سارا شہر کررہا ہے۔۔۔ بلال شوکت آزاد

میرے سخت اور شدید تبصرے پڑھ کر ہڑتالیوں کے خلاف اور ان کی اصلیت سن کر  کل میرےکچھ “مہان دانشور” احباب کو ہڑتال میں ملک کی بقاء نظر آرہی تھی اور کچھ “انسانیت” کے علمبرداروں کو محبت اور انسانیت کا گردن توڑ بخار ہورہا تھا۔

لیں پھر ذرا دل تھام کر اور دیدے پھاڑ کر یہ سنگین جرم اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور کانوں کے پردوں میں لرزش محسوس کریں باتیں سن کر۔

یہ ایک لو لیول تاجر ہے فروٹ کا ،جسے ہم پتھارے دار بھی کہتے ہیں, صاحب کچی پکی لیچی سو روپے کلو کے حساب سے لیکر اس پر وہ پینٹ کررہے ہیں، بیچنے سے قبل جو اس   قدر زہرملا یا ہےکہ اس سے کینسر کے خلیات ایکٹو ہوتے ہیں, اور پھر لالو لال لیچی ساڑھے تین سو روپے فروخت کررہے  ہیں  وہ بھی ڈھٹائی سے۔

یہ ویڈیو دو  ماہ پرانی ہے پر آج یہ صاحب بھی ہڑتال گروپ میں شریک ہوئے ہونگے اور حکومت کو سو کوسنے دیکر اپنا رانجھا راضی کیا ہوگا۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=358268108431094&id=100027437225003

مجھے عمران سے سو قسم کے اختلاف ہونگے اور ہوسکتے ہیں پر الحمداللہ بغض اور نفرت نہیں، لہذا اس کی منفی پالیسیوں پر اعتراضات کے ساتھ مثبت پالیسیوں پر بھی نظر ہے اور صرف نظر ہی نہیں بلکہ انکی قدر بھی ہے۔

آپ کا ضمیر مردہ نہیں اگر اس چھوٹے تاجر کی طرح جو صرف فراڈ ہی نہیں کررہا بلکہ ناجائز منافع خوری بھی کررہاہے کہ سوروپے والی لیچی زہریلا رنگ کرکے ساڑھے تین سو میں فروخت کررہا ہے تو بتائیں کیا آپ کو عمران کا ان جونکوں پر چلتا ڈنڈا غلط لگتا ہے؟

یہ تو ریکارڈ پر آگیا ہے پر ایسے لوگ ہمارے ارد گرد بہت موجود ہیں کیا آپ کو اب بھی ان سے ہمدردی اور عمران سے بغض ہے؟

اگر یہ لوگ رجسٹرڈ ہونگے اور ٹیکس نیٹ میں آئیں گے تو فائدہ کس کا ہوگا؟

جو ٹیکس آج تک ہم دیتے رہے اور دے رہےہیں, اور یہ زہر خورانی بھی کرتے رہے اور ناجائز پیسے بھی بطور منافع ادا کرتے رہے اس سے ہماری جان کیسے چھوٹے گی آخر؟

جب تک یہ لوگ چُھپے اور بچے رہیں گے تب تک ہم اور ہمارے بچے ان نادیدہ قاتلوں, ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے ہاتھوں جانی و مالی نقصان اٹھاتے رہیں گے۔

یہ سب حاجی اور الحاج اسی طرح چھوٹے سے بڑے تاجر اور بڑے تاجر سے مگرمچھ تاجر بنے ہیں جس طرح یہ مائی کا لعل تجارت کررہا ہے سرِ راہ۔

اسکی خود اعتمادی دیکھو کہ بیچ سڑک پر بیٹھ کر واردات کررہا ہے اور پوچھنے پر شرمندہ نہیں ہورہا بلکہ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرکے بول رہا کہ

“سارا شہر کررہا ہے تو میں کیوں نہ کروں؟”

“سارا شہر”, جی ہاں صاحبان یہ ہے فساد کی اصل جڑ کہ “سارا شہر کررہا ہے”۔

ہر بندہ ضمیر کو قید کرکے ایک دوسرے کو صرف لوٹ نہیں رہا بلکہ سلو پوائزن بھی دے رہا ہے،اور اس کے پاس اس کی وجہ یہ ہے کہ “سارا شہر کررہا ہے”۔

سارا شہر چوری کررہا ہے تو چوری جائز ہے؟

سارا شہر دہشتگردی کررہا ہے تو دہشتگردی جائز ہے؟

سارا شہر جھوٹ بول رہا ہے تو جھوٹ جائز ہے؟

سارا شہر زنا کررہا ہے تو زنا جائز ہے؟

سارا شہر غداری کررہا ہے تو غداری جائز ہے؟

سارا شہر قتل کررہا ہے تو قتل جائز ہے؟

سارا شہر اغوا کررہا ہے تو اغوا جائز ہے؟

سارا شہر گمراہی کررہا ہے تو گمراہی جائز ہے؟

سارا شہر امن تباہ کررہا ہے تو امن تباہ کرنا جائز ہے؟

سارا شہر غیبت کررہا ہے تو غیبت جائز ہے؟

سارا شہر شرک کررہا ہے تو شرک جائز ہے؟

سارا شہر بدعت کررہا ہے تو بدعت جائز ہے؟

سارا شہر غلط بات کررہا ہے تو غلط بات جائز ہے؟

سارا شہر لڑ مر رہا ہے تو لڑنا مرنا جائز ہے؟

سارا شہر ملک کے ٹکڑے کررہا ہے تو ملک کے ٹکڑے کرنا جائز ہے؟

سارا شہر بھیڑ چال چل رہا ہے تو بھیڑ چال چلنا جائز ہے؟

غرض سارا شہر بیشک ڈوب کر مر رہا ہے تو ڈوب کر مرنا جائز ہے؟

“سارا شہر کررہا ہے”

کیا یہی اصول ہے اب سے سارے زمانے کا؟

لیکن میں نے تو دیکھا ہے کہ۔۔۔

سارا شہر نیکی کررہا ہے تو نیکی جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

سارا شہر حب الوطنی کررہا ہے تو حب الوطنی جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

سارا شہر زنا سے بچ رہا ہے تو زنا سے بچنا جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

سارا شہر ٹیکس ادا کررہا ہے تو ٹیکس جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

سارا شہر تعامل مع الحکام کررہا ہے تو تعامل مع الکحام جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

سارا شہر وطن کا دفاع کررہا ہے تو وطن کا دفاع جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

سارا شہر حرمت رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کی بات کررہا ہے تو حرمت رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم کی بات جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

سارا شہر اللہ اللہ کررہا ہے تو اللہ اللہ کرنا جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

سارا شہر تعلیم حاصل کررہا ہے تو تعلیم حاصل کرنا جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

سارا شہر تبلیغ کررہا ہے تو تبلیغ جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

غرض یہ کہ سارا شہر ایمانداری برت رہا ہے تو ایمانداری برتنا جائز اور روا نہیں سارے شہر میں۔

لیکن صاحب سارا شہر اللہ کے عذاب کو دعوت دیگا تو مجھ پر بھی فرض ہے کہ اپنا دعوت نامہ اللہ کو ارسال کردوں کہ بھیج عذاب میں تو یہی کروں گا جو کر رہا ہوں کہ

“سارا شہر کررہا ہے”۔

جب تک یہ اصول زمانے میں موجود ہے کہ “سارا شہر کررہا ہے” تب تک انقلاب اور تبدیلی بس محض دیوانے کا خواب ہے کہ ہمیں قصور وار صرف حکمران اور مقتدر طبقہ ہی لگتا ہے جبکہ ہم جو “سارا شہر کررہا ہے” کے سنہری اصول کا پیچھا کرکے اعمال اور نوشتہِ دیوار کالی کررہے وہ ہمیں نظر نہیں آتی کیونکہ ہمارا ضمیر مردہ ہی نہیں اندھا بھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

چلو اب عقل کو ہاتھ مارو اور انسان بن کر اپنا اور اپنے بچوں کا دنیاوی و اخروی مستقبل سوچو اور حرام خوروں سے جان چھڑا کر تبدیلی کا راستہ ہموار کرو کہ یہ بھی اب سے “سارا شہر کررہا ہے”۔

 

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply