• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بن سلمان نیتن یاہو ملاقات کے بعد آل سعود شدید اختلافات کا شکار۔۔محمد آلوسی

بن سلمان نیتن یاہو ملاقات کے بعد آل سعود شدید اختلافات کا شکار۔۔محمد آلوسی

کچھ ہفتے پہلے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے سعودی عرب کے شہر نئوم میں سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو بھی موجود تھے۔ باخبر ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے دوستانہ تعلقات کے قیام کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف اتحاد تشکیل دینے جیسے موضوعات زیر بحث لائے گئے تھے۔ اس ملاقات کے کچھ دن بعد ہی ایران کے دارالحکومت تہران میں ایران کے معروف جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے شہید کر دیا گیا تھا۔ اب اسرائیل کے عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار “ہارٹیز” نے رپورٹ دی ہے، جس میں دعوی کیا گیا ہے کہ اس ملاقات کے بعد سعودی شاہی خاندان میں شدید اختلافات پھوٹ پڑے ہیں۔

اسرائیلی اخبار ہارٹیز کے مطابق اسرائیل سے دوستانہ اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے بارے میں آل سعود رژیم دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ یہ دھڑے بندی سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی ملاقات کے بعد مزید شدت اختیار کرچکی ہے۔ ان میں سے ایک دھڑے کا خیال ہے کہ جب تک اسرائیل مسئلہ فلسطین سے متعلق دو ریاستی راہ حل تسلیم نہیں کرتا اور 1967ء کی سرحدیں بحال کرتے ہوئے آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کر لیتا، اس سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات قائم نہیں کرنے چاہئیں۔ دوسری طرف مخالف دھڑا جس کی سربراہی سعودی ولیعہد شہزادہ بن سلمان کر رہے ہیں، ان کی رائے یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ فوراً سفارتی تعلقات قائم کر لینے چاہئیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان کے زیر سرپرستی دھڑا یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ امریکہ میں نئے صدر کے طور پر جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے سے پہلے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرکے اس کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کر لینے چاہئیں کیونکہ واضح نہیں کہ جو بائیڈن سعودی عرب سے متعلق کس قسم کی پالیسی اختیار کریں گے۔ درحقیقت یہ سیاسی دھڑا جو بائیڈن کے ممکنہ سخت گیرانہ اقدامات کے خوف سے اسرائیل کے دامن میں پناہ حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ اسرائیلی اخبار ہارٹیز مزید لکھتا ہے: “بنجمن نیتن یاہو اور شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان غیر متوقع ملاقات کے دو ہفتے بعد آل سعود رژیم کے معروف شہزادے ترکی الفیصل نے منامہ میں منعقدہ اجلاس کے دوران سعودی ولیعہد کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔”

اسرائیل کے عبری زبان میں شائع ہونے والے اخبار کے مطابق ترکی الفیصل نے اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مغرب کی ایسی استعماری طاقت قرار دیا، جس نے فلسطینیوں کو فوجی جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔ یاد رہے کہ ترکی الفیصل نے یہ بات اسرائیلی وزیر خارجہ گابی اشکنازی کی موجودگی میں کہی ہے، لہذا انہیں شدید ناگواری محسوس ہوئی۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے ترکی الفیصل کے اظہار خیال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی باتیں مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی نئی تبدیلیوں سے ہم آہنگی اور مناسبت نہیں رکھتیں۔ ترکی الفیصل کا حالیہ موقف ایسا نہیں جسے آسانی سے نظرانداز کیا جا سکے۔ وہ تقریباً بیس سال تک سعودی عرب کے حساس اداروں کے سربراہ رہ چکے ہیں۔

اسی طرح ترکی الفیصل لندن اور واشنگٹن میں ریاض کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ مزید برآں، وہ اب تک کئی بار اسرائیلی حکام سے غیر سرکاری ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں۔ منامہ میں ترکی الفیصل کا بیان کچھ عرصہ پہلے ایک اور سعودی شہزادے بندر بن سلطان کے بیان سے سو فیصد متضاد ہے، جنہوں نے فلسطینی رہنماوں کو سرزنش کی تھی کہ وہ اسرائیل سے دوستانہ اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کے کیوں مخالف ہیں۔ اسرائیلی اخبار ہارٹیز کے مطابق اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ترکی الفیصل اور بندر بن سلطان اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں دو مختلف سیاسی دھڑوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترکی الفیصل ملک سلطان کے ہم خیال ہیں، جن کی سوچ روایتی ہے اور وہ مسئلہ فلسطین کا حل 2002ء میں ریاض کی جانب سے پیش کردہ ماڈل کی صورت میں دیکھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری طرف سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا نظریہ ہے، جو جلد از جلد اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے درپے ہیں۔ سعودی ولیعہد 2002ء میں خود سعودی عرب کی جانب سے ہی پیش کئے جانے والے مسئلہ فلسطین کے راہ حل کے حامی نہیں ہیں جبکہ یہ بھی واضح نہیں کہ وہ اسرائیل سے سفارتی اور دوستانہ تعلقات قائم کرکے کس قسم کی مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں اس اقدام کے بدلے جمال خاشقجی کے قتل کے مقدمے سے بریت، بڑے پیمانے پر اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ اور ایف 35 جنگی طیارے حاصل کرنے جیسی پیشکش کی گئی ہے۔ اسرائیلی اخبار اس امید کا اظہار کرتا ہے کہ آل سعود خاندان کے اندرونی اختلافات اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply