• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سندھی ڈرامہ۔احوال وآثار۔سندھی ڈرامہ نگار سے ایک انٹرویو۔۔۔راشد احمد

سندھی ڈرامہ۔احوال وآثار۔سندھی ڈرامہ نگار سے ایک انٹرویو۔۔۔راشد احمد

پاکستان کی علاقائی زبانوں میں سندھی زبان  وادب   کو تاریخی مقام تو حاصل ہے ہی ،اس کے ساتھ ساتھ یہ زبان دیگر زبانوں کی نسبت  ترقی یافتہ بھی ہے۔اہل سندھ جس جذبے،لگن اور شوق کے ساتھ سندھی سے محبت کرتے ہیں اس کی مثال پنجابی اور پشتو بلوچی وغیرہ میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔سندھ کے اسکولز میں  بنیادی ذریعہ تعلیم سندھی ہے۔سندھی ادب کا ذخیرہ بھی بہت بڑا ہے اسی طرح اس زبان میں جہاں بہت سارے اخبارات و رسائل شائع ہوتے ہیں وہیں بہت سارے سندھی سیٹلائٹ  ٹی وی چینلز بھی چل رہے ہیں۔سندھ میں عربوں کے دور حکومت میں سندھی زبان بولی اور لکھی جاتی تھی۔ 270ھ میں پہلی بار سندھی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ ہوا۔ اسلام سے پہلے سندھ کے باشندے مشرق وسطیٰ آتے جاتے رہے۔ ہندو تاجر، ایران، عربستان، بلخ اور بخارا جایا کرتے۔ ان سفری مشاہدوں اور مختلف ثقافتوں کا اثر سندھی زبان پر غالب آنے لگا۔ سندھی زبان کے کئی الفاظ رگ وید میں ملتے ہیں۔ارتقا کا ایک لمبا سفر طے کرکے سندھی زبان ترقی یافتہ زبان کا روپ دھار چکی ہے جو نہ صرف جدید ایجادات سےہم آہنگ ہے بلکہ  مسلسل لکھی،بولی اور پڑھی جارہی ہے۔

اصناف ادب میں ڈرامے کی صنف کو بہت زمانہ قدیم سے ہی بہت اہمیت حاصل ہے۔سندھی زبان میں بھی ڈرامے کی بہت مضبوط روایت رہی ہے،لیکن سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد سندھی ڈرامہ گویا یکدم زوال پذیر ہوگیا کیونکہ صرف یک رخے ڈرامے ہی تخلیق ہونے لگے۔ڈاکو،کلہاڑیاں،بندوق  اور قتل وغارت سے بھرپور ڈرامے جن میں ماردھاڑ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔یہ ٹرینڈ کئی برس تک جاری رہا پھر یکسانیت سے ناظرین  بیزار آگئے ۔رفتہ رفتہ دیگر موضوعات پہ بھی ڈرامے بننے لگے۔سندھی ٹی وی چینلز پہ مزاحیہ ڈراموں کی ہمیشہ سے شدید کمی محسوس کی گئی۔طنز و مزاح سے بھرپور ڈرامے جن میں بین السطور  سبق سیکھنے  کو بھی کچھ ہو ہمیشہ سے کم پیش کئے گئے۔اب گزشتہ چند ماہ سے اس حوالہ سے سندھ ٹی وی کا ڈرامہ  ’’مشکرن جو گوٹھ‘‘ بہت مقبول ہوا ہے۔طنزومزاح سے بھرپور یہ ایک سوپ سیریل ہے جس کی ایک سو تیس اقساط آن ایئر ہوچکی ہیں۔ٹی وی پہ دیکھنے جانے کے علاوہ اسے لاکھوں لوگ انٹرنیٹ پہ بھی دیکھ رہے ہیں ۔

’’مشکرن جو گوٹھ‘‘ یعنی  مزاحیہ لوگوں کا گاوں کے  لکھاری  جناب عبدالشکور ڈاہری صاحب ہیں جو نواب شاہ کے نواحی شہر باندھی سے تعلق رکھتے ہیں۔ڈاہری شکور کے نام سے معروف ہیں۔شکور صاحب قبل ازیں سندھی ٹی وی چینلز کے لئے بہت سے ڈرامے تحریر کرکے مقبولیت حاصل کرچکے ہیں۔ان کے ایک ڈرامے کی نو سو سے زائد اقساط روزانہ کی بنیاد پہ ٹیلی کاسٹ ہوچکی ہیں۔اب ان کا  یہ مزاحیہ سوپ سیریل بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کررہا ہے۔پوری دنیا میں پھیلے سندھی اس مزاحیہ ڈرامے سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔یہ ڈرامہ  دادو شہر کے نواح میں فلمایا گیا ہے جہاں ہرے بھرے کھیت اور سرسبز مناظر ہیں۔گاوں کا خوب صورت ماحول ہے اور اس گاوں کے باسی  اپنی مستی میں مست بے ضرر اور مزاحیہ طبائع رکھنے والے سادہ انسان ہیں۔ڈرامے کی مقبولیت دیکھتے ہوئے میں نے سوچا کیوں نہ ڈرامے کے مصنف کا انٹرویو شائع کیا جائے تاکہ اردو قارئین بھی سندھی ڈرامے کے احوال سے واقفیت حاصل کریں۔

آپ کا تعارف؟

میرا تعلق باندھی سے ہے۔لکھنے لکھانے کا شوق تھا ۔ابتدا میں کہانیاں لکھتا تھا لیکن جب سندھی ٹی وی چینلز شروع ہوئے تو سندھی ڈرامے لکھنے شروع کئے۔’’کے ٹی این‘‘ پہ پہلا ڈرامہ چلا تھا۔تب سے مسلسل لکھ رہا ہوں۔سندھی چینلز کی تعداد اب ماشاء اللہ کافی ہوچکی ہے،لیکن میں نے زیادہ تر کے ٹی این کے لئے ہی لکھا ہے۔آج کل سندھ ٹی وی کے لئے لکھ رہا ہوں جسے کافی مقبولیت ملی ہے۔اس ڈرامے کی وجہ سے سندھ ٹی وی کے یوٹیوب چینل کو سلورپلے بٹن بھی ملا ہے۔

آج کل سندھی ڈرامہ  کو کہاں دیکھتے ہیں آپ؟

سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کی آمد کے بعد جہاں مقابلے کی فضا بنی وہاں ڈرامے کے معیار پہ سمجھوتہ بھی ہوا کیونکہ ایسے لوگ بھی اس انڈسٹری میں آگئے جو پروفیشنل نہیں تھے بلکہ پروفیشنل سے زیادہ ٹیکنیکل تھے،جس کی وجہ سے نہ صرف علاقائی ڈراموں  جیسے سندھی  وغیرہ ڈرامے کا معیار گرا بلکہ بحیثیت مجموعی پاکستانی ڈرامہ جو ایک وقت میں چھایا ہوا تھا اس کا معیار بھی کمپرومائز ہوا،لیکن  پھر مقابلے کی فضا بنی اور اس سے بہتری آئی ہے۔اب ڈراموں کا معیار اچھا ہوگیا ہے،لیکن سندھی ڈراموں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہ نہایت کم بجٹ میں بن رہے ہیں ،اس کی وجہ سے  بھی ان کا معیار اردو ڈرامے کی نسبت کم ہے۔

سندھی ڈرامہ نگار کیسا لکھ رہے ہیں اور کیا لکھ رہے ہیں؟

سندھی ڈرامہ  نگاری کے حوالہ سے بہت اچھے اور معروف نام ہیں جو بہترین کام کررہے ہیں جیسے نورالہدی شاہ اور  اظہر جمیل وغیرہ ہیں لیکن دیگر اچھا لکھنے والے جو کسی زمانے میں بہترین کام کررہے تھے لیکن اب خاموشی سے گھر بیٹھے ہیں کیونکہ انہیں ڈرامہ لکھنے کامعاوضہ ہی نہیں ملتا یا بہت کم ملتا ہے،اتنا کم کہ جس کا تذکرہ بھی مناسب نہ ہو شاید۔ابھی ہمارے ساتھ جو لوگ لکھ رہے ہیں ان میں سے بھی اکثریت پروفیشنل کے بجائے ٹیکنیکل ہیں۔انہوں نے کبھی ادب کو نہ پڑھا نہ دیکھا اس لئے تخلیقیت سے عاری ڈرامے بنارہے ہیں صرف ڈرامے اور فلمیں دیکھ دیکھ کے۔میں نے سندھی ادب میں ایم اے کیا ہے اور بہت کم ایسے لوگ ہیں جو تخلیق کررہے  ہیں۔

سندھی ڈرامے کی نسبت کہاجاتا ہے کہ یہ ڈاکووں میں گھرا ہوا ہے۔کیا یہ درست ہے؟

ہاں کسی حد تک اس لئے درست ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ واقعی ڈاکووں میں گھری ہوئی تھی جیسے سلطان راہی کی فلمیں تھی جو کچھ عرصہ تک تو چلیں لیکن پھر غائب ہوگئیں،ایسے ہی سندھی ڈرامے میں ڈاکووں اور لڑائی بھڑائی  والا زمانہ بھی کچھ عرصہ تک رہا ہے،پھر لوگوں نے اسے مسترد کردیا  اور اب بہت کم ایسے ڈرامے بن رہے۔میرے ڈرامے ’’کنڈن جی سیج‘‘ یعنی کانٹوں کی سیج میں بھی وڈیرے وغیرہ تو تھے کیونکہ یہ معاشرے اور کلچر کا حصہ ہیں،لیکن  ڈاکو  اور کلہاڑی برداراچکے اور بندوق بازی نہیں تھے۔وہ ڈرامہ میری شناخت بن گیا۔چھوٹے شہر ڈرامے کے وقت ویران ہوجاتے تھے۔لوگوں نے گاوں میں جنریٹر وغیرہ خریدے اور ڈش اینٹینا لگوائے۔اس ڈرامے کو کافی مقبولیت ملی۔

کیا سندھی مزاحیہ ڈرامےپہلے بن رہے تھے اور آپ کو خیال کیسے آیا مزاحیہ ڈرامے کا؟

ہاں کچھ ڈرامے بہرحال بن رہے تھے،لیکن ان کو اتنی مقبولیت نہیں ملی۔ہم نے سوچا کہ لوگوں کو مزاحیہ ڈراموں کی بھی ضرورت ہے کہ انہیں کچھ ہنسایا جاے۔ہر وقت انہیں رلاتے رہتے ہیں کچھ ہنسانے کا سامان بھی کیا جائے۔اتفاق سے اس ڈرامے کے لئے  ٹیم بھی وہی میسر آگئی جو ’’کنڈن جی سیج‘‘ کے وقت تھی یعنی وہی ڈرامہ نگار،وہی ڈائریکٹر اور اداکار وغیرہ۔اس سے ایک اچھی کمیسٹری بن گئی اور ڈرامہ شروع ہوگیا۔اس ڈرامے کا ایک ریکارڈ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں کبھی مزاحیہ سوپ سیریل بناہی نہیں۔یہ پہلا مزاحیہ سوپ سیریل ہے۔ہندوستان میں بھی مزاحیہ سوپ سیریل نہیں بنا۔سیریز بنتی رہی ہیں لیکن  سیریل نہیں بنا۔

مختلف النوع ڈرامے دیکھتے ہوئے اس ڈرامے کا خیال آیا اور جب ہم نے یہ شروع کیا تو اس وقت کسی سندھی چینل پہ کوئی مزاحیہ ڈرامہ نہیں چل رہا تھا۔میں نے اور عبدالمنان عباسی عرف ماما لالو جو اس ڈرامے کے ڈائریکٹر ہیں نے یہ سوچا کہ  کیوں نہ ہم مزاحیہ سوپ سیریل شروع کریں،چنانچہ اس طرح ڈرامہ شروع ہوا۔سندھ ٹی وی نے اس خیال کو خوش آمدید کہا۔

ڈرامے کا فیڈ بیک کیسا آیا؟

ہمیں امید تھی کہ یہ ڈرامہ چل جائے گا لیکن اتنی مقبولیت ملے گی یہ ہرگز نہیں سوچا تھا۔نہ صرف یہ کہ ٹی وی ناظرین نے اسے پسند کیا بلکہ انٹرنیٹ پہ بھی اسے لاکھوں کی تعداد میں لوگ دیکھ رہے ہیں اور پسند کررہے ہیں۔امید سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ۔گو ریٹنگ کے معاملات میرے علم میں زیادہ نہیں ہیں لیکن  مقبولیت کا گراف اس ڈرامے کا بہت بلند رہا۔

’’مشکرن جو گوٹھ‘‘ بارے ذرا بتایے۔

یہ ایک گاوں  کے متعلق ہے یعنی کہ village of comedians جو لوگ ہر بات کو مزاح اور طنز میں لیتے ہیں۔اس گاوں کے رہائشی ہیں اور گاوں کی طرح اس میں مختلف پھیرے والے بھی آتے رہتے ہیں،کبھی کپڑا بیچنے والا آگیا کبھی کوئی اور آگیا اور ان کے ساتھ معاملات ہوتے ہیں۔ان لوگوں کے آپسی معاملات ہیں   وغیرہ

یہ ڈرامہ کتنی اقساط میں چلنا ہے؟

یہ تو ڈائریکٹر اور چینل پہ منحصر ہے۔ہم تو کام کرنے والے ہیں جب تک کہیں گے ہم کام کرتے رہیں گےا ور لکھتے رہیں گے۔

سندھی ڈرامے کے بجٹ کے کیا احوال ہیں؟

بجٹ کے معاملات بہت تلخ ہیں۔اتنا کم بجٹ ہے کہ آپ یقین نہیں کریں گے۔اردو ڈراموں کے جہاں جتنے وقت میں چند ایک سین فلمائے جاتے ہیں اتنے وقت میں ہماری ایک پوری قسط تیار ہوجاتی ہے کیونکہ ڈائریکٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم بجٹ میں زیادہ کام کیا جائے تاکہ خرچہ بچایا جایا سکے۔اداکاروں کو بھی بہت کم پیمنٹ ہوتی ہے۔مجھے دو ہزار فی قسط کے حساب سے پیسے ملتے ہیں اس میں سے بھی انکم ٹیکس کاٹ کے سولہ سترہ سوروپے ملتے ہیں۔اس کا حال بھی یہ ہے کہ لوگ پانچ سو میں لکھنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔سندھی میڈیا میں یہ ہورہا ہے کہ ڈرامہ مشہور ہوگیا تو لکھاری کو کھڈے لائن لگا کر کسی جگاڑو کو پکڑ کر اس سے لکھوایا جاتا ہے اور یوں ڈرامہ چلتا رہتا ہے۔اس کی ایک وجہ علاقائی چینلز کو کم اشتہارات  ملنا بھی ہے۔چونکہ چینلز کا کام چل رہا ہے اس لئے مشکل ہے کہ فن کاروں کی صورت حال بہتر ہوسکے۔اسی وجہ سے فن کاروں کو گھر کا خرچہ چلانے کے لئے  دوسرے کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔صرف لکھنے یا اداکاری کرنے سے گھر کا خرچہ نہیں چلتا۔

اردو ڈرامہ لکھنے کی کبھی کوشش نہیں کی؟

کبھی کوئی خاص کوشش نہیں کی نہ ہی کسی نے کہا لیکن دل کرتا ہے کہ ایسی تخلیق کی جائے جسے پورا پاکستان دیکھے۔فلم لکھنے کی طرف  بھی توجہ کی ہے جو ابھی تک تو چلی نہیں لیکن اسے پسند کیا گیا ہے۔اگر موقع ملا تو اسے اردو میں بھی ڈھالنے کی کوشش ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

سائیں ڈاہری شکور صاحب آپ کے وقت کا بہت شکریہ ،مکالمہ قارئین کے لئے وقت دینے اور  فون پہ انٹرویو دینے کے لئے۔

Facebook Comments

راشداحمد
صحرا نشیں فقیر۔ محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply