کس کس کو ہے الرجیءِ “کِس”۔۔۔۔۔علی اختر

یہ غالباً سن 2002کی بات ہے ۔ کراچی میں اس وقت سی ویو سے آگے پکی سڑک صرف ویلیج ریسٹورنٹ تک ہوا کرتی تھی اس سے آگے کی سڑک پختہ نہ تھی اور نہ ہی کوئی اسٹریٹ لائٹ موجود تھی ۔ اکثر ہفتہ کی شام ہم اپنے ایک دوست کی کھٹارا سوزوکی ایف ایکس کار میں اس سڑک پر سفر کرتے ۔ آگے دو دریا پر رکتے، جہاں مچھلی کے شکاری مٹی کے تیل کی لالٹین جلائے ہاتھوں میں ڈوریں لیے بیٹھے ہوتے ۔ کبھی کبھی وہاں ہم بھی سمندر میں کانٹا ڈال کر قسمت آزماتے اور پھر صبح واپس آجاتے ۔ مقصد محض مہم جوئی  ہواکرتا ۔

اندھیری، سنسان ، کچی سڑک ، ایک جانب پُر سکون سمندر کی لہریں اور دوسری جانب تاحد ِنظر بیابان ۔ ہم شہر کی رونق میں رہنے والوں کا دل کانپ رہا ہوتا ۔ اس پرہم گاڑی کی لائٹس آف کر کے ماحول اور بھی خوفناک کرتے ۔ کبھی سمندر کے ساتھ بنی چار فٹ اونچی دیوار کے ساتھ گاڑی پارک کر کے منڈیر پر بیٹھ بھی جاتے اور خوف کا پورا پورا مزہ لیتے ۔ لڑکپن کے دن ایسے ہی ہوتے ہیں ۔

خیر ایسی ہی ایک رات کی بات ہے۔ ۔ ہم نے اس سڑک کے کنارے گاڑی روکی اور ساحل کے ساتھ والی منڈیر پر کھڑے ہوئے سمندر کا نظارہ کرنے لگے ۔ سامنے چاندنی میں نہاتی سمندر کی لہریں تھی جن کا مدھم مدھم سا شور ماحول کو مزید پُراسرار بنا رہا تھا کہ اچانک اس ویرانے میں چوڑیوں کی کھنک کی مدھم سی آواز سنائی دی ۔ سبھی دوستوں کے کان کھڑے ہو گئے ۔ اگلی بار کی آواز کچھ اور واضح تھی ۔ آواز کی جانب دیکھا تو منڈیر کے ساتھ پڑے پتھروں کے درمیان ایک نسوانی ہیولا بلند ہوتا محسوس ہوا ۔ لیجیے صاحب خوف کا مزہ لینے والے طرم خانوں کااوسان کے ساتھ اور بہت کچھ خطا ہوتے ہوتے بچا۔ ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ  دوسرا ہیولا بھی ساتھ ہی بلند ہوا ۔ یہ ایک مرد کا تھا ۔ پھر دونوں سائے تیزی سے ہم سے کچھ فاصلے پر منڈیر کی جانب آئے اور پھر ایک موٹر سائیکل اسٹارٹ ہونے کی آواز آئی تو ہمیں سمجھ آیا کہ  یہ کیا معاملہ ہے ۔ خیر اب دیر ہوچکی تھی اور پریمی جوڑا ہماری آہٹ پا کر فرار ہو چکا تھا ۔

دیکھا جائے تو مذکورہ بالا واقعے میں دو پیار کرنے والوں نے اس ظالم سماج سے بہت دور بوس و کنار دغیرہ کے لیے نسبتاً غیر آباد اور خوفناک سی جگہ کا انتخاب کیا کہ اب یہاں تو کوئی نہیں آسکتا لیکن وہ ظالم سماج ہی کیا جو  آپکو تنہا چھوڑ دے۔۔ ایک دو نہیں پانچ نمائندے یہاں بھی بھیج دیے ۔ وہ تو ہم نے بچپن میں چڑیلوں ، پچھل پیریوں کی کہانیاں سنی ہوئی تھیں تو انکی بچت ہو گئی،ورنہ تو چھاپہ پڑ چکا تھا اور پھر “ان گندے کاموں کے لیے یہی ویران جگہ ملی تھی ” والا ڈائیلاگ ہوتا اور پٹائی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ۔۔

محبت ساری دنیا میں لوگ کرتے ہیں اور اسکا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ اب الگ الگ کلچرز میں آنکھیں چار ہونا، انسیت، دوستی ، محبت وغیرہ کے الگ الگ طور طریقے رائج ہیں ۔ بعض سادہ تو بعض بیحد دلچسپ ۔ مثلاًتارڑ صاحب نے اپنے کسی سفر نامے میں غالباً اسپین کے بارے میں لکھا جہاں گھروں میں بلی کے آنے جانے کے راستے کے طور پر ایک سوراخ زمین کے قریب بنا دیا جاتا ہے۔ اس سوراخ سے بوقت ضرورت گھر کی مکین، مہ جبینوں و ماہ پاراوں سے انکے عاشق حضرات زمین پر لیٹے سوراخ سے اندر جھانکتے اظہار عشق بھی فرما تے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ گھر میں رہنے والی حسینہ کو اگر عاشق پسند ہو تو وہ باہر آکر اسے اٹھاتی ہے ، کپڑے جھاڑتی ہے ۔ جواباً اظہار محبت وغیرہ کرتی ہے اور بالفرض عاشق پسند نہ آیا تو جواباً  سوراخ میں خونخوار سی بھوکی بلی چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے عاشق سے جان چھڑا لیتی ہے ۔

غرض کہیں سرخ گلاب دے کر ، میٹھی یا پھیکی کافی پلا کر ، انگوٹھی وغیرہ دے کر اظہار کیا جاتا ہے تو کہیں صرف آئی  لو یو کہنا ہی کافی ہو جاتا ہے ۔ وہیں ہمارا خطہ اس معاملے میں سب سے جداگانہ طریق اپناتا ہے ۔ آپ پیدا ہوئے ، اسکول جاتے ہیں ، کھیلتے ہیں ، نوکری کرتے ہیں ۔ کسی کو کوئی مسئلہ  نہیں ۔ سب آپکی مدد کر رہے ہیں ۔ بس محبت کر لیں ۔ اب سب پر فرض ہے کہ اس محبت کو ناکام بنا دیا جائے ۔ بات بوس وکنار کی نہیں ، پرپوز کرنے کی بھی نہیں صرف آنکھیں چار ہونے کی خبر مل جائے کافی ہے ۔ گلی کے نکڑ پر کھڑے آوارہ گردی کرتے لڑکوں سے لے کر آتے جاتے سلام کے جواب میں “جیتے رہو بیٹا ” کی دعا دیتی بوڑھی بیوہ خالہ جان تک سبھی مخبر ، رقیب ، چھاتہ بردار وغیرہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔

ابھی چند سال پہلے ہی کی بات ہے ۔ ایک نجی یونیورسٹی کسی کام سےجانا ہوا ۔ کام  ختم کرکے نکلنے کے لیے کاریڈور میں پہنچا ہی تھا کے اچانک سامنے موجود چھت کی جانب جاتی سیڑھیوں پر سکیورٹی گارڈ کو بندوق لوڈ کرکے تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے دیکھا ۔ دل میں خیال گزرا کہ یقیناً چھت کے راستے دہشت گرد پہنچ چکے ہیں ۔ ابھی وہاں سے بھاگنے کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ گارڈ موصوف گن پوائنٹ پر دوپٹے  سےمنہ چھپائے ایک فربہ اندام دوشیزہ اور ساتھ میں ایک کمزور سے لڑکے کو لیے نیچے آتا دکھائی دیا ۔ استفسار کیا تو پتا چلا کہ وہی بوس وکنار کا معاملہ تھا ۔ سامنے لان میں مجھے وہ رقیب رو سیاہ بھی چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے دوستوں سے مبارکباد وصول کرتا نظر آیا جس  نےمخبری کے فرائض انجام دیئے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بحر حال اس خطہ ارض بلکہ تمام ہی معاشروں میں کیا معیوب ہے اور کیا نہیں، بتایا نہیں جاتا بلکہ وہاں کے باسی بائی برتھ جانتے ہیں کہ کب کس کے سامنے کیا کرنا آداب کے منافی اور معیوب اور کیا آداب کے مطابق ہے۔ اب تازہ ترین وائرل ہونے والی وڈیو میں شوبز سے تعلق رکھنے والے دونوں افراد یعنی فاعل و مفعول سوئٹزر لینڈ سے تو امپورٹ ہوئے نہیں کہ یہاں کے کلچر سے ناواقف ہوں بلکہ ہماری ناقص معلومات کے مطابق اسی گرم علاقے کے جاندار ہیں تو امید کی جاتی ہے کہ کیمرے کے سامنے کی جانی والی یہ حرکت غیر اختیاری اور جذباتی نہیں بلکہ پری پلان اور پبلسٹی سٹنٹ ہے اور کوئی نئی حرکت نہیں ۔ ماضی میں بھی مختلف اداکاروں و اداکاراؤں کی جانب سے اپنی جھوٹ موٹ کی شادیوں و طلاقوں کی اطلاعات پھیلائی جاتی تھیں جو فلمی رسالوں کی زینت بنتیں یا پھر ایوننگ اسپیشل میں ہوٹل پلازہ سے رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والی “تتلیوں” کی بڑی سرخی کے بعد چھوٹی سرخی میں جگہ پاتیں ۔ ان خبروں کی بھی بعد ازاں تردید ہو جاتی کہ اصل مدعا خبروں میں رہنا ہوتا تھا اور بس ۔ اب فلمی رسالوں کے زمانے تو لد گئے سو اس دور میں الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا ہی سہی۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply