خاب وستیاں۔۔۔۔حمید رازی/تبصرہ۔آدم شیر

حمید رازی کی کتاب خاب وستیاں ہالینڈ، رومانیا، اٹلی، بلجیم اور فرانس کے تاریخی شہروں کا پنجابی میں لکھا گیا سفرنامہ ہے۔
یہ سفرنامہ دراصل ایک سرکاری معلوماتی دورے کا نتیجہ ہے جو حمید رازی اور ان کے دوستوں کو مذکورہ ممالک کے سرکاری دفاتر میں جانے اور نظام کا جائزہ لینے کے لیے کرایا گیا تھا لیکن جب ایک تخلیق کار کسی پیشہ وارانہ کام سے بھی کہیں جاتا ہے تو اس کے اندر کا سوجھوان اسے پیشہ وارانہ امور پر آگاہی کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ دے جاتا ہے جس کا ثبوت یہ کتاب ہے جس میں حمید رازی نے ہالینڈ کے شہر دی ہیگ جو بقول مصنف ان کا بیس کیمپ تھا، میں پھولوں کی بہار، زندگی میں سکون کا احساس، افراتفری سے گریز کی عکاسی کی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہالینڈ کی پانی کے معاملات میں مہارت پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ جب پاکستان سیلاب سے نبرد آزما تھا تو ڈچ ماہرین بھی بلائے گئے تھے اور ان سے آرا بھی لی گئی تھیں مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ بقول سفرنامہ نگار سرکاری افسر ماہرین سے رپورٹ بنوا لیتے ہیں اور پھر چھپا دیتے ہیں کہ کہیں ہوا نہ لگ جائے اور جب سرکاری افسر خود آگے پیچھے ہو جاتے ہیں تو وہ رپورٹیں بھی غائب ہو جاتی ہیں، یوں قومی خزانے کا نقصان ایک طرف، مہارت سے استفادہ نہ کرنا دوسری طرف اور تیسری طرف بھوک، ننگ، سیلاب، بجلی کی بندش، کاروبار کی تباہی وغیرہ سامنے ہوتی ہے۔ سفرنامہ نگار نے پاکستانیوں کے لیے ڈریکولا کے سبب مشہور رومانیہ پر بہت بھرپور لکھا ہے۔ رومانیہ کے لوگوں کے متعلق بھی معلوماتی اشارے دیے ہیں اور رومانیہ کے کمیونسٹ دور اور یورپی یونین میں شمولیت اور ان ادوار میں معاملات زندگی کی مختصراً نشاندہی بھی کی ہے۔

سفرنامہ نگار نے وینس اور اس کے دو جزائر بھی دکھائے ہیں اور اسی اثنا میں شیشہ گروں کے دگر گوں حالات کی طرف توجہ بھی دلائی ہے اور پرانے وینس میں انسانی حقوق کی طرف بھی اک نگاہ کی ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتانا نہیں بھولے کہ یہ تیرتا شہر اپنے لوگوں کے لیے آہستہ آہستہ بیگانہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ یہ خوابناک شہر امیروں کی دسترس میں آ کر اس قدر مہنگا ہوتا جا رہا ہے کہ مقامی آدمی کے بس کی بات نہیں رہی۔ سفرنامہ نگار نے برسلز میں بھی قیام کیا مگر یہ قیام مختصر تھا اگرچہ وہ برسلز کی بھول بھلیوں میں راستہ خوب تلاش کرتے رہے البتہ خوشبوؤں کے شہر پیرس میں وہ اس وقت پہنچے جب کچھ دن پہلے ہی پیرس میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آیا تھا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر کے مرکزی علاقے میں یوں چوکنا کھڑے تھے جوں ابھی حملہ کر دیں گے۔ اس شہر کے ایفل ٹاور کے متعلق موپساں سے منسوب دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے اور پیرس میں جیب کتروں کی بھرمار کے متعلق آگاہ کرنا بھی سفرنامہ نگار نہیں بھولے اور مونا لیزا کی تصویر دیکھنے اور تصویر کو دیکھتے دیکھتے الٹے پاؤں لوٹنے کی منظرنگاری کرتے وقت سفرنامہ نگار منجھے ہوئے کہانی کار بن گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ بیان کچھ یوں ہے کہ جوں پیر صاحب کو پشت کرکے نہیں چلا جاتا یوں سفرنامہ نگار بھی مونا لیزا کو کنڈ نہ کر سکے۔ اس عجائب گھر کے متعلق بھرپور معلومات فراہم کی گئی ہیں، تاریخی حوالے بھی دیے گئے ہیں اور یہ کام سفرنامہ نگار ہر اس مقام کے متعلق کیا ہے جس کے متعلق بتایا ہے مثلاً وہ رومانیہ کے چاؤشسکو کی جاہ پسندی اور اسے سزائے موت دی جانا بھی قلمبند کرتے ہیں اور وہ ہالینڈ کی پانی کے خلاف پانچ سو سالہ جنگ اور پھر پانی سے دوستی، سنایا کی تاریخ اور ڈریکولا کی تاریخ، وینس کا ماضی اور برسلز کا حال اور پیرس کی شان و شوکت جہاں بیان کرتے ہیں وہیں افراتفری بھی سامنے لاتے ہیں، جہاں وہ ان ممالک کو بے سرحدی دنیا قرار دیتے ہیں وہیں ان ممالک میں سکون دہ زندگی اور نفسا نفسی کی زندگی میں فرق بھی سامنے لاتے ہیں۔ اس سفرنامہ میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ حمید رازی ناشتہ ہیگ، ظہرانہ برسلز اور عشائیہ وینس میں کرتے ہیں۔
غرض سفرنامہ نگار نے مبالغہ آرائی سے کام لینے، کسی حسینہ کو دھکے سے لانے، اس سے پیار کا ناٹک رچانے اور پھر جدائی کا ڈرامہ کرنے کے بجائے وہ مناظر بڑی سادہ پنجابی میں روانی سے بیان کر دیے ہیں جو سفرنامہ نے دیکھے اور یہ التزام بھی کیا کہ ان مناظر کا سیاق بھی سامنے آ سکے اور شگفتگی کا دامن بھی نہ چھوٹ پائے۔
یہ سفرنامہ پنجابی مرکز لاہور نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت دو سو روپے مبلغ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply