• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شیخ رشید اور پاکستان ریلوے پر چھائے نحوست کے سائے ۔۔۔ رمشا تبسم

شیخ رشید اور پاکستان ریلوے پر چھائے نحوست کے سائے ۔۔۔ رمشا تبسم

حادثات کسی بھی وقت کسی کے ساتھ بھی اور کسی کے دور حکومت میں بھی وقوع پذیر ہو سکتے ہیں۔ہم نے گزشتہ کی سال پی۔ٹی۔آئی کی طرف سے ہر چھوٹے بڑے حادثات کا ذمہ دار گزشتہ حکومت کو ٹھہراتے ہوئے دیکھا۔اکثر یہ جائز و ناجائز الزامات لگا کر اپنی انا کو تسکین پہنچاتے اور سیاست کو چمکاتے رہے۔ ہر ذی شعور اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ حادثات واقع ہو ہی جاتے ہیں۔ حادثات کو کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں اور یہ کسی فردِ واحد کی کوشش سے ممکن نہیں بلکہ ریاست کا ہر شخص، ہر ادارہ، ہر رکنِ پارلیمنٹ خواہ وہ حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں سب کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا سنہری دور کبھی دیکھنے کو نہیں ملا جہاں تمام سیاست دانوں نے عوام کے مفادات کے لئے مل جل کر بات کی ہو یا عوام کی بھلائی کی خاطر اپنی سیاست کو پسِ پشت ڈال کر قدم سے قدم ملا کر چلیں ہوں۔ اپوزیشن کا کام حکومتی ارکان سے عوام کی بھلائی کے لئے باتیں منوانا کبھی بھی نہیں رہا۔بلکہ آج تک کی ہر اپوزیشن کا کام حکومتی کاموں میں رکاوٹ ڈالنا رہا۔ کسی نے نہ تو خود کام کیا اور نہ کسی دوسرے کو کرنے دیا۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان جہاں تھا آج بھی وہیں ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک بن کر محفوظ ہو گیا مگر پاکستانی عوام نہ کبھی محفوظ تھی نہ ہے اور جو حالات جا رہے ہیں شائد ہی ہم میں سے کوئی کبھی محفوظ ہو سکے گا۔ ایٹمی پاور ریاست کا ریلوے سسٹم اتنا کمزور ہے کہ آئے دن قیمتی جانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ ہر روز گودیں خالی ہو رہی ہیں,، سہاگ اجڑ رہے ہیں، بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنوں کے ساتھ خوشی سے سفر کر کے اپنے پیاروں سے ملنے کے لئے ٹرین میں سوار ہوتے ہیں مگر انہیں کیا معلوم جو سفر وہ شروع کر رہے ہیں اس کا اختتام ان کی سانسیں بند ہونے پر ہو گا۔ خوشی سے شروع کیا گیا سفر اپنوں کی جدائی پر ختم ہو گا۔ ہنسی مسکراہٹیں، چہل پہل سب ماتم میں بدل جائیں گی۔ عوام کے آئے روز اس قتل کی ذمہ دار حکمران جماعتیں نہیں بلکہ ہر منتخب کیا گیا نمائندہ ہے جو کبھی عوام کی ضرورتوں پر بات نہیں کرتا بلکہ صرف اقتدار کی کرسی کی ہوس میں انسانوں کو کٹتا، مرتا، جلتا دیکھتا ہے۔

تبدیلی سرکار کا دور کیا آیا عوام پر نحوست کے سائے مزید تیز ہو گئے۔وزیرِ ریلوے شیخ رشید نے عہدہ سنبھالا اور ہر ماہ چھوٹے بڑے اوسطاً چھ حادثات وقوع پذیر ہورہے ہیں۔

مورخہ 8.6.2019 شیخ رشید نے 17 لاکھ لیٹر تیل بچانے 4 ارب خسارہ کم کرنے 30 نئی ٹرینیں چلانے اور 30 لاکھ مسافروں کو منزلِ مقصود تک پہنچانے پر اپنے آپ کو شاباش دی اور مختصر عرصے میں حاصل ہونے والے اس کامیابی کا سہرا مختصر اپنے سر باندھ لیا تاہم جو ایک سال پورا ہونے کو ہے اس میں ہونے والے 74 چھوٹے بڑے ٹرین حادثات اور معصوم جانوں کے ضیاع کی ذمہ دار شیخ رشید کے مطابق آج بھی گزشتہ حکومتیں اور نواز شریف ہی ہے۔ تمام کامیابیاں پھر بھی شیخ رشید کی ہیں جنہوں نے باتوں ہی باتوں میں پاکستان ریلوے کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا۔

رواں سال جون میں 5 ٹرین حادثات ہوئے جن میں متعدد جانوں کا ضیاع ہوا یا یوں کہہ لیں متعدد خاندان برباد ہوئے، سینکڑوں قبریں کھودی گئیں اور ہزاروں آنسو پانی کی طرح بہہ گئے۔

کچھ حادثات پر ایک نظر ڈالئیے۔ ڈی۔جی۔خان مال گاڑی پٹری سے اتر گئ۔ 22 جون لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب تیز گام کی تین بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ 20 جون حیدر آباد میں جناح ایکسپریس ٹریک پر کھڑی مال گاڑی سے ٹکڑا گئی۔ کئی دن آمدرفت معطل رہی۔ 16 جون روہڑی، 15 جون سکھر، 11 جون کوٹ کے قریب ٹرین حادثہ ہوا۔ 27 مئی کو پھاٹک کھلا رہنے سے ٹرین تین رکشوں سے ٹکڑا گئی۔11 اپریل کو مہراب پور کے قریب بہاؤدین ذکریا ٹرین کا انجن تین بگیوں سمیت ٹریک سے اتر گیا۔ 24 دسمبر 2018کو فیصل آباد، 16دسمبر 2018کو اٹک اور میانوالی کے درمیان ٹرین حادثہ ہوا۔ زیادہ تر حادثات کھڑی ٹرینوں سے ٹکرانے سے ہوئے۔

آج 11 جولائی 2019 بروز جمعرات صبح 4.15 بجے صادق آباد کے مقام پر حادثہ ہوا۔ لاہور سے کوئٹہ جانے والی اکبر ایکسپریس کھڑی مال گاڑی سے ٹکڑا گئی۔ 6 بوگیاں اور انجن ٹریک سے اتر گئے۔ بے شمار خاندان اجڑ گئے۔ اپنے پیاروں کے لاشے خون میں لت پت لئے ہر آنکھ اشک بار تھی مگر وزیر ریلوے کا کہنا تھا میں کیا کروں یہ ماضی کی حکومتوں کی نا اہلی ہے۔ 4ارب کا خسارہ کم کرنا البتہ صرف اور صرف ان کا کریڈٹ ہے۔ چند ماہ میں 30 ٹرینیں چلانا ان کا کارنامہ ہے۔ بس حادثات کم کرنے میں ان سے کوئی اقدامات نہیں ہو پائے لہذا اس کا خمیازہ یہ اس 4 ارب کے کم کئے گئے خسارے میں سے مرنے والوں کو پندرہ پندرہ لاکھ اور زخمیوں کو پانچ پانچ لاکھ ادا کر کے کم کریں گے۔

چلیں جی ہو گیا عوام کا مسئلہ حل۔ غربت مٹاؤ وزیراعظم پروگرام کے تحت ایک طرف ٹرینوں میں غریب کو موت کے گھاٹ اتارنے کا بھرپور انتظام ہے اور اس انتظام کی ذمہ داری پنڈی بوائے بخوبی ادا کر رہے ہیں اور باقی مرنے والوں کے خاندان کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لئے پندرہ لاکھ کی رقم اداکر کے ان کی غربت دور کرنے کا اقدام بھی قابل تحسین ہے۔ اللہ کے کرم سے موجودہ حکومت غریب اور غربت دونوں کو مٹانے کا انتظام کئے بیٹھی ہے۔

ٹرین حادثات میں حکومت اور وزیرِ ریلوے کی نااہلی صاف ظاہر ہے۔ موجودہ جماعت ناصرف حکومت کے طور پر ذمہ دار ہے بلکہ ماضی میں اپوزیشن کے طور پر بھی حکومت کی کوتاہیوں پر خاموش رہ کر اور صرف اقتدار کی ہوس دکھا کر برابر کی ذمہ دار رہی۔ آج بھی موجودہ اپوزیشن اور موجودہ حکومت عوام کی بربادی کی مساوی ذمہ دار ہیں۔

ریلوے کا انتظام دن بہ دن خراب ہو رہا ہے۔ ایک سال کے عرصے میں ہونے والے 74 حادثات میں کئی خاندان اجڑ گئے۔ کئی قبرستان آباد ہو گئے اور کئی صحن ویران ہو گئے۔ جانے کتنی آنکھیں اپنے مرنے والوں کے انتظار میں آج بھی چوکھٹ پر ٹکی ہوئی ہیں۔

ریلوے کی بربادی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ پاکستان میں صرف ایک ریلوے اکیڈمی کا ہونا ہے جہاں انتظامات کی قلت اور انتظامیہ کی ناکامی صاف نظر آتی ہے۔ پاکستان میں کل ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور تقریباً 3200 ہیں۔ ہر تین سال بعد ان کا ٹیسٹ اور اپڈیٹ ٹریننگ لازمی ہے۔ آپریشنل ٹیسٹ کے لئے پورے پاکستان میں کوئی انتظام نہیں۔ ڈرائیور حضرات کا کہنا ہے کے چونکہ اکیڈمی صرف ایک ہے لہذا 3200 ڈرائیور کے ٹیسٹ ممکن نہیں۔ یوں کئی کئی سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ڈرائیور کو ٹیسٹ دےکر چار سال مال گاڑی چلانی ہوتی ہے اور ہر حال میں دو سال مسافر ٹرین، وہ بھی اب اتنی پاپندی سے ممکن نہیں رہا۔ ڈرائیور حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ اکثر ٹریننگ کے لئے قلت کی وجہ سے انہیں Operational Assimilator تک رسائی نہیں ہوتی۔ یوں انہیں ڈائریکٹ ہی ٹرین چلانی پڑتی ہے جو بہت بڑا خطرہ ہے۔ مزید یہ کہ ڈرائیور کی جسمانی، دماغی، تکنیکی فٹنس کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔

یونین ممبرز کا کہنا ہے کہ حکومت سے راولپنڈی اور کراچی میں اکیڈمی کھولنے کی متعدد بار درخواست کی گئی مگر حکومت نے قبول نہ کی۔ مکالمہ کے پلیٹ فارم سے میں حکومت اور اپوزیشن ارکان سے درخواست کرتی ہوں کہ انسانی جان کا ضیاع روکنے کے لئے جلد از جلد مزید اکیڈمیاں قائم کی جائیں۔ ڈرائیورز کے ٹیسٹ یقینی بنائے جائیں۔تمام کھڑی ٹرینوں کو ٹریک سے ہٹا دیا جائے۔ پھاٹک کا انتظام بہتر کیا جائے۔ سگنل سسٹم مکمل منظم کیا جائے اور تمام پاکستان کے ٹریک کی مرمت کروائی جائے۔
وزیرِ ریلوے ٹی وی پر آ کر بیان بیازی کرنے کی بجائے کام کی طرف توجہ دیں۔ حکومت اپنے تمام ارکانِ پارلیمنٹ اور عہدِداران کا بلاوجہ بار بار ٹی وی پر آنا بند کرے تاکہ لفظی جنگ کی بجائے یہ سب کام پرتوجہ دیں۔ عوام مر رہی ہے۔ آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ شیخ رشید کو ایک ٹرین حادثے کی اطلاع آفس میں ہوئی جہاں وہ کیک کاٹنے میں مصروف رہے۔ ہم جانتے ہیں ہم بھیڑ بکریوں کی طرح ہیں۔ ہمیں روز کاٹا جائے، سڑکوں پر روندا جائے، آگ لگا دی جائے، قبرستان آباد ہوتے جائیں اور گھر اجڑتے جائیں کسی کو فرق نہیں پڑے گا۔ تاہم پھر بھی درخواست کرتے ہیں خدارا عوام کے لئے کچھ کر لیں۔غریب اور غربت مٹاؤ پروگرام میں سے کسی ایک کا چناؤ کرکے ہمیں آگاہ کر دیں۔ اور اگر آپ نے دونوں ہی پروگرام چلانے ہیں تو بھی آگاہ کردیں تا کہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ غریب کا خاتمہ ہونا ہے، غربت کا خاتمہ ہونا ہے یا دونوں کا خاتمہ کر کے قبرستان آباد کرنا ہی درحقیقت آپ کا منشور ہے۔
فقط
آپ کی ریاستِ مدینہ کی مَرتی ہوئی عوام

Advertisements
julia rana solicitors

(اعداد و شمار کے لئے سماء نیوز کی رپورٹر ترہب اصغر کا شکریہ)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply