کو منفی 220 ڈگری سینٹی گریڈ تک رکھا جاسکتا ہے جو ہبل دوربین کے درجہ حرارت سے پندرہ گنا کم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہبل دوربین سے ہمیں یہ معلوم ہوا سیارے, ستارے اور کہکشائیں کیسے وجود میں آتے ہیں مگر جیمز ویب کا بنیادی مقصد بذات خود کائنات کی تشکیل کو سمجھنا ہے اس سے ہمیں یہ معلوم ہوسکے گا کہ کائنات کی ابتدائی چند کہکشائیں کیسے وجود میں آئیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ جیمز ویب دوربین ہبل دوربین کی نسبت کس قدر کامیاب رہے گی لیکن اگر اس نے درست طور پر کام کیا تو یقینا ً یہ فلکیات کی تاریخ میں انقلابی قدم ثابت ہوگی۔

Facebook Comments

ارشد غزالی
Columinst @ArshadGOfficial

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply