عمران خان ، اسلام اور کشمیر۔۔۔۔ارشاد محمود

وزیراعظم عمران خان کا ہفتے بھر کا دورہ امریکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب پر تمام ہوا۔ پاکستانی لیڈر کی سطح سے اوپر اٹھ کر وہ عالمی رہنما کے طور پر سامنے آئے جو مسلمانوں کے جذبات ، احساسات ہی نہیں بلکہ ان کی محرمیوں اور تحفظات کا بھی حقیقی ترجمان ہے۔ اسلام کی حقیقی تصویر عمران خان نے دنیا کے سامنے جس جرأت مندانہ اور مدلل انداز میں پیش کی اس نے اہل پاکستان کو دہائیوں کی مایوسی اور محرومی کے ماحول سے نکال باہرکیا۔ بقول علامہ اقبال
؎ یہ کلی بھی اس گْلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!

گزشتہ پورے ہفتے میں وزیراعظم خان کی سرگرمیوں کا محور اسلام کی درست تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنا اور مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت حاصل کرنا رہا۔ درجنوں فورمز پر پورے جوش وخروش کے ساتھ انہوں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔ دلیل ، ذاتی مشاہدات اور تجربات کو ہتھیار بنا کر مغربی رائے عامہ کو پاکستان، کشمیر اور مسلمانوں کا نقطہ نظر سمجھانے کی بھرپور اور موثر کوشش کی۔ ظاہر ہے نائن الیون کے بعد کسی بھی مسلمان لیڈر نے مغربی رائے عامہ کے ساتھ وسیع پیمانے پر مکالمہ نہیں کیا۔ مغرب میں مسلمانوں ، اسلام اور پاکستان کے خلاف درجنوں نہیں سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں مقالات چھپے۔

درجنوں پروگراموں میں ہر روز اسلام کو دہشت گردی کا ہم معنی بنا کر پیش کیا جاتاہے لیکن مسلمانوں کا مقدمہ پیش کرنے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات کو اجاگر کرنے والا کوئی نہ تھا۔ترکی کے صدر طیب اردوان اور مہاتر محمد نے کوشش کی لیکن ان کی کوششیں زیادہ بارآورنہ ہوسکیں ۔ انگریزی محاورے پر انہیں قدرت ہے اور نہ وہ مکالمے کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مغرب کو طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے اور اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہیں ۔ ان کے برعکس عمران خان نے مغربی رائے عامہ کے ساتھ سنجیدہ مکالمے کا دروازہ کھولا۔ دونوں تہذیبوں اور مذاہب کے درمیان مشترکات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی بات کی ۔

باہمی تصادم اور کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے بنی نوع انسانیت کی فلاح وبہبود ایک ایسے نکتے کے طور پر ابھارا جس پر مغرب اور عالم اسلام کے درمیان اتفاق رائے پیدا کیا جاسکتاہے۔ عمرا ن خان اپنے آپ کو امن پسند اور جنگ کے مخالف کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔غالباً اسی وجہ سے امریکہ صدر ڈونلڈٹرمپ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور ایرانی صدر حسن روحانی نے ان سے ثالثی کی درخواست کی۔ بھارتی وزیراعظم بھی ایران، امریکہ اور سعودی عرب کے دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہیں بھی ثالثی کی درخواست کی جاسکتی تھی لیکن پاکستانی وزیراعظم کو یہ کردار دینے کا مطلب ہے کہ پاکستان رفتہ رفتہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنا شروع ہوگیا ہے۔

عالمی میڈیا میں بھی پاکستانی نقطہ نظر کو پذیرائی ملنا شروع ہوچکی ہے ۔ کشمیر پر عمران خان کا موقف اور دلائل نہ صرف موثر بلکہ مدلل بھی تھے۔ جو کچھ بھارتیہ جنتاپارٹی کے سورماؤں نے کشمیر میں کیا اس نے پاکستان کو ایک سنہری موقع دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو دہشت گردی کے فریم ورک سے نکال کر ایک انسانی المیے کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرے۔اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایاگیااور کشمیر کی کہانی کو اس طرح پیش کیا گیا کہ کشمیرکے اندرپاکستان مخالف اور بھارت نواز عناصر کی بھی امیدیں جاگ اٹھیں اور انہیں پاکستان ایک موثر آواز اور توانا وکیل کے طور پر نظرآنا شروع ہوگیا ہے۔

الجزیزہ ٹی وی نے سری نگر سے ایک دلچسپ رپورٹ شائع کی ۔ رفعت وانی لکھتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر جوں ہی تمام ہوئی سری نگر میں لوگوں نے خوشی سے آتش بازی کی اور آزادی کے نعرے لگائے۔ الجزیزہ کو لوگوں نے بتایا کہ اس تقریر نے انہیں احساس دلایا کہ مشکل کی اس گھڑی میں وہ تنہا نہیں۔ کوئی ہے جو ان کے تحفظ کے لیے کھڑا ہے۔محبوبہ مفتی نے لکھا ٹویٹر پیغام میں لکھا کہ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک دن پاکستانی وزیراعظم آر ایس ایس کو دنیا کے سامنے دہشت گردجماعت کے طور پر متعارف کرائے گا۔جواہر لال نہر و یونیورسٹی کی طلبہ یونین سے شہرت پانے والی کشمیری خاتون شہلارشید نے لکھا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہر کوئی اس تقریر پر خوش تھا۔

حالیہ تقریر کے علاوہ گزشتہ دوماہ کے دوران وزیراعظم عمران خان نے بڑی مہارت اور حکمت سے کشمیر پر اپنی روایتی پالیسی کے برعکس ایک بہت ہی متوازن، عالمی حالات سے ہم آہنگ اور کشمیر نواز موقف اختیار کیا جس نے انہیں کشمیر میں بے پناہ مقبولیت اور پزیرائی عطا کی۔ گزشتہ دورہ امریکہ کے دوران انہوں نے کہاتھا کہ کشمیریوں کا اپنے مستقبل کے بارے میں جو بھی فیصلہ ہوگا وہ پاکستان کو قبول ہوگا۔ چندہفتے قبل وہ مظفرآباد تشریف لے گئے۔ انہوں نے یہ ہی بات دوہرائی کہ کشمیری اپنی آزادانہ مرضی سے جو بھی فیصلہ کریں ہم اسے قبول کریں گے۔ ایشیا سوسائٹی امریکہ میں ایک مباحثے میں انہوں نے تیسری بار اپنے موقف کو دہرایا کہ کشمیریوں کا ہر فیصلہ انہیں قبول ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیانات کے اس تسلسل نے کشمیریوں کے ہر مکتب فکر میں وزیراعظم عمران خان کے احترام اور پاکستان کے ساتھ محبت کے رشتے کو گہرا کیا۔ اس کے برعکس بھارت کی موجودہ حکومت نے نہ صرف عام کشمیریوں ہی نہیں بلکہ اپنے محسنوں خاص کر بھارت نواز کشمیریوں کی ایسی تذلیل کی کہ ان کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔فاروق عبداللہ کے والد شیخ عبداللہ نے قائداعظم کی کوششوں کو مسترد کیا۔ آئیڈیا آف پاکستان کے برعکس وہ بھارت کا حصہ بنے۔ شیخ عبداللہ نے کہا تھا’’ ہمیں یقین ہے کہ مسلم ریاست پاکستان کے برعکس کشمیریوں کو ہندوستان سے زیادہ پیار، محبت اور بلند مقام ملے گا‘‘۔ ان کے صاحبزادے فاروق عبداللہ جو تین مرتبہ ریاست جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ رہے کو پبلک سیفٹی ایکٹ لگا کر گھر کے ایک کمرے میں نظربند کردیا گیا۔ آج شیخ عبداللہ کی روح اپنی نادانیوں پر ضرور تڑپتی ہوگی۔
کشمیر کا فیصلہ کشمیری کریں گے ایک ایسا سلوگن ہے جو نہ صرف ہر سیاسی مکتب فکر کے کشمیری کے لیے قابل قبول ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کو پذیرائی ملتی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply