الجفر کا قیدی (قسط 2) ۔۔وہارا امباکر

داعش اپنی طرز کی ایک انوکھی تنظیم تھی۔ ایک وقت میں ایک بڑے ملک جتنے علاقے پر قابض تھی۔ اس کا اور اس کی قائم کردہ دہشت ناک خلافت کا بڑی حد تک صفایا ہو گیا۔  یہ تنظیم کیا تھی؟ کیوں آئی؟ کہاں گئی؟ اس کا جواب عراق کی جنگ اور شام کی خانہ جنگی میں ہے لیکن اس سے پہلے ہمیں اردن کی جیل کے ایک قیدی کو جاننا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں : اردن : بادشاه کا فیصلہ (قسط 1) ۔۔وہارا امباکر

اردن کی بدنام جیل قدیم قلعے الجفر میں تھی۔ اردن کے جنوب مشرقی لق و دق صحرا میں جہاں نہ گھاس ہے اور نہ پتھر۔ یہاں پر قدیم سمندر زمانوں پہلے خشک ہو چکا اور ایک خاموش اور خوفناک تنہائی ہے۔ یہاں پر برطانوی حکومت نے خطرناک قیدیوں کے لئے جیل بنوائی تھی۔ برسوں بعد ہاشمی حکومت فلسطینی عسکریت پسندوں کو یہاں پر رکھتی تھی جب اس جگہ پر سینکڑوں لوگ بدترین حالات میں رہتے تھے۔ پٹائی کئے جانا، الٹا لٹکائے جانا، سگریٹ سے داغے جانا جیسے حربے استعمال کئے جاتے تھے۔ اقوامِ متحدہ میں انسانی حقوق کی طرف سے اس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس جیل کو بالآخر 1979 میں بند کر دیا۔ اس کو بچھووٗں اور اپنے بھوتوں اور قصوں کے سپرد کر دیا گیا۔ اردن فلسطینیوں کے ساتھ اس باب کو ختم کر چکا تھا۔ ملک آگے بڑھ گیا تھا۔

اس جیل کو واپس 1998 میں کھولا گیا۔ اردنی حکومت دوسری جیلوں میں کئی شدت پسند قیدیوں کے ہاتھوں پریشان تھی۔ افغانستان سے پلٹنے والے اور افغان عرب کہلانے والے کئی قیدی جیلوں میں دوسروں پر اثرانداز ہو رہے تھے۔ حکومت ان کا اثر پھیلنے سے روکنا چاہتی تھی۔ اس کے لئے نظرِ انتخاب الجفر جیل بنی۔ یہاں پر آنے والے پچاس قیدیوں میں ابو محمد المقدیسی بھی تھے اور زرقہ سے تعلق رکھنے والے احمد فضیل الخلایلہ بھی۔

مقدیسی، جن کی لکھی کتابیں انتہاپسندوں میں مقبول تھیں جس میں وہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کو قتل کرنا مسلمانوں کے لئے دینی فریضہ قرار دیتے تھے۔ (لیکن القاعدہ کے اندر ایک معتدل چہرہ سمجھے جاتے تھے)۔ ان کے شاگرد احمد کا مزاج ان سے بڑا مختلف تھا۔ ایک مشکل بچپن والا شخص جس نے یہاں پر 2009 تک رہنا تھا۔ اس کو سزا بیت الامام تنظیم کے ممبر کی حیثیت سے ہوئی تھی جس میں احمد کو اردن اسرائیل سرحد پر خود کش حملوں کے منصوبے کی تیاری کے دوران پکڑا گیا تھا۔

احمد فضیل اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکے تھے۔ اپنے لڑکپن میں نشے میں دھت ہو کر غل غپاڑہ کرنے اور مار پیٹ کرنے میں شہرت رکھتے تھے۔ بازو پر بنوایا گیا ٹیٹو ان دنوں کی یادگار تھا۔ اس ٹیٹو کو بعد میں چھیل دیا تھا لیکن یہاں پر نشان مستقل رہ گیا تھا۔ والدہ نے ان کو اصلاح کے لئے ایک مبلغ کے پاس بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے کردار میں ڈسپلن تو آ گیا تھا لیکن طبیعت کا غضب نہیں گیا تھا۔ احمد نے کئی برس سال پشاور میں گزارے تھے اور یہاں پر حیات آباد سے شائع ہونے والے جریدے البنیان المرصوص کے لئے مضامین کا عربی میں ترجمہ کرتے تھے۔ لیکن اپنی طبیعت، جیل میں کئے جانے والے تشدد اور مقدیسی کی شاگردی میں گزارے وقت نے انہیں وہ بنا دیا تھا جس سے انہوں نے شہرت پائی۔ یہ القاعدہ عراق کے لیڈر بنے اور ابو مصعب الزرقاوی کہلائے۔ ان کے متشدد طریقے اس قدر ہولناک تھے کہ انہوں نے عراق کا اور پھر شام کا معاشرہ بدلنا تھا اور آگے چل کر داعش کی بنیاد ڈالی تھی۔ اسامہ بن لادن اور پھر ایمن الظواہری تک نے (جنہوں نے پاکستان میں پہلا خود کش حملہ کروایا) ان کے طریقوں کی وجہ سے ان سے بعد میں علیحدگی اختیار کر لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ عبداللہ حسین نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نئے اتحاد بنائے۔ اپنے چچا سے وفادار افسروں کی برطرفی کے ساتھ ساتھ خاندان کو اکٹھا رکھنے کے اقدامات کئے۔ روایات کے مطابق خیرسگالی کے لئے کئی قیدیوں کی سزاوٗں میں تخفیف اور کئی کو معاف کیا گیا۔  29 مارچ 1999 کی شام کو شاہی معافی کے تحت آزاد ہونے والے لوگوں کو اردن کے دارالحکومت عمان لے جانے کے لئے پولیس وین الجفر جیل پہنچی۔ معافی کی فہرست میں جن لوگوں کا نام شامل تھا، اس میں الجفر میں سزا کاٹنے والے احمد فضیل کا نام بھی تھا۔

ابومصعب الزرقاوی اب آزاد تھے۔
اس سے چھ مہینے بعد ان کے پاس پاکستان کا ویزہ اور پشاور کا ٹکٹ تھا۔ اپنے والدہ کے ساتھ ائرپورٹ پہنچے تھے اور پشاور جانے کی وجہ پشاور میں شہد کا کاروبار کرنا بتائی تھی۔

پاکستان میں ان کا پڑاوٗ کامیاب نہیں رہا۔ پاکستان عرب سے آنے والے مجاہدین کے لئے بچھا خوش آمدیدی قالین اٹھا چکا تھا۔ ان کو بتا دیا گیا تھا کہ ان کو ویزے سے زیادہ مدت نہیں رہنے دیا جائے گا۔ وہ چیچنیا جانا چاہتے تھے لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ انکا اگلا پڑاوٗ قندھار تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قندھار میں ان کی ملاقات اسامہ بن لادن سے ہوئی۔ القاعدہ پھیلنا چاہتی تھی۔ اردن اور فلسطین میں اس کے شاخیں نہیں تھیں اور یہ اہم ممالک تھے۔ کیا زرقاوی یہ خلا پورا کر سکتے تھے؟ ان پر اعتبار کیسے کیا جائے؟ القاعدہ کے راہنما العادل نے ایک تجویز پیش کی کہ زرقاوی کو اپنا کیمپ چلانے دیا جائے تا کہ صلاحیتوں کا اور بھروسے کا اندازہ ہو سکے۔ القاعدہ ابتدائی فنڈنگ کر دے گی اور دور سے دیکھی گی۔ اس کیمپ میں اردن، شام، عراق اور ترکی سے آنے والے رضاکار تربیت پائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرقاوی نے اس تجویز پر غور کر کے اس کو قبول کر لیا۔ یہ کیمپ ہرات میں قائم ہوا۔ ابتدا میں اس میں آنے والے ان کے پرانے دوست تھے۔ پھر دوسرے رابطوں کے ساتھ یہاں پر اور لوگ بلائے گئے۔ دو مہینوں میں 42 لوگ یہاں آ چکے تھے۔ زرقاوی دوسری شادی کر کے یہاں پر رہنے لگے تھے۔

لیکن یہ زیادہ عرصہ نہیں چلا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد یہاں ایک جنگ چھڑ گئی۔ اس کی ابتدائی ہفتوں میں ہی زرقاوی کا ہرات کا کیمپ امریکی بمباری کا نشانہ بن گیا۔ اس میں زرقاوی زخمی ہو گئے۔ گرے ہوئے ملبے کے نیچے ان کی پسلیاں فریکچر ہو گئیں۔ انکو یہاں سے بھاگنا پڑا۔ اگلا پڑاوٗ عراق کے شمال مشرقی پہاڑوں میں ایرانی سرحد کے قریب کرد علاقے کا گاوٗں تھے۔ اس وادی کے دیہاتوں پر افغان جنگ سے آنے والئے مجاہدین نے انصار السلام کے نام سے تنظیم بنائی تھی۔ دیہاتوں میں شریعت نافذ کی تھی۔ نہ ہی عراقی حکومت کا یہاں کوئی کنٹرول تھا اور نہ ہی کردوں کا۔ دونوں ہی اس سے خائف تھے۔ سرگات کے گاوٗں میں زرقاوی اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ اور القاعدہ کے محض چند ہزار ڈالروں کے ساتھ پہنچے تا کہ افغان کیمپ یہاں دوبارہ شروع کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے تک زرقاوی کے لئے بدترین دشمن اسرائیل اور اردن کی حکومت تھی۔ ہرات میں ان پر ہونے والے حملے نے اس میں امریکہ کا اضافہ کر دیا تھا۔ جنگ، جیل اور افغان کیمپ نے ان کی کردار سازی کی تھی۔ اپنے آپ کو لیڈر کے طور پر دیکھتے تھے۔ افغانستان میں جنگ کے بعد اسامہ بن لادن روپوش تھے۔ زرقاوی ان سے بڑا لیڈر بننے کی خواہشمند تھے۔

افغانستان کے بعد امریکہ کو اس کی طاقت کا زعم عراق تک لانے لگا تھا۔ زرقاوی نے اس میں بڑا کردار ادا کرنا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں 5 فروری 2003 کو کالن پاول کی نصف سچ اور غلط نتائج سے بھری تقریر نے ان کا کردار ہمیشہ کے لئے داغدار کر دیا۔ اس تقریر کے 61ویں منٹ میں القاعدہ اور عراق کا تعلق دکھانے کے لئے زرقاوی کو دکھایا گیا تھا۔ یہ سچ تھا کہ زرقاوی کا تعلق القاعدہ سے تھا۔ یہ بھی سچ تھا کہ زرقاوی عراق میں تھے۔ لیکن اس سے نکالا جانے والا نتیجہ بالکل غلط تھا۔ سی آئی اے میں زرقاوی کی نگرانی کرنے والی نادا باکوس کہتی ہیں کہ “جب یہ سلائیڈ دکھائی جا رہی تھی تو میں اپنے بال نوچ رہی تھی۔ سخت سیکولر صدام حسین اور القاعدہ میں واحد تعلق آپس کی دشمنی کا تھا”۔ کولن پاول کی تقریر نے زرقاوی کو دنیا میں متعارف کروا دیا۔  اس سے کچھ روز بعد جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو سرگات کا گاوٗں ابتدائی بمباری کا نشانہ بنا لیکن زرقاوی اس سے پہلے یہ علاقہ چھوڑ چکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر الجفر جیل کی گوگل ارتھ سے لی گئی ہے۔ اردن میں جاری اصلاحات میں اس کو 2006 میں بند کر دیا گیا تھا۔ شاہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ اب  ہمیں وہ جیلیں بنانی ہیں جو لوگوں کی اصلاح کریں۔ جیلوں کی اصلاح کے پروگرام کیلئے اردن نے بھاری بجٹ رکھا ہے۔

images

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply