علی محمد خان کی خدمت میں۔۔۔۔آصف محمود

عزت مآب سعودی سفیر کو لکھا گیا جناب علی محمد خان کا مکتوب گرامی میرے سامنے رکھا تھا اور میں ہجومِ گریہ کی اس مالا کو پھٹی آنکھوں سے تکتا رہا۔دیوارِ غم کدہ کے اُس پار سے پھر خیال امرہوی نے آواز دی : ’’ پھر رہے تھے حکمراں کشکول لے کر در بدر بندگی کی ظاہری صورت گدا سے کم نہ تھی‘‘ سوشل میڈیا پر دروغ گوئی کے جو موسم برس رہے ہیں ، قطرے میں دجلہ دکھائی دیتا ہے ۔ غالب نے کہا تھا : گرم بازارِ فوجداری ہے۔گماں ہوا یہ سب جھوٹ ہے۔علی محمد خان سے احترام کا ایک رشتہ ہے ۔ سوچا انہی سے معلوم کر لینا چاہیے ۔ ان کے دونوں نمبر بند جا رہے تھے۔ پارلیمانی امور کی وزارت میں فون کیا تو معلوم ہوا دست سوال کے قصیدے تو صاحب خود ٹوئٹر پر کہہ چکے ، اب سوال کی راکھ کرید کر اپنی حیرت کو تماشا کیا بنانا۔ محترم بی اے ملک سے رابطہ کیا، وہ سابق سفیر ہیں اور تحریک انصاف سے وابستہ ، پوچھا کیا سفارتی ضابطوں کے مطابق ایک وزیر کسی ملک کے سفیر محترم کے سامنے یوں براہ راست دست سوال دراز کر سکتا ہے؟ انہوں نے اس امکان پر بات کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ وہ بضد تھے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہو گا۔ان کا اصرار تھا علی محمد خان ایک وزیر ہے طفل مکتب نہیں ، وہ خود کو اور ریا ست کو سر بازار تماشا کیسے بنا سکتا ہے۔ پھر ایک دوست نے ویڈیو بھیجی ، اس کے بعد گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اس ویڈیو میں علی محمد خان عالم شوق میں یہ مژدہ سنا رہے تھے کہ اپنے حلقے کے عوام کے لیے انہوں نے سعودی سفیر سے درخواست کی ہے ، بس یہ درخواست قبول ہونے کی دیر ہے ایک عظیم انقلاب برپا ہو جائے گا۔تین سو مساجد تعمیر ہو جائیں گی، تین ہزار وہیل چیئرز آ جائیں گی، تین ہزار سولر پینل آ جائیں گے، ایک سو ورک ویزا مل جائیں گے، تیس ایمبولینسز عطا ہوں گی ، تین ہزار ہینڈ پمپ لگ جائیں گے ، تین سو بیڈ کا ایک ہسپتال بن جائے گا، ان کے حلقے کے بچوں کو وظائف ملیں گے اور صبح انقلاب کی کرنوں سے مردان کا چپہ چپہ منور ہو جائے گا۔ برادر مکرم علی محمد خان نے تو اپنی کامرانیوں کا مطلع کہہ ڈالا، اب وہ مجھے اجازت دیں میں ان کی خدمت میں اپنے اضطراب کا مقطع پیش کر سکوں۔تنقید مقصود نہیں ، میں چند اپنے بھائی سے چند سوالات پر رہنمائی کا طالب ہوں۔ 1۔ڈپلومیٹک کمیونیکیشن میں ہر چیز طے شدہ ہوتی ہے اور اس کے اپنے آداب ہوتے ہیں۔ ڈیمارش ہے ، لیٹر آف کریڈنس ہے ، لیٹر آف ری کال ہے ، میمورنڈم ہے ، نان پیپر ہے ، نوٹ وربائل ہے ، پرو میموریا ہے ، ڈپلومیٹک کارسپانڈنس ہے ، فرسٹ پرسن نوٹ ہے ، اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں سوال اب یہ ہے کہ رابطے کا جو انداز علی محمد خان نے اپنایا ہے سفارت کاری کی دنیا میں کیا ایسی کوئی اور مثال انسانی تاریخ میں موجود ہے؟ اس طرح کے رابطے کو کیا نام دیا جائے گا اور اس درخواست کو سفارتی زبان میں کیا کہا جاتا ہے؟ 2۔ مالی معاملات میں کسی دوست ملک کی مدد لینے کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا علی محمد خان نے اس طریق کار پر عمل کیا؟ کیا انہوں نے وزارت خزانہ سے اجازت لی؟ کیا وزارت خارجہ سے پوچھا؟ ایک سفیر کی خدمت میں دست سوال دراز کرنے سے پہلے کیا انہوں نے دفتر خارجہ سے بات کی؟کیا یہ سارے پروٹوکول پامال کرنے کے بعدوہ اس منصب کے اہل ہیں جس پر فائز ہیں؟ 3۔ ایک حلقے کی ضروریات وزیر اعظم کے سامنے رکھی جاتی ہیں یا کسی برادر اسلامی ملک کے سفیر کے سامنے؟ علی محمد خان کو اپنی ضروریات اپنی ریاست کے سامنے رکھنی چاہییں تھیں یا کسی دوسرے ملک کے سفیر کے آگے کاسہ پھیلانا چاہیے تھا؟وہ بنیادی طور کس کے نمائندے ہیں؟ کیا پاکستانی حکومت اب اس قابل بھی نہیں کہ چند ایمبولینسز اور ہینڈ پمپس لگوا سکے؟ اس معمولی سے کام کے لیے کیا اب ہمیں برادر اسلامی ملک کے آگے ہاتھ پھیلانا ہوں گے؟ 4۔ کیا ہر حلقے کے ایم این اے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حلقے کی ضروریات کے لیے جس ملک کے سفیر کو مناسب سمجھے اس سے وقت لے اور کاسہ گدائی اس کے قدموں میں رکھ کر آواز لگائے : دے جا سخیا راہِ خدا تیرا اللہ ای بوٹا لائے گا؟ سوات کے مراد سعید سوئٹزر لینڈ کے سفیر کی خدمت میں حاضر ہوجائیں ، راولپنڈی کے فیاض چوہان مالدیپ کے سفیر کے حضور حاضر ہو جائیں ، لاہور کے علیم خان فرانس کے سفیر محترم کی خدمت میں کاسہ گدائی لے کر حاضری دیں، فیصل واڈا جرمنی کے سفارت خانے کی دیوار پر کشکول ٹانک آئیں، اسد عمر دیوار چین کو کشکولوں سے مزین کر دیں ؟ اسی طرح ایم پی ایز اور پھر ناظمین اپنی اپنی حیثیت کے مطابق گوئٹے مالا سے لے سری لنکا تک تمام سفارت خانوں کے باہر آوازیں لگانا شروع کر دیں کہ جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا؟ 5۔ علی محمد خان پارلیمانی امور کے وزیر ہیں۔ کسی ملک سے امداد لینے کی درخواست کیا پارلیمانی امور کی وزارت کے دائرہ کار میں آنے والا کام ہے؟ 6۔ کیا علی محمد خان کو علم ہے جس کام کے لیے وہ معزز سفیر کے حضور کشکول رکھ آئے ہیں وہ کام اٹھارہویں ترمیم کے بعد ان کی بجائے صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے؟ کیا وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اس سال کے پی کے حکومت اپنا ترقیاتی بجٹ خرچ ہی نہیں کر سکی اور 36 فیصد بجٹ ایسے ہی پڑا رہ گیا؟ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ترقیاتی بجٹ ایسے ہی پڑا رہ گیا ، اسے آپ کہیں خرچ ہی نہیں کر سکے اور چلے ہیں سعودی سفیر سے مدد مانگنے؟ کیا مصحفی کے زمانے میں بھی کوئی تبدیلی آئی تھی جو وہ چیخ اٹھا: قسمت میں آہ کس سے کہوں ذلتیں او ر خواریاں کیا تھیںــ‘‘

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply