قہرِ خداوندی کا کوڑا۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

کرونائی وبا، نوعِ انسانی کے لیے بلائے جان بن چکی ہے۔ پہلی لہر ، دوسری لہر اور پھر موت بن کر قوموں کے سروں پر لہراتی ہوئی یہ تیسری لہر۔۔ ہر لہر پہلے سے کہیں زیادہ سریع الاثر اور انسان کو بے دست و پا کر دینے والی اک بلائے ناگہانی ہے۔ کرونائی وبا پر اب تک بحیثیت ایک ڈاکٹر بہت کچھ لکھا ہے، لیکن آج دل میں آیا کہ اِس کے باطنی پہلوؤں پر بھی اظہار ِ خیال کیا جائے۔

سائنس ایک معروضی چیز ہے ٗ یہاں حوالہ جات کام آتے ہیں، سائنس میں کوئی جھگڑا نہیں، لیکن باطن اور روح کا حوالہ سراسر شخصی اور کیفیاتی نوعیت کا ہوتا ہے، اس لیے یہاں اختلافِ رائے کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے۔۔۔ شاید یہی وجہ ہے کہ باطنی ابواب کے بیان کے لیے مناسب سنگت کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ سنگی وہ ہے ہمارے سنگ اسی زاویے سے دیکھنے اور محسوس کرنے پر قادر ہو۔ باطن کی دنیا میں محسوسات نہیں بلکہ اِحساسات کا حوالہ قوی ہوتا ہے، اور ظاہر ہے احساسات داخلی نوعیت کے مدرکات ہیں۔ لامحالہ یہاں سو فیصد لوگوں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ موت ، نینداور قبر ہمیشہ اپنی اپنی ہوتی ہے۔۔ سانجھے کا سودا صرف عالمِ ظاہر تک ہے۔

عالمِ ظاہر، اسباب اور نتائج کی دنیا ہے۔ اسباب و نتائج کا تسلسل بعض اوقات ہمیں اِس کی ہمیشگی اور پھر اِس کی فوقیت کا قائل کر دیتا ہے۔ ہم سمجھنے لگتے ہیں، جیسے سبب اور نتیجے کی کڑیاں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر واقعہ کسی سبب کا نتیجہ ہے یا پھر کسی ممکنہ نتیجے کے لیے سبب ہے۔ روزمرہ زندگی میں ہمارا یہ گمان یقین کی حد تک مستحکم ہو جاتا ہے۔۔ ایسے میں کسی دُعا کا عمل دخل ہمیں ایک دخل دَر معقولات لگتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے ، کسی اخلاقی یا روحانی وجہ کا تعین اِس کائنات کے نظامِ اسباب و علل میں کوئی خلل نہیں ڈال سکتی۔ ہم سمجھنے لگتے ہیں،کسی اچھی یا بُری اخلاقیات کا حوالہ پیش کرنا گویا اِس کائنات کی طے شدہ سائنسی تعبیر سے متصادم ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے، زندگی نیوٹن ہی نہیں، ملٹن بھی ہے، سائنس کی دنیا میں اگر جمالیات کی کوئی گنجائش موجود ہے تو پھر اخلاقیات کی گنجائش بھی ہمیں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا ہوگی۔

کیا یہ ممکن ہے، ایک شخص نیکی اور مسلسل نیکی کے سفر پر گامزن ہو ، اور اِس کے نتیجے میں اُس کی ظاہری زندگی میں بھی کچھ مثبت تبدیلیاں پیدا ہو جائیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص یا قوم برائی کو برائی نہ سمجھے، بلکہ برائی کرنے کو اپنا پیدائشی حق تصور کرے اور اِس کے نتیجے میں اُس کی ظاہری زندگی کی خوش حالی میں کوئی خلل نمودار نہ ہو؟ اِن نکات کی تفصیل ایک کالم کے دامن میں نہیں سمائے گی، اس لیے یہاں صرف اِس سوال پر غور کرنے دعوت دے کر ہم اپنے عنوان کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

وائرلوجسٹ ( ماہرین وائرس) کہتے ہیں کہ اِس وقت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تمام کرونا وائرس کو اگر ایک جگہ اکٹھا کر لیا جائے اوراِن سب کا وزن کیا جائے تو یہ ٹوٹل وزن چند ملی گرام سے زیادہ نہ ہوگا۔ فی زمانہ انسانی عقل کے لئے یہ حقیقت ایک تشنج کے جھٹکے کی مانند ہوگی کہ اِس کرۂ اَرض پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی دھاک بٹھانے والا انسانٗ جو مخلوقات کی دنیا میں اہم ترین ہے ٗ ایک نظر نہ آنے والی بظاہر غیر اہم مخلوق کے سامنے بے دست و پا ہوگیا ہے۔ یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ اِس سیارے پر انسانی زندگی ختم کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کی شاید ضرورت نہیں رہی، ایک معمولی سا کیڑا بھی انسان کے دماغ کا کیڑا نکالنے کے لیے کافی ہے۔ سائینس اور ٹیکنالوجی کے زعم میں بنی نوعِ انسان کے مستقبل کو کسی آسمانی ہدایت اور مذہب کی ضرورت سے بے نیاز سمجھنے والے اپنے علاقوں میں مسجدیں کھلوا رہے ہیں، آذانوں پر پابندی لگوانے والے آذان دینے کی درخواست کر رہے ہیں۔

اس بحث کو موقوف کرتے ہوئے کہ یہ کرونائی وبا نوعِ انسانی کو درپیش ایک بائی لوجیکل حادثہ ہے، یا بحیثیت ِ مجموعی انسان کی کسی اخلاقی گراوٹ کاایک قدری اور فطری ردِ عمل۔۔ قابلِ توجہ اَمر یہ ہے کہ اِس وبا نے انسان کو انسان سے دُور کر دیا ہے۔ لگتا ہے ٗانسان سے بحیثیت ِ مجموعی کوئی ایسا مہا پاپ ضرور سر زد ہوا ہے، جس کی پاداش میں وہ منہ چھپانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ یہ ایسی وبا ہے کہ ِانسان اگر گرفتارِ بلا ہو تو وہ اپنے کسی ہمدم کی عیادت سے یکسر محروم کر دیاجاتا ہے۔ اگر وہ اِس بیماری میں چل بسے تو اِس کی آخری رسومات میں دعا کے لیے چل کر آنے والوں کو فی زما نہ میڈیکل بنیادوں پر رخصت مل چکی ہے۔ وہ زندگی میں خود غرضی کی قبروں میں الگ الگ رہا کرتا تھا، اب قبرستان تک ساتھ دینے والے سنگی ساتھی اس سے جیتے جی علیحدہ کر دیے گئے ہیں۔ سنگتیں ویران ہو گئیں، مجلسیں سنسان، چوپال کے لج پال بھی رخصت ہو گئے۔ عبادت گاہوں کی طرف جانے والے راستے اگر مسدود نہیں تو محدود ضرور کر دیے گئے ہیں۔سائینس کی ترقی کے ہاتھوں تنہا ہوتے ہوئے انسان کی عافیت اِسی میں قرار پائی کہ وہ مزید تنہا ہو جائے۔ انٹرنیٹ نے سوشل میڈیا کیا تخلیق کر لیا، اس گھمنڈی پاکھنڈی نے اپنے آس پاس سانس لیتے ہوئے انسانوں کے ساتھ سوشیلائز ہونے سے انکار کر دیا تھا۔۔ اب یہ انکار بصورتِ اقرار بھگت رہا ہے۔

اگر اخلاقیات ہماری مادّیات پر کچھ نینو میٹر یا نینو گرام کی حد تک اثر انداز ہو سکتی ہے تو پھر جان لینا چاہیے کہ یہ نینو میٹر اور نینو گرام پر مشتمل وائرس ہماری کسی بدبودار اخلاقیات کا نتیجہ ہے۔ کرونا قہرِ خداوندی کا ایک لہراتا ہوا کوڑا ہے، جو اقوام ِ عالم کی پیٹھوں پرمسلسل برس رہا ہے۔ عالمِ خلق کے پیچھے عالمِ اَمر کام کر رہا ہے۔ جزا سزا کا فیصلہ عالمِ اَمر ہی سے صادر ہو تا ہے، اِس پر عمل درآمد عالمِ خلق میں ہوتا ہے۔۔ اور اِس کا ذریعہ کوئی ظاہری سبب ، کوئی وائرس، کوئی زلزلہ ، کوئی بم ، کوئی دہشت زدہ دہشت گرد۔۔ غرض ہر سیلاب ِ بلا کی کوئی ظاہری وجہ ضرور ہو گی لیکن بباطن اِس کی علتِ اولیٰ روحانیت اور اخلاقیات کے کسی قانون میں پائی جائے گی۔ یقین کرنے والوں کے لیے ظاہر ایک پردہ ہے ، اور باطن پس ِ پردہ،اہلِ ظاہر کے لیے یہ پردہ۔۔بس پردہ ہے۔۔ظاہری آنکھ کیلئے یہ سب کچھ سبب اور نتیجے کی گرد میں دھندلایا ہوا منظر ہے!

ایک بار میں نے مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ سے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کسی نفسیاتی ضرب کا نتیجہ جب جسم پر کسی بیماری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو علاج کے لیے ہمیں اَدویات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ آپؒ نے فرمایا کہ دیوار شکستہ ہونے کی وجہ کوئی بھی ہو، وجہ بارش ہو، آندھی ہو یا پھر کوئی زلزلہ، آخر ِ کار اِس کی مرمت کے لیے اسی ریت بجری سیمنٹ سے کرنا ہوتی ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ کسی سانحے کی اصل وجہ اخلاقی ہو روحانی، جب وہ سانحہ رونما ہو جاتا ہے تو اِس سے نمٹنے کے لیے دوا ،دارو ، ویکیسن ، احتیاط ٗیعنی دورِ حاضر میں دستیاب اسباب کی ضرورت ہی پیش آئے گی۔ طبی ماہرین اپنا کام کریں— اور دل جمعی سے کام کریں ، اللہ ان کے کام میں برکت دے ، اخلاقی ماہرین اِس کی غیر مادّی وجوہات پر روشنی ڈالیں تاکہ بصارت کے ساتھ ساتھ نوعِ انسانی کی بصیرت کے عدسے بھی شفاف ہوجائیں ، ترقی یافتہ ہو جائیں۔ کارِ مسیحائی صرف جسم تک محدود نہیں— تاثیر مسیحائی کیٗ روح تک اترنی چاہیے۔ دوا کے ساتھ دعا اور دعا کے ساتھ دوا اِسی طرح لازم ہو ملزوم ہیں جس طرح جسم کے ساتھ روح اور روح کے ساتھ جسم !

Advertisements
julia rana solicitors london

اس دنیا میں اخلاقی قوانین بھی مادّی قوانینِ فطرت کی طرح اٹل ہیں۔ قرآن کریم میں ہے تم اللہ کی سنّت میں تبدیلی نہیں پاؤ گے۔ قوانین ِ فطرت سنّتِ الٰہیہ ہیں۔ قوانینِ اخلاقیات بھی سنّتِ الٰہیہ ہیں۔ قوانینِ فطرت اس کی صفات کا مطالعہ ہے اور قوانینِ اخلاقیات اُس کی ذات کی منشاء کی اطلاع دیتے ہیں۔ قوانینِ فطرت سائنسدان بتاتے ہین اور قوانینِ اخلاقیات کی خبر انبیاء و رسل دیتے ہیں، کیونکہ یہ ذات سے ذات کو دی جانے والی خبر ہے۔ یہ خبر پانے کے لیے ذاتی رابطہ اور تعلق ضروری ہے۔۔۔ اور اِس رابطے اور تعلق ہی کا نام ایمان ہے۔ قوانین ِ فطرت جاننے کے لیے فاطر تک رسائی ضروری نہیں ، لیکن اخلاقی قوانین تک رسائی کے لیے فاطر کی ذات سے تعلق بذریہ وحی و رسالتؐ ضروری ہے۔ اخلاقی قوانین بھی اسی فاطرِ فطرت ٗ اسی مالک الملک کے مقرر کردہ ہیں۔ ان قوانین کا اظہار خواہ فوری طور پر اِسی دنیا میں ہو یا پھر اِس دنیا کے بعد والی زندگی میںٗ اِس کا فیصلہ اُسی مالک کے ہاتھ میں ہے ٗجو فیصلے کے دن کا مالک ہے۔ قوم ِ لوط پر پتھروں کا عذاب اُترا، دین ِ فطرت میں زنا کاری پر سنگساری کی سزا تجویز کی گئی ہے، سنگساری اور پتھروں کے عذاب میں مماثلت ہے۔ کرونا وائرس کی شکل بھی ایک نوکیلے کنکر کی طرح ہے۔ باہر پتھر برسنے پر اندر سانس رکتا ہے، خون بہنے پر بھی سانس رکتا ہے، خون جمنے DIC پر بھی سانس رکتا ہے۔۔ asphyxia ، ہوتا ہے۔ کرونا کی تعذیر بھی سانس بھینچ دیتی ہے۔ دورِ حاضر میں مجموعی طور بنی نوعِ انسانی کی جنسی بے راہ روی پر فطرت کی طرف ایک خود نظام کی طرح کرونا کا کوڑا کھل گیا ہے اور برسنے لگا ہے۔ اللہ کریم اپنے رسولِ کریم ﷺ کے وسیلے سے ہماری تمام بداعمالیوں بشمول بدنگاہیوں سے صرفِ نظر کرے۔ دین و دنیا میں رسولِ رحمتﷺ کی شفاعت سے ہمیں بہرہ مند کرے۔ یقیناً شفا اور شفاعت کے لیے ہم اُمّتی اُس دَر کے محتاج ہیں، جس دَر سے خالی نہیں جاتا کوئی!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply