کشمیری کوکھ۔۔۔رمشا تبسم

میں وادیِ کشمیر کی کوکھ ہوں۔۔وہ کوکھ جس میں صرف کشمیر کے بچے پیدا ہونے تک نہیں رہتے بلکہ پیدا ہو کر بھی میں ان کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہوں۔۔وہ کوکھ جو ان بچوں کو محفوظ دیکھنے کو ترس رہی ہے۔۔وہ کوکھ جس میں اب صرف بارود ہی بارود بھر دیا گیا ہے۔۔

یہ درندے مجھے پتھر کی کوکھ بنانے کی کوشش میں ہیں۔تاکہ اس کوکھ کو کینسر زدہ بنا کر اس کو بانجھ کر سکیں۔مگر یہ پتھر یہ بارود مجھے کینسر زدہ نہیں بنا پائیں گے۔ بلکہ یہی پتھر میرا بچہ بچہ اپنے نازک ہاتھوں میں ہر وقت تھامے ہوئے ہوتا ہے۔جنم لینے سے پہلے ہی شہید ہونے کی خواہش لئے ہوئے ہے۔میرے بچے جانتے ہیں ان کو یا تو جنم لینےسے پہلے ہی شہید کر دیا جائے گا۔ یا جنم لینے کے بعد شہید کر دیا جائے گا۔پھر بھی وہ پیدا ہونا چاہتے ہیں۔وہ بارود کی فضا میں آنکھ کھولنا چاہتے ہیں۔۔جہاں بارود سرسبز درختوں کو اب جلا چکا ہے۔جہاں بارود دریاؤں میں زہر گھول چکا ہے۔جہاں بارود کئی آنکھوں کے سپنے اور کئی معصوم دِلوں کی خواہشوں کو نگل چکا ہے ۔اس کوکھ میں پرورش پاتے ننھے وجود زمین پر رینگنے والے ان بزدل درندوں سے مقابلہ کرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔پیدا ہوتے ان کے حلق سے نکلنے والی پہلی آواز انکی طرف سے دشمنوں کے لئے للکار ہوتی ہے۔انکی آوازیں, آزادی کے نعرے بن کر ان درندوں کو ہر وقت بے تاب رکھتی ہیں۔ اور یہ بارود اٹھائے جانور ان معصوموں کے ہاتھ میں پکڑے پتھروں سے بھی ڈر کر بھاگنے لگتے ہیں۔یہ پیدا ہونے والی نسل کا بچہ بچہ جانتا ہے جس خون میں نہا کر وہ جنم لیتا ہے اس خون کی قیمت چکانے کو ان کو ہر وقت اپنا خون قربان کرنے کو تیار رہنا پڑے گا کیونکہ کشمیرکی کوکھ ہر صورت میں لہو لہان ہی ہو گی۔

سنا ہے بہت سستا  ہے خون وہاں کا
اک بستی جسے لوگ کشمیر کہتے ہیں

کشمیر کی زمین پر اگنے والے سرسبز پودے رنگ برنگے پھول اب صرف خون کا رنگ لئے ہوئے ہیں۔
اس کوکھ میں آئے دن بھارتی درندے بچوں کو بھون رہے ہیں۔کبھی حاملہ  خواتین  کو گولیوں سے چھلنی کرتے ہیں۔کبھی ننھے قدموں کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر بھاری اسلحہ سے حملہ آور ہوتے ہیں۔کبھی ان درندوں کو اپنی طرف دیکھتی میرے بچوں کی شیر کی نگاہ خوف میں مبتلا کرتی ہے کے یہ ان آنکھوں کو ہی گولیوں سے بھون دیتے ہیں۔

میری کوکھ میں اکثر یہ درندے اپنی درندگی دکھاتے اور ہوس کا بیج بوتے ہیں۔میری عزتوں کی ،حیا کی چادر تار تار کرتے ہیں۔۔  میرے بچوں کے خوبصورت  وجود کو خون میں نہلاتے ہیں۔ہر گھرمیں ماتم ہوتا ہے ہر گھر سے لاشیں اٹھتی ہیں۔ہر ماں کی آنکھ نم ہے۔ہر باپ کے کندھے جوان بچوں کے  لاشے  اٹھا کر جھکتے جا رہے ہیں۔دلہنیں لال چوڑیوں اور لال جوڑے سے مرحوم ہو کر سفید لباس میں ملبوس ہیں۔دینے کو دلاسے کم ہیں،بہنے کو آنسو کم ہیں، چیخنے کو آواز بھی نہیں،سسکنے کو سسکیاں بھی ختم ہیں  اور اب تو پہنانے کو کفن بھی کم ہے۔جنازے اٹھانے کو کندھے بھی کم ہیں۔دفنانے کو زمین بھی کم ہے،مگر حوصلے بلند ہیں۔درندوں کو آگے جھکانے کو ہمت بلند ہے۔ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ان درندوں کو سر سے پاؤں تک چیر دینے کا عزم بلند ہے۔۔

یہ زمانہ صرف وقتی طور پر ہمارا دکھ مناتا ہے۔ان کو مستقل میرے خون میں لت پت بچے ,درندگی سہتی عورتیں, جبر سہتے نوجوان, اجڑے سہاگ ,اجڑے آنگن کا کبھی دیر تک دکھ نہیں ہوتا، نہ کوئی ہماری مدد کو آگے قدم بڑھاتا ہے۔یہ بزدل لوگ   نہ ہمارا  سہارا بن سکتے ہیں نہ کبھی بنیں  گے ،ہر کوئی شہرت کا بھوکا ہے۔جس کو جتنی ضرورت ہو میرے بچوں پر ہونے والے ظلم کا اتنا ہی چرچا کرتا ہے۔اور اس وقت تک ہی کرتا ہے جب تک ان کا اپنا دل اُکتا نہ جائے یا جب تک ان کو دکھاوا کرنے میں فائدہ ہو۔

حقیقت میں نہ کوئی ہمارا سہارا بنتا ہے نہ بننا چاہتا ہے۔کسی کو اس درد کا انداذہ نہیں ،جب معصوم بچوں کے چہروں پر گولیاں ماری جاتی ہیں۔جب عورتوں کو ان کے گھر والوں کے سامنے ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔جب سہاگنیں چوڑیاں توڑتی ہیں۔جب مائیں بچوں کی  لاشیں دیکھ کر کلیجے پر ہاتھ رکھتی ہیں۔جب باپ اپنے جوان بچوں کی  لاشیں لئے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ چلتے ہیں۔جب بہنیں بھائیوں کے آخری دیدار کو ترستی ہیں۔جب چھ چھ مہینے کے بچوں کے سینوں میں گولیاں لگتی ہیں۔ قیامت کا ایک دن مقرر ہے مگر یہاں تو روز قیامت برپا ہے۔یہ جنگ کسی کی جنگ نہیں۔اس جنگ پر ہر زبان بند ہے۔صرف باتوں کی حد تک لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ہر اسلحہ ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ایٹمی طاقتیں گھبرا گئی  ہیں۔

اب یہاں رنگِ بہاراں ہے جوانوں کا لہو
سرخ رُو ہیں وادیِ  کشمیر میں کوہ و دمن
سر برہنہ بیٹیوں کے پیرہن بکھرے ہوئے
مرثیہ خواں ہر در و دیوار پر مرغِ چمن(جاوید احمد)

مگر یہ کوکھ اور اس سے جنم لینے والے نہیں گبھراتے۔کشمیر کی کوکھ بزدل نہیں۔یہ جنگ میری کوکھ کی جنگ ہے۔اس کوکھ سے جنم لیتے بچوں کی جنگ ہے۔اس کوکھ سے پھوٹتی ہر کلی آزادی کی خاطر مہکنا اور ٹوٹنا جانتی ہے۔آزادی کا چراغ روشن کرنےکے لئے آخری دم تک لڑنا جانتے ہیں۔

یہ کوکھ نہ کبھی پتھر کی تھی نہ کبھی پتھر کی ہو گی۔یہ ہیرے پیدا کرتی تھی اور ہیرے پیدا کرتی رہے گی۔ایک دن یہ ہیرے ان درندوں کی زندگیوں کو بجھا کر آفتاب سے اونچے ہو کرچمکیں  گے۔انکی چمک کی تاب لانا ان درندوں کے بس میں نہ ہو گا۔ان کی چمک انکی آنکھوں کو اندھا کر دے گی۔ان ہیروں کی بہادری ان کوئلوں کو ریزہ ریزہ کر دے گی۔ان کی چمک ان بزدل درندوں کے غرور کو ان کے اسلحے  سمیت زمین بوس کر دے گی۔

ہاں۔۔کشمیری کوکھ ایک دن بارود کی بُو سے پاک ہو گی۔ایک دن یہاں بھی زندگی  پاک فضا میں سانس لے گی۔پیدا ہوتا ہر بچہ سر پر کفن نہیں باندھے گا بلکہ خوشیوں کو بانہیں پھیلا کر سینے سے لگائے گا۔ایک دن میرے ہیرے صرف چمکتے  ہوئے ملیں  گے اور ان کو بجھانے کے خواب دیکھنے اور کوشش کرنے والے نیست و نابود ہو جائیں گے۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری جنگ ہم لڑ کر جیتیں گے۔یہ جنگ صرف کشمیری کوکھ کی جنگ ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کشمیری کوکھ۔۔۔رمشا تبسم

  1. بسم اللہ الرحمن الرحیم
    اسلام علیکم !
    میں وادیِ کشمیر کی کوکھ ہوں۔۔وہ کوکھ جس میں صرف کشمیر کے بچے پیدا ہونے تک نہیں رہتے بلکہ پیدا ہو کر بھی میں ان کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہوں۔۔وہ کوکھ جو ان بچوں کو محفوظ دیکھنے کو ترس رہی ہے۔۔وہ کوکھ جس میں اب صرف بارود ہی بارود بھر دیا گیا ہے۔۔
    دکھ وتکلیف سے سنی ہوئی تحریر ۔۔۔اک اک لفظ سے دکھ لہو کی طرح ٹپکتا محسوس ہوا ۔۔۔۔ دل میں اترتی ہوئی تحریر ۔۔۔کشمیریوں کے درد پہ آنکھوں سے آنسو جاری کر دینے والی تحریر ۔۔۔ شاید ان کے درد کو اس سے بہتر لفظوں میں بیاں نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔ اللہ رب العزت ان کا حامی و ناصر رہے۔۔۔ اور ان کے دشمنوں کو نیست و نابود کرے آمین یا رب العالمین

Leave a Reply