بلیک فرائڈے اینڈ گڈ فرائڈے۔۔مہر ساجد شاد

باقاعدہ 1932 سے سالانہ کرسمس خریداری کا آغاز خصوصی رعائیت کے ساتھ کرسمس سے ایک ماہ قبل نومبر کے آخری ویک اینڈ سے کیا جاتا ہے اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خریداری کے قابل بنانا ہے، اس عمل سے تاجر یقیناً نفع کماتے ہیں لیکن وہ اپنے نفع کی مقدار کو کم کر لیتے ہیں زیادہ فروخت سے کاروبار بڑھاتے ہیں، یہ دن بلیک فرائڈے کہلاتا ہے۔

ایسٹر سے قبل فرائڈے کو عیسائیت میں حضرت عیسی ع کی مصلوبیت کی یاد میں خصوصی عبادت کی جاتی ہے اور اس دن عیسائی روزہ بھی رکھتے ہیں، یہ دن گڈ فرائڈے کہلاتا ہے۔
گویا فرائڈے ایک دن ہے جس میں ضرورت کی سرگرمیاں معمول کا حصہ ہیں۔

بلیک فرائڈے ایک خالص معاشی اصطلاح ہے اس دن  کی سرگرمیاں معاشی اور سماجی بہبود کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ اکنامکس میں گھاٹے نقصان کو سرخ رنگ سے اور فائدے نفع کو کالے رنگ سے ظاہر کرتے ہیں۔ یہ دن چونکہ تاجروں کے ساتھ خریداروں کے لئے بھی فائدے کا دن ہے اس لئے اسکو بلیک فرائڈے کہا جاتا ہے۔

ملٹی نیشنل کمپنیاں دنیا بھر میں کاروبار کرتی ہیں وہ سال بھر مختلف مواقع تہوار اور دن کو اپنے کاروبار میں بہتری کے لئے استعمال کرتی ہیں، دنیا بھر میں ہر مذہب و سوچ والے ممالک میں ان کی سرگرمیاں یکساں طور پر جاری رہتی ہیں اضافی طور پر ان میں علاقائی ضروریات کے مطابق تبدیلی بھی کی جاتی ہے۔

بلیک فرائڈے کا ہمارے ہاں رواج پانا دراصل ملٹی نیشنل کمپنیوں اور برانڈز کے یہاں بڑھتے ہوئے کاروبار کی وجہ سے ہے، آنے والے وقت میں دیگر بین الاقوامی سرگرمیاں اور دن بھی پاکستان میں متعارف ہونگے کیونکہ یہ ان کے کاروباری سٹریٹجی کا حصہ ہے۔ ہمارے ہاں تحفظات رکھنے والے اس کا دوسرا پہلواجاگر کر رہے ہیں، نہ جانے کیوں ہمیں ہر کام میں اسلام کے خلاف سازش نظر آتی ہے کم از کم سازش کی بو تو آ ہی جاتی ہے۔ ہمیں اپنے تشخص اور اقدار پر ضربیں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ ہمیں دراصل فرائڈے کیساتھ لفظ بلیک پر اعتراض ہے، جبکہ مذہبی رنگ والے بھول جاتے ہیں کہ کالا رنگ غلاف کعبہ کا بھی ہے، قرآن کے حروف کا بھی رنگ کالا ہے اور پیغمبر اسلام کی چادر مبارک کا بھی لیکن اس کے باوجود مذہب نے اس رنگ کو ممتاز قرار نہیں دیا ورنہ جسم کے ہر حصے پر اگنے والے کالے بالوں کا کیا کرتے، حالانکہ اسلام نے کالے اور گورے کے فوقیت ختم   کرکے تقویٰ کی فوقیت کا اعلان کیا۔

بلیک ڈے کی ایک اصطلاح احتجاج کے لئے استعمال ہوتی ہے، بلیک فرائڈے میں احتجاج کا کوئی پہلو نہیں۔ سیاہ کارنامے اور کالے کرتوت محاورے ہیں لیکن ان محاوروں کی نسبت انسان سے کی جاتی ہے کسی دن سے نہیں۔
بلیک فرائڈے کے محققین نے گڈ فرائڈے پر تحقیق نہیں کی، وہاں فرائڈے کی توہین ہوئی یا توقیر معلومات اس پر بھی عام کرنا چاہئیں۔ بلیک فرائڈے پر جو اعتراضات پیش کئے جا رہے ہیں وہ مضحکہ خیز ہیں، اسے جمعۃ  المبارک کی توہین قرار دیا جا رہا ہے، کچھ پڑھے لکھے “ماہرین اقتصادیات” اسے عالم اسلام کے خلاف معاشی سازش قرار دے رہے ہیں اسے مسلمانوں سے زبردستی مال نکلوا کر ان کو معاشی نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ زبردستی خریداری پر کوئی مجبور نہیں کر رہا نہ ان ملٹی نیشنل برانڈز سے خریداری لازم قرار پائی ہے کہ ہم لاچار ہیں۔ خریدار پر جو لازم ہے وہ یہ کہ ان قیمتوں میں کمی کو اپنی ضروریات کو اچھے طریقے سے پورا کرنے کے لئے استعمال کرے نہ کہ غیر ضروری خریداریوں سے مالی بد اعتدالی پیدا کر کے اپنے لئے معاشی مسائل کھڑے کرلے۔

ہماری توہین اور تشخص پر ضرب وہ چیخیں لگاتی ہیں جو رمضان المبارک کے آغاز کیساتھ بڑھنے والی قیمتوں کی وجہ سے نکلتی ہیں، اگر سوچا جائے تو رمضان میں ناجائز ہوش ربا منافع خوری پر ہمیں اسلام کی بدنامی محسوس ہونا چاہیئے غریب کی قوت خرید تباہ ہونے پر ہمیں معاشی تباہی کی سازش نظر آنی چاہیئے، دکھ اور شرمندگی کی بات یہ ہے کہ رمضان میں لوٹ مار کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور برانڈز نہیں ہمارے  مسلمان حاجی نمازی تاجر ہی ہوتے ہیں۔ غریب کو رمضان المبارک میں روزہ جیسی مقدس عبادت کی بجائے فاقہ کشی پر مجبور کر دیتے ہیں، کتنے ہی گھر ایسے ہیں جہاں سحری اور افطاری کو بھی ان کی سفید پوشی میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ ہم رمضان المبارک اور عید پر “روشن رمضان” “آسان رمضان”۔ برکت رمضان” کیوں نہیں مناتے۔ خیرات اور سخاوت تو خوب کی جاتی ہے لیکن اس کا مصرف اسلام کے اس معاشی فلسفہ خود کفالت اور خود انحصاری کی بجائے محرومیوں کی تذلیل وتحقیر ہی کیوں بن کر رہ جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

رویے نہیں بدلیں گے تو معاشرہ نہیں بدلے گا، اقوام عالم میں مقام عزت حاصل کرنا ہے تو ہمیں علم حاصل کرنا پڑے گا۔ اپنے مذہب کی حفاظت کرنا ہے اسکی توقیر کو منوانا ہے تو اسکی عظیم تعلیمات کو اپنی ذندگیوں میں شامل کر کے عملی طور پر دیکھانا پڑے گا کہ یہ اس دین کی تعلیم کا قابل تقلید عملی نتیجہ ہے جو کسی سازش سے مٹنے والا نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply