معلق روحیں۔۔۔منور حیات سرگانہ

میں صبح سے ہی اپنی پرانی ڈاٹسن لے کر شہر کی سڑکوں پر نکلا ہوا تھا۔کوئی سواری نہیں مل رہی تھی ۔کچھ تو میری گاڑی کی خستہ حالت دیکھ کر کوئی مجھے اشارے سے روکنے کی کوشش ہی نہیں کرتا تھا،اور کچھ آج شاید قسمت ہی خراب ہو گئی تھی۔

ایسا ہمیشہ سے نہیں تھا۔مجھے ٹیکسی چلانے کے سوا کوئی کام نہیں آتا تھا ،اور اسی کام سے نہ صرف میں اپنا گھر بخوبی چلاتا رہا ،بلکہ کچھ پیسے اکٹھے کر کے پہلے والی قدرے پرانی گاڑی بیچ کر بینک سے بالکل نئی گاڑی قسطوں پر خرید لی تھی۔اس وقت سواریوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی تھی۔دن کو دفاتر ،کالجز اور یونیورسٹیز اور رات کو شاپنگ مالز اور ریستورانوں کے آگے سے سواریاں ملتی ہی رہتی تھیں۔اس کے بعد ایک تو حکومت نے شہر میں میٹرو بس سروس شروع کر دی ،اور دوسرا رہی سہی کسر کریم اور اوبر جیسی آن لائن کمپنیوں نے پوری کر دی۔مجھ جیسے کم پڑھے لکھے لوگ اس نئی صورتحال کے ساتھ نہ چل سکے۔کچھ نئی آنے والی حکومت سے ملک کی معیشیت نہ سنبھل سکی،اور لوگوں نے شاپنگ مالز اور ریستورانوں کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا۔کچھ ہی عرصے کے بعد مجھ میں گاڑی کی بقیہ قسطیں ادا کرنے کی سکت بھی نہ رہی ،اور ایک دن بینک والے آ کر گاڑی پکڑ کر لے گئے۔اس کے بعد کچھ ادھر اُدھر سے اور کچھ دوستوں سے ادھار پیسے پکڑ کر یہ والی پرانی ڈاٹسن لے لی۔

Advertisements
julia rana solicitors
مصنف:منور حیات سرگانہ

خیر سارا دن یونہی بے کار ی میں گزر گیا۔شام رات میں ڈھل چکی تھی۔ میں نےمایوس ہو کر گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کر دی،اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔پتا نہیں کب میں نیند کی دلفریب وادیوں میں اتر گیا۔جب میری آنکھ کھلی تو ایک بالکل انوکھا سا منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا۔ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی،موسم میں خنکی بڑھ چکی تھی ۔میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور لائٹس آن کر کے سڑک پر ڈال دی۔لیکن میں زیادہ دور تک نہیں جا پایا،کچھ عام روٹین سے ہٹ کر لگ رہا تھا،سڑک کے کنارے پر درختوں کے رنگ؟ گیلی سڑک ؟ نہیں تو ,اوپر آسمان پر میرے بالکل سامنے کچھ عجیب و غریب ہیولے سے معلق تھے۔میں نے سر کو اچھی طرح سے جھٹکا ،کہ شاید ابھی تک نیند کا اثر ہو،میرا واہمہ ہو،مگر نہیں،یہ کافی واضح ہو رہے تھے۔میں نے گاڑی سڑک کے بیچ ہی روک دی،اور دروازہ کھول کر باہر نکل آیا،اب میں نے سامنے سر اٹھا کر غور سے دیکھا ،تو یہ میرا واہمہ نہیں تھا۔وہ بے شمار تھے ،اور ہوا میں معلق تھے۔میں نے زور سے چلا کر کہا کوئی میرے پاس آ سکتا ہے ؟ میری آواز اس ویرانے میں گونجتی رہی ،لیکن ان میں کوئی حرکت دکھائی نہ دی،بالآخر میرے کئی بار پکارنے پر میرے سب سے قریب والا ہیولا آہستہ آہستہ فضا میں تیرتا ہوا میرے قریب آ کر اتر گیا، میں حیران ہو گیا ،وہ بالکل میری طرح کا جیتا جاگتا انسان تھا ۔وہ سہمی ہوئی آواز میں بولا ‘جی جناب’
میں نے عالم حیرانی میں اس سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے اتنے سارے ہمارے ہی جیسے لوگ یوں فضا میں کیوں معلق ہیں۔
اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور گلو گیر لہجے میں بولا۔ہم سب پاکستان کی مڈل کلاس سے ہیں۔سال بھر پہلے تک ہم بھی عام لوگوں کی طرح اپنے اپنے گھروں میں زمین پر ہی رہتے تھے،لیکن اس کے بعد تبدیلی کا سونامی آ گیا،ہر چیز پر اندھا دھند ٹیکس لگائے جانے لگے،کاروباربند ہوتے گئے، روٹی ،کپڑا ،مکان سب کچھ ہماری پہنچ سے دور ہو گیا،ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں مہنگائی کا وہ سیلاب آیا کہ ،جس میں بہہ کر ہم جیتے جی مر گئے،ہمارا زمین پر رہنا مشکل ہو گیا،اور ہم نے زمین چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا، ہم روحوں کی طرح بلندی پر تیرتے ہوئے،کسی اور دنیا میں جانے کا سوچ رہے تھے،کہ کچھ فرشتے ،اپنی دستاویزات کے ساتھ ہمارے آڑے آ گئے،اور ہمیں اور اوپر جانے سے روک دیا،ہم نے احتجاج کیا،تو ایک فرشتے نے ہمارے نام پوچھنے شروع کیے،وہ ایک ایک شخص کا نام پوچھتا اور اس کو اطلاع دے دیتا کہ ،کیونکہ ابھی تم باقاعدہ طور پر فوت نہیں ہوئے،تو اس لئے بلا ٹکٹ تم عالم بالا کی طرف سفر نہیں کر سکتے۔ہم نے انہیں دہائی دی کہ نیچے ہماری کوئی جگہ نہیں،لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا،کہ ہماری دستاویز کے مطابق ابھی اوپر بھی تمہاری کوئی جگہ نہیں،چنانچہ ابھی یہی پر لٹکے رہو۔
لِیکن تم لوگوں نے دوبارہ زمین پر جانے کی کوشش نہیں کی؟میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
کئی بار کوشش کی ہے،اس نے اداس ہو کر بتایا،لیکن نیچے ایف بی آر والے آکر کھڑے ہو جاتے ہیں،وہ بولتے ہیں تم میں سے جو فائلر ہے وہ بے شک نیچے اتر آئے ،جو نان فائلر ہیں وہ اوپر ہی رہیں۔

Facebook Comments

منور حیات
ملتان میں رہائش ہے،مختلف سماجی اور دیگر موضوعات پر بلاگ لکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply