عورت مارچ،مخالفت کیوں؟۔۔ایم اے صبور ملک

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مامون رشید شیخ نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کی جانب سے عور ت مارچ کے حوالے سے دائر درخواست پرکیس نمٹاتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو عورت مارچ کی اجازت سے متعلق منتظمین کی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے،یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب پاکستان میں کسی بھی قسم کی شہری آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے کسی شخص یا تنظیم نے معزز عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہو،اس سے پیشتر عوامی اہمیت کے حامل کئی مقدمات میں شہری آزادی کو محدود کرنے یا ریاست کے باشندوں شہری حقوق سلب کرنے کے لئے ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے کہ جو بعد ازاں تاریخ کا حصہ تو بن گئے لیکن اپنے پیچھے ایک ایسا خلاپیدا کرگئے جو آج تک پُر نہ ہوسکا اور جس کی وجہ سے معاشرے میں کٹھ ملائیت کو فروغ ملا،شہریوں خصوصاً عورتوں کی آزادی محدود کردی گئی،پاکستان کی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے،دور آمریت میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق معطل ہوتے ہیں،لیکن سیم ظریفی تو ملاحظہ ہو،ہمارے ہاں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے جمہوریت نے بھی کوئی ایسی قابل ذکر مثال قائم نہیں کی،کہ جس پر ہم فخر کرسکیں،ہردور خواہ وہ جمہوری ہو یا آمریت حکمران طبقہ اپنا اُوپرکی گئی تنقید برداشت کرنے سے عاری رہا،یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں برداشت کا ماحول پیدا نہ ہوسکا،،اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے والا یا تو یہاں قتل کردیا گیا،اگر زندہ رہا تو محض ایک زندہ نعش کی مانند،بنیادی طور پر پاکستانی معاشرہ ایک کٹھ مذہبی معاشرہ ہے،جہاں نہ تو فکر کی آزادی ہے نہ ذکر کی،اس کام میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں زیادہ تیزی آئی جب محض اپنی آمریت کو قائم رکھنے کے لئے مذہبی اور لسانی کارڈ کھیلا گیا،اور اس کے بعد مولوی کا ادارہ ایسا مضبو ط ہوا کہ تفریح کے ہر مواقع،انسانی آزادی اور حریت کے ہر نئے دروازے،سوچ وفکر کے ہر نئے زاویے کی مولوی نے نہ صرف کھل کر مخالفت کی بلکہ جب تک مولوی کو حصہ بقدر جثہ نہ ملا،اُس وقت تک پاکستان میں عورت کی حکمرانی بھی جائز نہ تھی،ماضی میں مادر ملت پر کیا کچھ کیچڑ اُچھالا گیا،سیاسی اختلا فات اپنی جگہ لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو،کلثوم نواز،جمائمہ خان،ریحام خان،ملالہ یوسف زئی،شرمین عبید چنائے،اور بشری بی بی کے بارے میں کیا کچھ نہ بیان ہوا،اور اب عورت مارچ کو لے لیں،بندہ پوچھے آپکو کیا تکلیف ہے عورتوں کے مارچ سے؟عورتوں کا عالمی دن تو ہرسال8مارچ کو ہوتا ہے،جو 1909سے منایا جارہا ہے،پچھلے سال ایک این جی او کے زیر اہتمام اس دن کی مناسبت سے ایک عورت مارچ ہوا،جس کے شرکا نے جو کتبے اُٹھا رکھے تھے،ان پر درج عبارتوں پر ہمارے ہاں بڑی لے دے ہوئی اور سارا فساد کہہ لیں یا اصل مسئلہ یہی عبارتیں ہیں،جن کا غلط مطلب لے لیا گیا اور یار لوگ لگ گئے کام سے،نہ صرف مرد بلکہ مذہبی رحجانات رکھنے والی عورتوں نے بھی سوشل میڈیا،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر عورت مارچ والوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا،حتی کہ اسلام آباد کے مضافات میں واقع ایک مذہبی تعلیمی ادارے کی خواتین اساتذہ تو باقاعدہ کتبے اُٹھا کر باہر نکل آئیں،ایک اُستانی صاحبہ نے کتبہ اُٹھا رکھا تھا جس پر درج عبارت کے مطابق وہ خود تو گھر کی رانی ہیں اور عورت مارچ والی ساری کی ساری بدکردار،میرا قلم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اس کتبہ کی عبارت کو یہاں رقم کروں،میرا جسم میری مرضی کا میرے خیال میں ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت مارچ والے عورت کو فاحشہ بنانا چاہتے ہیں کہ وہ جہاں دل کرے منہ مارے،ایسا ہرگز نہیں،میرا جسم میری مرضی کا مطلب عورت ایک جیتی جاگتی انسان ہے،سانس لیتی مخلوق،اس کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جتنے مرد کے،القرآن کے مطابق ماسوائے عمل تولید کے جو نہ تو مرد اور نہ ہی عورت اکیلے سرانجام دے سکتی ہے،باقی دُنیا کا ہر کام مرد اور عورت کرسکتے ہیں،لیکن دُنیا کی معلوم تاریخ میں ہمیشہ مرد کے مقابلے میں عورت کو کمتر سمجھا گیا،آج بھی جب کہ انسان اکیسویں صدی کی دو دہائیاں گزار چکا،عورت اپنے حقوق سے محروم ہے،پاکستانی معاشرہ آج بھی عورت کو بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھتا ہے،مرد اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے عورت کو کھلونا سمجھ کر کھیلتا ہے،بیوی کو جب چاہا،بستر کی زینت بنا لیا،خواہ بیچاری کی سکت ہو،یا نہ ہو،ہر دوسرے سال بچہ ضرور پیدا کرنا ہے،اور اگر بیٹا نہیں ہورہا تو اسکا ذمہ دار بھی عورت،اور بیٹا پیدا کرنے کی چاہ میں بچیوں کی لائن اور عورت کو ادھ موا کرکے رکھ دیا جاتا ہے یا پھر طلاق کا طوق اسکے گلے میں ڈال کر اس بے رحم معاشرے کے ستم پر چھوڑ دیا جاتا ہے،مردچاہے جس مرضی لڑکی یا عورت کے ساتھ تعلقات بنائے،پیار محبت کے نام پر کھلواڑ کرے،کوئی غیرت نہیں جاگتی،لیکن اگر اُسی مرد کی بہن یا بیٹی اپنی پسند سے شادی کرلے،جس کا حق اُسے اللہ تعالی نے دیا ہے تو ہمارے ہاں نام نہاد غیرت جاگ اُٹھتی ہے،بہنوں اور بیٹیوں کو جائیداد میں سے حصہ نہ دینے کے لئے یا تو قرآن سے شاد ی کردی جاتی ہے یا پھر ونی اور کاروکاری کا نشانہ بنا دیا جاتاہے،عورت کی تعلیم پر پابندی،کئی گھرانوں میں راقم نے خود دیکھا ہے کہ بیٹے کو تو اچھی سے اچھی خوراک اور بہترین سکول میں داخل کروایا جاتا ہے لیکن بیٹی یا تو کسی سرکاری سکول میں تعلیم پاتی ہے یا اُسے پرائمری یا میٹرک کے بعد گھر بٹھا لیا جاتا ہے،والدین بیٹیوں کے کھانے میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں،ہروقت اُٹھتے بیٹھتے اُسے اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ تم تو پرائی امانت ہو،ایک دن رخصت ہوجاؤ گی،سسرال سے زیادہ ستم تو میکے میں ہوتا ہے،لڑکی کی شخصیت مسخ ہوکر رہ جاتی ہے،ایسے حالات میں اگر وہی ماں،بہن،بیٹی اپنے جائز انسانی حقو ق کے لئے سال کے ایک دن باہر نکل آئے تو ہمارے مذہبی اور عورت دشمن حلقوں کو تکلیف ہوتی ہے،میں پوچھنا چاہوں گا،اُن مذہبی عورتوں سے بھی،جو پردہ نہ کرنے والی عورتوں کو ہدف تنقید بناتی ہیں،اور خود کو پارسا اور باقی سب کو جہنم کے ٹکٹ بانٹتی ہیں،کیا کبھی انھوں نے مولوی کے ظلم وستم کا شکار عورتوں،ونی،کاروکاری اور قرآن سے شادی ہونے والی عورتوں،معصوم بچیو ں جن سے جنسی بھیڑ ئیے ظلم کرتے ہیں۔کیا کبھی ان کے لئے آواز بلند کی؟ نہیں کبھی نہیں،ان کو تو بس ہر خرابی کی جڑ یا توبے پردگی اور عورت کا گھر سے باہر نکلنا ہے یا پھر عورت مارچ کے دوران اپنے حقوق مانگنا،جبکہ اسلام کردار پر زور دیتا ہے نہ کہ ظاہری شکل وشباہت پر،ہم قوم کی کردار سازی کی جانب تو جاتے نہیں،اُلٹا انسان کی شہری آزادی کو بھی سلب کرنے پر تل جاتے ہیں،

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply