• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستانی سیاسی تاریخ کے دھرنوں ، لانگ مارچ اور احتجاج کے تناطر میں مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ کامیاب ہے یا ناکام؟۔ غیور شاہ ترمذی

پاکستانی سیاسی تاریخ کے دھرنوں ، لانگ مارچ اور احتجاج کے تناطر میں مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ کامیاب ہے یا ناکام؟۔ غیور شاہ ترمذی

اگر کامیابی آپ کے خیال میں عمران خان کے سٹائل میں وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرکے لڑائی جھگڑا کرنا تھا تو واقعی مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ ناکام ہے اور اگر مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کی گردن کا سریا نکال کر اسے ڈائیلاگ کی ٹیبل پر لاکر اپنے مقاصد کا حصول تھا تو یقین کر لیں کہ یہ 100 فیصد کامیاب رہا ہے- سیاستدان کبھی بھی ڈائیلاگ سے انکار نہیں کرتا- لانگ مارچ اور دھرنوں جیسی مزاحمت مقتدرہ کو ڈائیلاگ پر لانے کے لئے کی جاتی ہے, فتح و شکست کے لئے نہیں۔ کیا آپ سنجیدگی سے سمجھتے ہیں کہ لڑائی شروع کرنے کےلئے مولانا کی افرادی قوت کو پی پی پی اور ن لیگ کے لوگوں کی محتاجگی تھی۔ کیا ن لیگ اور پی پی پی کے پاس مولانا کی جماعت کے لوگوں سے زیادہ committed کارکنان موجود ہیں؟۔ سیدھی سی بات ہے کہ مولانا ایک زیرک سیاستدان ہیں ۔وہ دیوار کو ٹکر مارنے کی بجائے کنڈی کھٹکھٹا کر دروازہ کھلوانے کی مہارت اور صلاحیت رکھتے ہیں- پی پی پی بھی اسی طرح بارہا دروازے کھلوا چکی ہے- نون لیگ کا مزاج البتہ کچھ اور ہے۔ لیکن فی الوقت یہ کہنا غلط ہے کہ نون لیگ نے دھوکہ کیا۔ مولانا سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ نون لیگ کہاں تک ساتھ نبھانے والی سواری ہے۔

یاد رہے کہ جمہوریت قدم بہ قدم آگے بڑھنے کا نام ہے۔ دیوار سے ٹکر مارنے کا نہیں- اسی طرح سیاست بھی ناممکن میں ممکنات کی تلاش کا نام ہے- کیا یہ کم ہے کہ پہلے جمہوریت کے خلاف 9 جماعتی اتحاد بنتے تھے اور اب جمہوریت کے لئے- جمہوریت ایک ایسا سیاسی عمل ہے جس میں قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہیں- آج پاکستان میں جمہور دشمن تنہا ہو رہے ہیں- اور یہی مولانا فضل الرحمن کے آزادی مارچ سے ملنے والی فوری کامیابی ہے-

پاکستانی سیاست میں احتجاجی دھرنوں, مظاہروں اور مارچوں کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ پچھلی 5 دہائیوں میں دارالحکومت نے کئی سیاسی تحریکیں دیکھیں مگر یہ بھی طے ہے کہ دھرنوں سے مسائل کا حل نہیں نکلتا بلکہ دھرنوں سے حکومت وقت ہی ڈی ریل ہوا کرتی ہے۔ مسائل کا حل صرف پارلیمنٹ کے اندر رہ کر ہی نکا لا جاسکتاہے- سنہ 1990ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں کے دوران شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2 لانگ مارچ کئے تھے جن کے بارے میں لگتا تھا کہ وہ بظاہر ناکامی پر متنج ہو گئے ہیں لیکن ان کے مطلوبہ نتائج ایک مہینے بعد نکلے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ دھرنے اور احتجاج ایسے بھی تھے جنہیں فورا‘‘ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔

پاکستانی سیاسی تاریخ میں دارالحکومت اسلام آباد میں پہلا بڑا مظاہرہ چار اور پانچ جولائی 1980ء کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آئی ایس او) نے اپنے قائد مفتی جعفر حسین کی قیادت میں آمر جنرل ضیاء الحق کے متنازعہ زکٰوۃ اور عشر آرڈیننس کے خلاف پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دیا۔ اس دھرنے میں ہزاروں افراد شریک تھے اور ان کا مؤقف تھا کہ زکوۃ اور عشر آرڈیننس میں شیعہ برادری کو نظر انداز کیا گیا۔ 2 روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے کے لئے نہ تو پولیس کی مدد سے کنٹینر لگا کر سڑکیں بند کی گئیں اور نہ ہی لاٹھی چارج یا آنسو گیس کا استعمال ہوا۔ مجبوراً حکومت نے شیعہ مکتبہ فکر کو اس آرڈیننس سے مستثنیٰ رکھنے کا مطالبہ تسلیم کر لیا۔ بعد میں اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی حکومت کی طرف سے نقد رقم پر زکوۃ اور عشر کی کٹوتی پر اعتراضات کو تسلیم کر لیا گیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں 17 اگست1989 ء کو میاں نواز شریف نے فیصل مسجد میں ضیاء الحق کی پہلی برسی منانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا۔یہ اُس وقت کی حکومت کے لئے پہلا بڑا چیلنج تھا۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے سیاسی راستہ اختیار کیا گیا۔ اُس وقت کے وزیر داخلہ اعتزاز حسن نے برسی منانے والوں کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔ تعزیت کے لئے آئے لوگ سیاسی تقاریر اور برسی کے بعد پر امن طورپر منتشر ہو گئے- اس میں پیپلز پارٹی نے اپنی حکمت عملی سے اتنی کامیابی حاصل کی کہ آج میاں نواز شریف کی پارٹی جنرل ضیاء کی سیاسی وراثت کو مسترد کر چکی ہے اور باقی سیاسی پارٹیوں کی طرح اُسے آمر قرار دیتی ہے۔

اگست 1990ء میں جب اس وقت کے ملک کے صدر غلام اسحاق خان نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا اور اسمبلی تحلیل کرکے آئین کے مطابق تین ماہ میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنس عدالتوں میں دائر کئے گئے تھے۔ بے نظیر حکومت کو صرف 18 ماہ کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے بے نظیر بھٹو کی قیادت میں اکتوبر 1990 ء میں الیکشن لڑا لیکن پیپلز پارٹی شکست کھا گئی۔ نوازشریف ملک کے نئے وزیراعظم بن گے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ان انتخابات کے نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور الزام لگایا کہ ایوان صدر میں قائم ( CELL) سیل ہیں جس کے سربراہ ایک لیفٹیننٹ جنرل نے جعلی انتخابی نتائج تیار کئے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے ان انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے بارے میں ایک کتابچہ HOW THE ELECTION WAS STOLEN بھی شائع کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب نواز شریف کی حکومت اور اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کے درمیان کشمکش شروع ہوچکی تھی اور بے نظیر بھٹو نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز شریف حکومت کے خلاف 16 نومبر 1992ء کو ایک لانگ مارچ شروع کیا- اس لانگ مارچ کے دوران پیپلز پارٹی کارکنوں نے ’’گو بابا گو‘‘ کا مشہور نعرہ بھی صدر غلام اسحقٰ خاں اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متعارف کروایا۔ بظاہر یہ لانگ مارچ ناکام ہو گیا تھا لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر غلام اسحقٰ خاں نے نواز شریف حکومت کو بھی برطرف کر دیا۔

صدر اسحق کے اس فیصلہ کے خلاف نواز شریف نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا۔ 26 مئی 1993 ء کو نواز شریف حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات پر بحال کیا گیا اور اسی سال 16 جولائی 1993ء کو بے نظیر بھٹو شہید نے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کیا۔ تاہم اس مرتبہ اُنہیں اسلام آباد خاردار تاروں سے بند ملا- انہی دنوں فوج کے سربراہ جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے اور جنرل وحید کاکڑ کو نیا آرمی چیف بنا دیا گیا تھا۔ اس صورت حال میں فوجی سربراہ جنرل وحید کاکڑ نے صدر اسحاق اور وزیرِ اعظم نواز شریف دونوں کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔

جماعت اسلامی کو اسلام آباد میں ہنگامہ خیز مارچ کرنے کے لئے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔جماعت اسلامی کے پرجوش کارکنوں کی پولیس کے ہاتھوں پٹائی اور کارکنوں کے ہاتھوں پولیس کی پٹائی کے کئی عینی شاہدین آج بھی ان مظاہروں کو بھول نہیں پائے- جماعت اسلامی نے پہلا مارچ ستمبر 1996ء میں قاضی حسین احمد کی قیادت میں ملین مارچ کی صورت میں کیا۔ جس کا مقصد اس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ اسلام آباد پولیس نے مارچ کے شرکا کو 3 روز تک آب پارہ کے قریب روکے رکھا۔ یہ وہ پہلا موقع تھا جب اسلام آباد کے مکینوں نے آنسو گیس سے مکمل آشنائی حاصل کی اور اس دھرنے کے دوران آب پارہ مارکیٹ کے قریب گھروں میں شیل گرتے رہے۔جماعت اسلامی کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا اور دھرنے کے تیسرے روز مظاہرین کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے موجودہ ڈی چوک تک جانے کی اجازت دی گئی۔جماعت اسلامی کے کارکنان نے وہیں نماز ادا کی اور سلام پھیرنے کے ساتھ ہی ہوا میں آنسو گیس کے شیل چلنے لگے۔ لیکن پارلیمنٹ ہاؤس تک پہنچنے کا دعویٰ پورا کرنے کے بعد جماعت اسلامی کے کارکن شام تک منتشر ہوگئے۔بے نظیر بھٹو شہید کی دوسری حکومت کو قاضی حسین احمد کا ملین مارچ لے اڑا۔ جماعت اسلامی کے اس ملین مارچ کے پیچھے میاں نواز شریف کی صدر فاروق لغاری اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہو چکی مصالحت کارفرما تھی۔ یہ مصالحت نواز شریف کی طرف سے چوٹی زیریں ڈیرہ غازی خاں میں صدر فاروق لغاری کے خلاف کئے گئے سخت احتجاج کے بعد جنرل حمید گل کی کوششوں کی وجہ سے ہوئی تھی۔ فاروق لغاری اس احتجاج سے دباؤ میں تھے اور انہیں پیپلز پارٹی سے شکایت تھی کہ اُس نے نواز شریف کی طرف سے اُن کے خلاف ہونے والے احتجاج کو روکنے کی منصوبہ بندی نہیں کی۔ نواز شریف سے صلح ہونے کے بعد جماعت اسلامی کے اس ملین مارچ کو عوامی ردعمل سمجھتے ہوئے فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کردیا۔

جنرل مشرف کے دور حکومت میں 9 مارچ 2007ء کو اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو عہدے سے ہٹائے جانے پر وکلاء نے عدلیہ کی بحالی کے لئے تحریک چلائی۔ تحریک کی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج شروع ہوا اور پھر جسٹس افتخار چوہدری، وکلاء رہنماؤں اعتزاز حسن، منیر اے ملک اور علی احمد کرد کی قیادت میں جون 2008 ء میں پہلا لانگ مارچ کیا گیا۔ جو باآسانی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ لیکن کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔ مارچ 2009ء میں عدلیہ بحالی تحریک کے سرخیل نواز شریف تھے جنہوں نے افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججز کی بحالی کے لئے وکیلوں کی تنظیموں، پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن (ذاتی حیثیت میں) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کےہمراہ لانگ مارچ کا آغاز کیا۔ لانگ مارچ کی صورت میں یہ ریلی ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچی تھی کہ یوسف رضا گیلانی کی پیپلز پارٹی حکومت نے صدر آصف زارداری کی مخالٖفت کے باوجود بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کا اعلان کردیا-

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے 2013 ء میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کیا۔17 جنوری کو اسلام آباد کی سخت سردی میں 4 روز تک جاری رہنے والے دھرنے کا اختتام حکومت اور مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات پر ختم ہوا۔ پیپلز پارٹی حکومت نے اس سے نمٹنے کے لئے سیاسی حکمت عملی اپنائی۔ اس نے پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں کا تعاون حاصل کیا اور انہیں علامہ طاہر القادری سے بات چیت کی ذمہ داری سونپی۔ ان مزاکرات کے نتیجہ میں لانگ مارچ میں شریک مرد وخواتین کو ‘فتح’ کی نوید سنائی گئی جس میں مطالبات تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا اور تمام مظاہرین پُرامن طور پر منتشر ہوگئے۔

عمران خان نے 14 اگست 2014ء کو نون لیگ کی حکومت کے خلاف انتخابی نتائج دھاندلی کے الزام لانگ مارچ کیا، لاہور سے اسلام آباد تک کا یہ لانگ مارچ سیاسی ریلی میں بدلا، عمران خان نے جگہ جگہ شرکاء سے خطاب کیا، مختلف شہروں اورقصبوں سے قافلے عمران خان کے کاررواں میں شامل ہوتے گئے۔ عمران خان اسلام آباد پہنچے اور ڈی چوک پر دھرنا دے ڈالا، جو ملکی تاریخ کا طویل ترین دھرنا ثابت ہوا اور آرمی پبلک اسکول کے دہشت گرد حملے کے بعد قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان نے یہ دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔

انہی دنوں طاہر القادری بھی حکومت کے خلاف شہدائے ماڈل ٹاؤن کے قصاص اور انصاف کے لئے ریلی نکال کر اسلام آباد پہنچے تھے, جہاں دونوں دھرنوں کا انضمام بھی ہوا۔ ہزاروں کی تعداد میں پولیس، ایف سی اور کنٹینرز کی دیواریں، لیکن سب رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے عمران خان اور طاہر القادری 20 اگست کو ریڈ زون میں داخل ہوگئے۔ اس دوران حکومت نے تمام فورس کو پیچھے ہٹا لیا۔ اس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے 18 دسمبر تک ایک طویل دھرنا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے گیٹ پر دھوئے ہوئے کپڑے سکھانے کے لئے لٹکائے گئے۔ ڈی چوک میں جلیبی کی دکانیں بھی کھلیں، ڈی جے بٹ کے ترانے بھی چلے۔ سول نا فرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ عمران خاں نے اپنے بجلی اور گیس کے بل نکال کر آگ لگادی اور عوام کو یہ بل ادا نہ کرنے کے لئے نصیحت کی مگر خود بنی گالہ محل کے بجلی، گیس کے بل ادا کر دئیے۔ دھرنے کے شرکا نے پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی طرف مارچ بھی کیا۔ پی ٹی وی اور ریڈیو کی عمارت پر قبضہ بھی کیا گیا۔ آنسو گیس کی برسات ہوئی، ہزاروں شیل فائر کئے گئے لیکن اس موقع پر پارلیمنٹ میں موجود تمام اپوزیشن جماعتیں حکومت کے ساتھ کھڑی ہو گئیں, جس کی وجہ سے “ایمپائیر” کی انگلی کھڑی نہ ہو سکی اور بالاخر 70 دن کے بعد طاہر القادری اور 126 دن بعد عمران خان بھی دھرنا ختم کر کے روانہ ہوگئے۔

نومبر 2017 ء میں مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی اور نواز شریف وزارت عظمیٰ کا منصب عدالت کی طرف سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد چھوڑ چکے تھے۔ ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیرِ اعظم تھے۔ انتخابی فارم میں تبدیلی کے خلاف اور توہین مذہب کا نعرہ لگا کر تحریک لبیک جیسی غیر معروف دینی جماعت نے اسلام آباد کا رُخ کیا اور راولپنڈی اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد چوک کے مقام پر دھرنا دیا۔ 22 روز تک جاری رہنے والے اس دھرنے کی وجہ سے جڑواں شہروں کے درمیان سفر کرنے والے لاکھوں شہری شدید مشکلات کا شکار ہوئے۔ روزانہ فیض آباد میں مختلف ججز اور حکومت کو گالیاں دی جاتی رہیں۔ جس کے بعد وفاقی پولیس نے ایکشن شروع کیا اور 100سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ بعد ازاں بات مذاکرات پر آکر رُکی اور اس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد کے استعفے کے بعد موجودہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کے بطور ضامن دستخط کے ساتھ خادم رضوی کا یہ دھرنا کامیابی حاصل کرنے کے بعد اختتام پذیر ہوا-

ان تمام لانگ مارچ دھرنوں کی تاریخ کی روشنی میں مولانا فضل الرحمنٰ کے دھرنے سے نمٹنے کے حوالہ سے سید عامر حسینی کہتے ہیں کہ عمران خان کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ پہلی بار بڑے سیریس چیلنج کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ ایک نئی پارٹی کے دعوے دار ہیں لیکن اتنے بڑے بحران میں انھوں نے اب تک اپنی سنٹرل کمیٹی کا اجلاس تک نہ بُلایا جہاں وہ اس بحران سے نمٹنے کے لئے تجویز لے سکتے لیکن وہ تو کوئی مؤقف اپنانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خاں کو معلوم ہی نہیں کہ اس طرح کے احتجاجی مظاہروں، لانگ مارچ اور دھرنے روکنے کے لئے عوام اور پارلیمنٹ سے مدد لی جاتی ہے۔ جہاں سے لوگ اور پارٹیاں اپنا دستِ تعاون حکومت کی طرف بڑھاتی ہیں۔ یہاں کیا ہو رہا ہے کہ پارلیمنٹ سے عمران خاں کی حمایت میں ایک بھی پارٹی نہیں نکلی بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کو سامنے آ کر اپنی غیر جانبداری کا اعلان کرنا پڑا۔

مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اس حوالہ سے بھی منفرد ہے کہ اس کے شرکاء نئی روایات قائم کر رہے ہیں جنہیں اپنانا چاہئے- احتجاج چل رہا ہے, میٹرو بس بھی چل رہی ہے, ایمبولینس بھی چل رہی ہے, صفائی بھی چل رہی ہے، روڈ کھلے ہیں، سفر ہو رہا ہے، صفائیاں جاری ہیں, کھیل کود بھی ہو رہی ہے- یہ “جاہل مولوی” اس سوسائٹی کو احتجاج کا نیا رخ سمجھا رہے ہیں- بعد میں آنے والے لوگ انہی کے نقش قدم پر چلنا سیکھیں گے تو معاشرہ بہتری کی طرف جائے گا- کیا یہ کم کامیابی ہے کہ سنہء کے 2014ء کے دھرنے کے شرکاء دھرنا کے مخلوط ڈانس, خواتین اور مردوں کی م کس گیدرنگ میں خواتین سے ہراسانی کے لاتعداد واقعات, سپریم کورٹ کے جنگلوں پر دھوئی ہوئی شلواریں لٹکانے, پی ٹی وی پر حملہ کرنے, دھرنے کی جگہ ہر گند ڈالنے حتیٰ کہ اے ٹی ایم مشینوں کے کمروں کو واش روم کے لئے استعمال کرنے والوں کے مقابلہ میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے والے شرکاء فارغ اوقات میں فٹ بال, کرکٹ, ورزش اور دوسری کھیلیں کھیلتے ہیں, درود کی محفلیں سجاتے ہیں, جھولا جھولتے ہیں, کسی ایک ساتھی کو فضا میں اچھالتے ہیں, صفائی کرتے ہیں اور باجماعت نماز ادا کرتے ہیں- اگر سیاسی شعور کی یہ کامیابی نہیں تو اور کسے کامیابی کہتے ہیں؟۔

مولانا فضل الرحمان نے کل جو تقریر کی اس سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ وہ ایک بڑے اتفاق رائے پر مبنی فیصلے کے ساتھ جانا چاہتے ہیں- چاہے وہ اُن کی اپنی اور اُن کے پیروکاروں کی خواہش کے عین مطابق نہ ہو- مولانا اچھی طرح سے سمجھ گئے ہیں کہ حکومت کی خواہش ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتوں کے درمیان جوتیوں میں دال بٹے اور مولانا میدان میں سولو فلائیٹ کرنے کی غلطی کربیٹھیں- اسے ہانکا لگانا کہتے ہیں- کاؤنٹر سٹریٹیجی کے طور پر مولانا نے آگے کا لائحہ عمل طے کرنے کے لئے اے پی سی بلانے کا فیصلہ کیا ہے- اس لئے اگر شرکاء آزادی مارچ اور 2/3 دنوں کے لئے پشاور موڑ پر جمے رہیں تو اس سے مولانا اور آزادی مارچ میں شریک لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا- سچی بات تو یہ ہے کہ مولانا کی طرف سے اپوزیشن جماعتوں کے متفقہ فیصلوں کی روشنی میں اگلا لائحہ عمل بنانے کا فیصلہ حکومتی کیمپ کے لئے مایوس کُن ہے- اسی لئے مولانا کی تقریر کو لے کر کافی شور مچایا جارہا ہے-لیکن گیند اب بھی اپوزیشن کی کورٹ میں ہے یہ اُسے کس جگہ کھیلے گی-

پس تحریر نوٹ:-

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کالم کی تیاری میں اردو وائیس آف امریکہ کی خبروں, محترم قانون فہم اور سید عامر الحسینی کے ارشادات سے مدد لی گئی ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply