• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اے کے ہنگل : ہندوستانی تھیٹر اور فلموں کا مہذب اداکار۔۔۔۔احمد سہیل

اے کے ہنگل : ہندوستانی تھیٹر اور فلموں کا مہذب اداکار۔۔۔۔احمد سہیل

اے کے ہنگل کا پورا نام اوتار کرشن ہنگل تھا۔ ان کی پیدائش ایک کشمیری پنڈت کے خاندان میں سیالکوٹ(اب پاکستانی پنجاب ) میں 15 اگست 1915 میں ہوئی۔
وہ بچپن میں تھیٹر میں کام کیا کرتے تھے۔ ان کا قیام پشاور میں بھی رہا۔انھوں نے کچھ عرصے درزی کاکام بھی کیا۔ ہنگل نے بھارتی آزادی کی جدوجہد میں برطانوی سامراج کے خلاف فعال حصہ لیا تھا۔ اپنے والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد، ان کا کنبہ پشاور سے کراچی منتقل ہوگیا تھا۔جہان پاکستان میں انھیں جیل میں 3 سال کی قید ہوئی۔

اے کے ہنگل ہندوستانی فلم انڈسٹری میں تین سو کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا۔۔ ہنگل ایک راسخ العقیدہ کمیونسٹ تھے اور وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان اور ہندوستان میں کمیونزم نافذ کرنا چاہتے تھے۔ اپنے خیالات پر پختہ رہنے کی وجہ سے انہیں کراچی میں دو سال قید بھگتنا پڑی، اور وہ حیدرآباد جیل میں بھی رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

“کراچی کے اوتار کا۔ اوتار اپنے نظریات کی وجہ سے کراچی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے کہ اچانک یہ حکم صادر ہوا کہ انہیں حیدرآباد جیل منتقل کیا جائے۔ جب انہیں حیدرآباد جیل منتقل کیا گیا تو اس جیل منتقلی کا احوال انہوں نے اپنے انٹرویو میں کچھ یوں بیان کیا:

‘جب مجھے حیدرآباد جیل منتقل کیا گیا تو وہاں غنی خان بھی قید تھے۔ غنی خان غفار خان کے صاحبزادے اور ولی خان کے بھائی تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں کیوں پاکستان میں رہ رہا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تم ایک ہندو ہو اور تمہارا یہاں کیا مستقبل ہے۔ کچھ بھی نہیں۔ میں نے جواباً کہا کہ آپ ایک مسلمان ہیں اور جیل میں ہیں۔ آپ کا یہاں کیا مستقبل ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم پختونوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے، گو کہ گانگریس نے ہم سے دھوکا کیا۔’

اوتار نے سوبھو گیانچندانی کے ہمراہ ایک درخواست سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔ ان کے چار وکیل تھے جن میں سے ایک نوجوان شیخ ایاز تھے۔
اے کے ہنگل کمیونسٹ تھے۔ اس کی وجہ ان کی کراچی میں موجودگی تھی جہاں وہ کمیونزم سے متاثرہوئے۔ کراچی میں اپنی رہائش کے دوران انہوں نے ایک درزی کی دکان پر ملازمت حاصل کی تھی اور اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ کپڑے کاٹنے میں بے انتہا مہارت رکھتے تھے۔

یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا۔ دکان مالک سے ان کی بہت زیادہ دوستی تھی بلکہ اکثر خواتین گانے والیوں سے گانا سننے کے لیے وہ دونوں ایک ساتھ جایا کرتے تھے۔ لیکن اے کے ہنگل کمیونزم کے پیغام سے بہت زیادہ متاثر ہوچکے تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ کمیونزم ہی وہ واحد طرز معیشت ہے جس میں تمام لوگوں کو اپنے حقوق حاصل ہوسکتے ہیں۔
چنانچہ انہوں نے کراچی میں ٹیلرنگ ورکرز یونین کی بنیاد رکھی۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا وہ مالک جو ان کا بہت اچھا دوست تھا وہ ان کے خلاف ہوگیا۔ اوتار نے ملازمین کے حقوق کی بحالی کے لیے مطالبات کی ایک فہرست بنائی اور مالک کو پیش کی۔ ان مطالبات میں بنیادی نقطہ یہ تھا کہ یونین بنائی جائے اور شاپ اینڈ اسٹیبلشمنٹ ایکٹ کی پاسداری کی جائے۔ لیکن اس کے جواب میں ہنگل اور دیگر ملازمین کو ان کے دوست نے برطرف کر دیا۔ {“کراچی کا اوتار: اے کے ہنگل”، از آختر بلوچ ۔ ‘ڈان’ ۱۵ اپریل ۲۰۱۵}

1949 ء میں بھارت کی تقسیم کے بعد ان کو جیل سے رہائی ملی اور وہ ممبئی منتقل ہوگئے۔ ہنگل کا جھکاؤ بائیں بازو کی طرف رہا او وہ تاحیات عملی مارکسٹ رہے۔ وہ شیوسینا کے ایک بہت بڑے ناقد تھے۔ بھربلراج ساہنی اور کیفی اعظمی، کے ساتھ تھیٹر گروپ اپٹا میں کام کرنے لگے۔
1946 میں انھوں نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز خاصی تاخیر سے 30 سال کی عمر میں بھاسو بھٹیا چاریہ کی فلم ” تیسری قسم ” سے کیا اور ہنگل نے ہندی فلموں میں اعلی درجے کی اداکاری کی۔
ہنگل نے زیادہ تر بوڑھوں اور عمر رسیدہ کردار ادا کیے۔ فلم “شعلے” میں ان کا امام مسجد کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ انھوں  نے فلموں میں زیادہ تر مثبت کردار ادا کیے ۔
ہنگل کے فلم “شعلے” کے یہ مکالمے کون بھول سکتا ہے۔
“بسنتی او بسنتی!
یہ اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟
کون ویرو؟ بیٹے یہ خاموشی کیوں ہے یہاں؟ ہاں!
کیا ہوا؟ یہ کیا ہوا تھا بیٹا۔ یہ کہاں لے جارہے ہو؟
احمد، احمد، احمد۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
کوئی یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا ہے بھائی۔ جانتے ہو دنیا کا سب سے بڑا بوجھ کیا ہوتا ہے؟
باپ کے کندھوں پر بیٹے کا جنازہ! اس سے بھاری بوجھ کوئی نہیں ہے۔ میں بوڑھا یہ بوجھ اٹھا سکتا ہوں اور تم ایک مصیبت (گبر سنگھ) کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے؟ بھائی میں تو ایک ہی بات جانتا ہوں۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے کہیں اچھی ہے۔ بیٹا میں نے کھویا ہے، میں پھر بھی یہ ہی چاہوں گا کہ یہ دونوں (جے اور ویرو) یہیں رہیں۔”

اے کے ہنگل نے 225 فلموں میں کام کیا۔ ان کی پہلی فلم “تیسری قسم اور آخری فلم” ہم سے ہے جہاں” تھی۔ آٹھ (8) ٹیلی وژن کے ڈراموں میں بھی حصہ لیا۔۔ انھوں نے “کاکا” ( راجیش کھنہ) کے ساتھ سالہ (16) فلموں میں کام کیا۔ اے کے ہنگل نے زیادہ تر بھارت کے پہلے سپر اسٹار راجیش کھنہ کے ساتھ فلمیں کیں ۔ اتفاق ہے کہ زندگی بھر ساتھ کام کرنے والے راجیش کھنہ نے 18جولائی کو ان کا ساتھ چھوڑا تو اے کے ہنگل بھی اگلے ہی مہینے یہ دنیا چھوڑ کر وہیں جابسے جہاں راجیش کھنہ گئے تھے۔ دونوں فنکاروں نے ”آپ کی قسم ، امردیپ، پھر وہی رات، قدرت، نوکری، تھوڑی سی بے وفائی“ اور” سوتیلا بھائی“ جیسی متعدد فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔

جس عمر میں لوگ خود کو بوڑھا کہہ کر ہر کام سے بری الذمہ ہوجانا چاہتے ہیں، اس عمر میں اے کے ہنگل نے پہلی مرتبہ کیمرے کا سامنا کیا تھا۔ یہ حوصلے، ہمت اور جوانمردی کی ہی تو بات ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ 96سال کی عمر میں وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود فیشن شو میں شرکت اور 97سال کی عمر میں ایک اینی میٹیڈ فلم اور ٹی وی شو کے لئے وائس اوور کرانا اس بات کا واضح پیغام ہے کہ بڑھاپا‘ اے کے ہنگل کے لئے کبھی رکاوٹ نہیں بنا۔ وہ شاہد ہر عمر میں کام۔۔ اوروہ بھی دوسرے سے بہتر کام ۔۔کرنے کے لئے ہی پیدا ہوئے تھے۔

اے کے ہنگل آخری سانس تک کام کرتے رہے ۔ شاید اس لئے بھی کہ وہ بہت خوددار تھے ۔ آخری دنوں میں انہیں پیسے کی سخت تنگی تھی۔ عرصے سے بیمار اور ضعیفی بھی تھی لیکن انہوں نے کبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔

جب وہ وہیل چیئر پر تھے انہوں نے بھارت کے نامور ڈیزائنر ریاض گنجی کے لئے فیشن شو میں حصہ لیا اور ریمپ پر واک بھی کی۔
ویسے تو خرابی صحت کے سبب وہ کئی سالوں سے ہسپتالوں کے چکر لگا رہے تھے مگر 13اگست کو وہ باتھ روم میں پھسل گئے جس سے ان کی ایک ٹانگ میں فریکچر ہوگیا۔ 16اگست کو انہیں اداکارہ آشا پاریکھ کے قائم کردہ ہسپتال ”پاریکھ ہاسپٹل“ میں داخل کرایا گیا ۔ڈاکٹرز ان کی ٹانگ کا آپریشن کرنا چاہتے تھے مگر چونکہ انہیں ہائی بلڈ پریشرکے ساتھ ساتھ گردے کا مرض بھی لاحق تھااور عمر بھی کافی ہوچکی تھی چنانچہ ڈاکٹرزکو اپنا ارادہ تبدیل کرنا پڑا۔
اسی دوران ان کی طبیعت مزید خراب ہوگئی تو انہیں وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا لیکن طبیعت میں پھر بھی کوئی سدھار نہیں آیا ۔ ڈاکٹرز کی مایوسی بڑھی تو وینٹی لیٹر بھی ہٹا دیا گیا۔
غسل خانے میں گرنے کے سبب ان کی ران کی  ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ بھر ان کی کمر کی جراحی ہوئی اور ان کی صحت گرتی رہی۔ 26 اگست، 2011 میں ان کے سینے میں  تکلیف اور سانس لینے میں دشواری ہونا شروع ہوئی تو انھیں سینٹا کروس (ممبئی) کے آشا پاریکھ ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔ جہان 97 سال کی عمر میں ہنگل صاحب نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ ان کو “پون ہنس” آتش خانے میں سپرد آتش کیا گیا۔ ان کے ایک صاحب زادے ” وجے” ہیں جو ایک زمانے میں فلموں میں عکاسی کیا کرتے تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply