اسلام فوبیا اور امریکہ فوبیا۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

جیسے جیسے ہم ایک سے بڑھ کے ایک سماجی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں، دنیا میں اسلام فوبیا بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ جواب میں مسلم دنیا کے اندر امریکہ مخالف مہم میں بھی شدت آئی ہے۔ اسلام یا مسلمانوں سے نفرت کرنے والے لوگ اور امریکہ سے نفرت کرنے والے لوگ ایک دوسرے سے اجنبی ہیں، نہ ایک دوسرے سے شناسا ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے سے کوئی واسطہ ہے۔ اجنبیوں سے نفرت کی یہ روایت دراصل لبرل ازم کی ناکامی ہے۔ اور مزید گہرائی میں جائیں تو یہ لبرل ازم ہی کی پھیلائی ہوئی نفرت ہے۔ اسلام فوبیا دراصل تمام مسلمانوں سے بلاسبب و بلاوجہ ڈرنا اور نفرت کرنا ہے۔ اِسی طرح امریکی ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے امریکی عوام کیخلاف بڑھتی ہوئی نفرت بھی بےبنیاد ہے۔
لبرل ازم “اسلام فوبیا” کی وجہ سے دوہرے منافع میں ہے۔ ایک فائدہ تو یہ ہے کہ عراق، افغانستان، پاکستان، یمن اور شام میں جاری سامراجی جنگوں کا عالمی سطح پہ ایک صاف اور آسان جواز مل رہا ہے۔ دوسرا یہ کہ محنت کشوں اور غریبوں کو مذہبیت کی بنیاد پہ تقسیم کر کے اُن کو یکجا ہو کر طاقت بننے سے روکا جا رہا ہے۔ اِس کی تازہ مثال پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ بےبنیاد کشیدگی کے دوران پاکستانی اور بھارتی عوام کے مابین پائی جانے والی نفرت میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کیسے میڈیا کے زور سے ریاستی سرپرستی میں انسانی آبادیوں سے نفرت سکھائی جاتی ہے۔ وگرنہ بھارت اور پاکستان کی عوام کی آپس میں لڑائی یا نفرت کی کوئی وجہ بنتی ہی نہیں ہے۔
امریکہ میں دائیں بازو کا رجحان اور سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی کرپٹ حکمران اشرافیہ سامراج کی گھناؤنی سامراجیت کو جواز فراہم کرنے کےلیے تیسری دنیا کے ممالک اور خاص طور پر اسلامی ممالک میں پائی جانے والی امریکی مخالفت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ بالکل اِسی طرح مسلم دنیا کے شدت پسند عناصر اپنی رجعتی پالیسیوں کے جواز کے طور پر امریکہ اور مغرب میں پائی جانے والی اسلام دشمنی کو پیش کرتے ہیں۔ تاہم جدلیاتی مادیت کے علمبردار مارکس وادیوں کو اِن مظاہر کے پیچھے طبقاتی اختلاف کو اجاگر کرنا چاہیے، کیونکہ اِس بےبنیاد تقسیم کے نتائج دنیا کی ورکنگ کلاس کو بھگتنے پڑتے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ نسلی، قومی، جنسی اور مذہبی خطوط پر استحصال اور تقسیم حکمران طبقے کا آزمودہ ترین، قدیم ترین اور کامیاب ترین طریقہ کار ہے۔ یہ تعصبات محنت کش اور غریب طبقے کی بنیاد نہیں ہیں، بلکہ یہ تعصبات سرمایہ دار طبقہ اپنے منظم طریقے کو استعمال کرتے ہوئے اوپر سے نیچے کی پرتوں تک پہنچاتا ہے اور یوں یہ تعصبات منظم نظریات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اِس کے ثبوت موجود ہیں سی آئی اے اور NYPD انٹیلی جنس یونٹ کیسے اور کیونکر یہ “فرائض” سرانجام دیتے رہے ہیں۔ Weird۔com نے ایف بی آئی کا ایک تربیتی ڈاکیومنٹ “Leak” کیا تھا جس میں ایجنٹوں کو سکھایا گیا کہ کیسے ہر مسلمان پہ شک کرنا ہے، خاص طور پر کوئی بھی متقی مسلمان کیسے خطرناک ہو سکتا ہے۔
ہم مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ مذاہب کوئی جامد نظریہ نہیں ہے کیونکہ سماجی تعلقات کی مادی بنیادیں ہی کسی بھی سماج کی اقدار جس میں مذہب بھی شامل ہے کا تعین کرتی ہیں۔ لہذا مذہب دنیا میں موجود تنازعات کی “بنیادی وجہ” (ROOT CAUSE) نہیں ہے۔ بلکہ اِن تنازعات کی بنیاد طبقاتی اختلافات ہیں۔ تنازعات کو جان بوجھ کر مذہبی بنیاد مہیا کی جاتی ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ 2008ء کے بعد سے امریکی سیاست کے مرکزی دھارے میں مسلمانوں کے خلاف گفتگو میں ایک واضح اضافہ ہوا ہے۔ حتی کہ اوباما کو اپنی صدارتی مہم کے دوران “مسلمان” ہونے کے “الزام” کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اوباما میں ایسی اخلاقی جرات نہیں تھی کہ وہ اپنی مہم کے دوران “مذہب” کو ذاتی معاملہ ہی کہہ دیتا، بلکہ اوباما نے اپنے عیسائی ہونے کی گواہی دی۔ یوں مسلمانوں کو امریکی سماج میں بیگانہ کر دیا گیا۔
اُس کے بعد سے امریکی میڈیا میں اسلام فوبیا کی باقاعدہ سے مہم جاری ہو گئی۔ گلین بلیک کانگریس کے مسلمان اراکین سے باضابطہ ٹی وی پہ بیٹھ کر بحث کے دوران ثبوت مانگتا تھا کہ وہ مسلمان دہشت گردوں سے روابط میں نہیں ہیں، حالانکہ کانگریس کے تمام مسلمان اراکین نے جنگ کی حمایت میں ووٹ دیا۔ سابقہ صدارتی امیدوار ہرمن کین اور موجودہ صدارتی امیدوار ڈونلڈٹرمپ کی علی الاعلان اسلام دشمنی بھی تو ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر وہ کامیاب ہوگئے تو ADMINISTRATION میں کسی بھی مسلمان کو کوئی ذمہ داری نہیں دی جائے گی۔ ہرمن کین نے تو مساجد کی تعمیر تک پہ بھی پابندی عائد کرنے کی بات کی تھی۔ جبکہ ٹرمپ کی رائے میں اسلام کوئی مذہب نہیں ہے، بلکہ یہ محض ایک نظریہ ہے۔ یہ لبرل ایسے عوام کو مذہب اور مذہبی عقائد کی بنیاد پہ تقسیم کرتے ہیں۔
ایسی ہی طرز پہ غریب اور ترقی پذیر ممالک میں “امریکہ مخالف” خیالات کو پھیلا کر محنت کشوں کو لاعلم اور الجھا کر رکھا گیا ہے، تاکہ عوام چھوٹے چھوٹے جھوٹے اور بےبنیاد نان ایشوز میں الجھے رہیں اور اِن استحصال زدگان کی کوئی عالمگیر جڑت وجود میں ہی نہ آ سکے۔ مغربی، امریکی اور یورپی سماج میں موجود اسلام فوبیا کا وہی طریقہ واردات ہے جیسے تیسری دنیا کے ممالک خاص طور پر اسلامی ممالک میں امریکہ مخالف رجحانات پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کے ترقی پسند عناصر بھی امریکہ دشمنی کے جھوٹے نعروں کے سامنے دبکے ہوئے نظر آتے ہیں۔
پوری دنیا کی معیشت بحرانوں کا شکار ہے، اور فلاحی بحٹ میں مسلسل کٹوتیاں کی جا رہی ہیں، محنت کش طبقے میں بےچینی بڑھ رہی ہے، لہذا یہ استحصال زدہ طبقہ اپنے حقوق کی جنگ شروع کرے گا۔ میں وثوق سے کہتا ہوں کہ لبرل طبقہ اپنے بورژوازی (سرمایہ دارانہ) اقتدار کے تحفظ کے لیے محنت کشوں اور غریبوں کی عالمی جڑت میں دراڑ ڈالنے کے لیے اِس مسئلے کو مزید بڑھا چڑھا کر پیش کرے گا۔ ہم مارکس وادیوں پہ یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم طبقاتی شعور پہ زور دیتے ہوئے محنت کش طبقے کی عالمگیر جدوجہد کی طرف مائل کریں۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply