احساس جرم یا خوف ؟۔۔محمد اسد شاہ

گزشتہ دنوں حکومت نے سابق وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب میاں محمد نواز شریف صاحب کی وطن واپسی کے لیے برطانوی حکومت کو خط بھجوا دیا – اس طرح تحریک انصاف کی حکومت نے مخالفین کی علالت کا مذاق اڑانے اور اس حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی اپنی ہی دیرینہ روایت بھی برقرار رکھی ہے اور ساتھ ساتھ خاں صاحب کی یو ٹرن لینے کی روایت بھی برقرار رکھی گئی ہے – چنانچہ یہ خط خاں صاحب ، ان کی پارٹی اور ان کی حکومت کی روایات کے عین مطابق ہے جس پر حیرت صرف اسی کو ہو گی جسے ان کی ان روایات کا علم نہ ہو –
قارئین کو یقیناً یاد ہو گا کہ سابق خاتون اول ، اور رکن قومی اسمبلی محترمہ ڈاکٹر کلثوم نواز صاحبہ جب کینسر جیسے موذی مرض سے لڑ رہی تھیں اور برطانیہ کے ایک ہسپتال میں زیرِ علاج تھیں ، تحریک انصاف کے قائدین ان کی بیماری کا باقاعدہ مذاق اڑایا کرتے تھے – اس قسم کی شرم ناک روایت ہماری سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں تھی – یہاں باقاعدہ جلسوں ، پریس کانفرنسز اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کیے گئے ، اور تمسخر اڑایا جاتا رہا – “قائدین” کی پیروی کارکنان کیوں نہ کرتے ؟ چنانچہ تمام حدود پھلانگ دی گئیں – برطانیہ میں اس ہسپتال پر پتھراؤ کروایا گیا جہاں ڈاکٹر کلثوم نواز کومے میں پڑی تھیں – ہسپتال کے باہر ہجوم کی صورت میں جمع ہو کر گالم گلوچ اور نعرے بازی کی گئی – ہسپتال کے اندر گھس کر وڈیوز بنانے اور سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل کرنے کی روایت بھی شروع کی گئی – حتیٰ کی ڈاکٹر صاحبہ اللّٰہ کے حضور پیش ہو گئیں – تب تحریک انصاف کے دوسرے درجے کے صرف ایک راہنما نے رسمی انداز میں اپنے الفاظ پر معذرت کا اظہار کیا – لیکن باقی سب نے تو اپنے الفاظ پر معذرت یا شرم ساری کا اظہار کرنا بھی پسند نہیں فرمایا – اخلاقی زوال یہاں تک پہنچا کہ پوری تحریک انصاف میں سے کوئی ایک بھی شخص ڈاکٹر صاحبہ کے جنازے تک میں شامل نہ ہوا – کسی نے فون پر بھی ڈاکٹر صاحبہ کے شوہر یا دیگر لواحقین سے کبھی تعزیت کا اظہار نہیں کیا –
میاں صاحب اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر محترمہ مریم نواز کو ساتھ لیے خود اپنی مرضی سے جیل جانے کے لیے آ پہنچے ، جب کہ وہ خود بھی عرصۂ دراز سے علیل تھے –
جیل میں ان کی صحت مسلسل بگڑتی گئی – تب مقتدر حلقوں کے ہاتھ پاؤں پھولنے لگے – فیصلہ کیا گیا کہ کسی طرح انھیں جیل سے ، بلکہ پاکستان سے ہی نکال دیا جائے – میاں صاحب خود اگر باہر جانے کے خواہش مند ہوتے تو لندن سے واپس آ کر جیل جاتے ہی کیوں ؟ علالت کی شدت کے باوجود وہ جیل سے نکلنے کو بھی تیار نہیں تھے – تب ان کے ساتھیوں اور اہل خانہ پر مختلف طریقوں سے شدید دباؤ ڈالا گیا کہ کسی طرح میاں صاحب کو پاکستان سے باہر لے جائیں ورنہ ان کی جان کو شدید خطرہ ہے – اس دوران تحریک انصاف کی حکومت نے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا ، جس نے میاں صاحب کے فوری علاج کی سفارش کر دی – خاں صاحب لیکن مطمئن نہ ہوئے اور ایک نیا بورڈ بنایا گیا – اس نے بھی میاں صاحب کی علالت کی تصدیق کی – پھر ایک اور بورڈ بنایا گیا – خاں صاحب نے اپنی ذاتی تسلی کے لیے اپنی ہی سرپرستی میں چلنے والے شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹرز کو اس بورڈ میں شامل کیا – ان سب نے بھی میاں صاحب کو شدید علیل قرار دیتے ہوئے فوری علاج کے انتظامات پر زور دیا – پھر تحریک انصاف ہی کی راہنما ، صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے پریس کانفرنس کر کے میاں صاحب کی علالت کی شدت کی تصدیق کی – انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس امر میں تو کوئی شک نہیں کہ میاں صاحب کو صحت کے “ملٹیپل پرابلمز” ہیں اور ان کے ٹیسٹ ہونا ضروری ہیں ، جن میں سے بعض ایسے ہیں جو پاکستان میں نہیں ہو سکتے – ڈاکٹر یاسمین نے تو بار بار پریس کانفرنسز میں یہی باتیں کہیں اور یہ بھی بتایا کہ میاں صاحب کے مقام و مرتبے ، اور معاملے کی حساسیت کے پیش نظر پاکستان کے بعض ہسپتال میاں صاحب کے علاج کا رسک لینے سے گھبراتے ہیں ، چنانچہ انھیں پاکستان سے باہر بھیجنا لازمی ہے – اور تو اور ، خود خاں صاحب نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے میاں صاحب کی علالت کی تصدیق کی اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھی میاں صاحب کو علاج کے لیے باہر بھیجنے پر زور دیا – آخر کار میاں صاحب کو ان کے اہل خانہ اور ساتھیوں کے ذریعے مجبور کر کے باہر بھجوا دیا گیا – لیکن پھر کیا ہوا – جیسے ہی میاں صاحب کو ایئر لفٹ کے ذریعے جہاز پر سوار کیا گیا ، خاں صاحب کی یو ٹرن والی رگ پھڑک اٹھی – چنانچہ اگلے ہی دن خاں صاحب نے میانوالی میں ایک جلسے سے خطاب فرماتے ہوئے میاں صاحب کی بیماری اور جہاز میں سوار ہونے کی تضحیک کرنا ضروری سمجھا –
پھر خاں صاحب کی ساری ٹیم آج تک میاں صاحب کی بیماری کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے میں دن رات مصروف ہے ، اتنی مصروف کہ اسے معیشت ، دفاع اور امن و امان جیسے مسائل کی طرف توجہ دینے کی بھی فرصت نہیں مل رہی – 2011 سے لے کر آج تک ، یعنی گزشتہ 9 سالوں سے جس طرح خاں صاحب اور ان کی پوری پارٹی کے اعصاب پر صرف میاں صاحب سوار ہیں ، اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سب میاں صاحب کے حوالے سے کسی احساس جرم میں مبتلا ہیں یا شاید کسی شدید اندرونی خوف میں –
ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ عمران خان ، “نواز شریف دشمنی” میں اس حد تک دور جا چکے ہیں کہ اب ان کی اور ان کے ساتھیوں کی سو فی صد سیاست —– جی ہاں پوری سو فی صد سیاست صرف “نواز شریف دشمنی” کی بنیاد پر کھڑی ہے – اس کے علاوہ کوئی نظریہ ، کوئی بیانیہ ، کوئی کارکردگی ان کے دامن میں نظر نہیں آتی – اگر آج یہ لوگ “نواز شریف دشمنی” سے باز آ جائیں تو ان کے ساتھ ، ان کے آگے اور ان کے پیچھے کھڑے بہت سے لوگ ان سے علیحدہ ہو جائیں گے ، حتیٰ کہ ان کے بے شمار پارٹی ورکرز بھی انھیں چھوڑ جائیں گے، ان کی حکومت بھی ختم ہو جائے گی اور ان کی پارٹی اور سیاست بھی – یقین کیجیے کہ یہی وجہ ہے خط لکھنے کی – ورنہ اگر کسی شخص کی صرف ضمانت ختم ہونے پر غیر ملکی حکومت کو فوراً خط لکھنا اتنا ہی ضروری ہوتا ، تو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے آج تک خاں صاحب کی حکومت نے غیر ملکی حکومتوں کو کبھی کوئی خط کیوں نہیں بھیجا ؟ جب کہ وہ دونو تو سالہا سال سے پاکستانی عدالتوں کو نہ صرف مطلوب ہیں ، بلکہ اشتہاری اور سزا یافتہ بھی ہیں –

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”احساس جرم یا خوف ؟۔۔محمد اسد شاہ

  1. بہت اعلیٰ اور زبردست تجزیہ – کالم کا ایک ایک لفظ سو فی صد سچ ہے – خاص طور پر یہ بات نہایت اہم ہے کہ عمران نیازی کی ساری سیاست صرف “نواز شریف دشمنی” کی بنیاد پر کھڑی ہے – اس کے علاوہ عمران اور پی ٹی آئی کے دامن میں کچھ بھی نہیں – عمران اور پی ٹی آئی اخلاقی زوال کا بدترین نمونہ ہیں –

  2. بہت اعلیٰ اور زبردست تجزیہ – کالم کا ایک ایک لفظ سو فی صد سچ ہے – خاص طور پر یہ بات نہایت اہم ہے کہ عمران نیازی کی ساری سیاست صرف “نواز شریف دشمنی” کی بنیاد پر کھڑی ہے – اس کے علاوہ عمران اور پی ٹی آئی کے دامن میں کچھ بھی نہیں – عمران اور پی ٹی آئی اخلاقی زوال کا بدترین نمونہ ہیں –

Leave a Reply