پی ڈی ایم‘استعفے اور لانگ مارچ۔۔آغر ندیم سحر

اتوار کے دن بوکھلاہٹ کا قبیلہ زندہ دلانِ لاہور میں پاور شو کرنے آیا اور استعفوں کا اعلان کیے بغیر واپس چلا گیا۔مجھے خوشی ہے کہ لاہوری زندہ دل نکلے اور مینڈیٹ چوری کا شور ڈالنے والے کرپٹ ٹولے کی باتوں میں نہ آئے۔یہ وہی لوگ ہیں جو پچھلی تین دہائیوں سے اس ملک کو چمٹے ہوئے ہیں اور عوام نے اس دفعہ ان کو اسمبلیوں سے باہر کر دیا‘تو گلی گلی شور ڈال رہے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ چوری ہو گیا حالانکہ مینڈیٹ اگر سچا ہو تو وہ کبھی چوری نہیں ہوتا۔پی ڈی ایم ٹولے نے جن موضوعات پر عوام سے گفتگو کی‘اس سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ ان کی لڑائی کم از کم عمران خان سے تو بالکل نہیں کیونکہ جب جب اپوزیشن نے الیکشن میں دھاندلی کی بات کی‘حکومت نے واضح کہاکہ جن حلقوں پر انگلی رکھتے ہیں‘ہم کھولنے کے لیے تیار ہیں۔افسوس ہمیشہ کی طرح اتوار کے جلسے میں بھی کی جانے والی تقاریر محض لفظوں کی جگالی ثابت ہوئیں۔جلسے سے قبل ایک ایسی فضا بنائی گئی کہ جس سے یوں لگ رہا تھا کہ رات سے پہلے اپوزیشن اسمبلیوں سے مستعفیٰ  ہوگی اور الیکشن کا مطالبہ زور پکڑ جائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔میں اس کالم کے توسط سے یہ بات واضح کر دوں کہ اپوزیشن اگلے دو سال بھی مستعفی نہیں ہوگی اور یہ جلسے بھی قطعاً حکومت کو ہٹانے کے لیے نہیں سجائے گئے بلکہ ان کی بقا اسی میں ہے کہ یہ اگلے دو سال اسی طرح گلی گلی شور ڈالتے رہیں‘لانگ مارچ اور جلسوں کے دعوت نامے بانٹتے رہیں تاکہ حکومت کی توجہ ان کے احتساب سے ہٹ کر‘ان کومنانے پہ صرف ہو۔پی ڈی ایم کو اس بات کا یقین ہو جانا چاہیے کہ یہ جتنا مرضی ریاستی اور دفاعی اداروں کے خلاف بول لیں‘نہ تو انہیں کسی طرح کا این آر او ملے گا اور نہ حکومت یا ریاستی ادارے ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوں گے۔

کیسی عجیب بات ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں جس طرح عوام سے جھوٹ  بولا گیا‘جیسے لفظوں کی جادوگری دکھائی گئی یا جن مسائل پر صفِ ماتم بچھائی گئی‘کیا یہ مسائل گزشتہ تین دہائیوں میں ان لوگوں کو نظر نہیں آئے؟۔یہ لوگ اس ملک اور ملکی اداروں سے اتنے ہی مخلص ہوتے تو آج اداروں کی یہ حالت ہوتی؟۔ مولانا فضل الرحمٰن کو آج کشمیر کا سودا یاد آ گیا‘جب مولانا دس سال سے زائد عرصہ تک کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے‘کشمیر کے نام پر ساری سرکاری مراعات کھاتے رہے‘اس وقت کشمیر کے عوام کا دکھ درد کہاں تھا؟۔بلاول ذرداری اور مریم نواز کو آج یاد آ گیا کہ میرے ملک میں غریب عوام بھی رہتے ہیں حالانکہ انہی کی پارٹیاں ایک طویل عرصے سے اس ملک میں حکومت کر رہی ہیں‘مگر اس وقت چونکہ یہ خود پارلیمنٹ میں تھے‘اس لیے انہیں ریاستی ادارے کمزور نہیں دکھائی دیتے تھے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک اس طبقے کی ہوس ختم نہیں ہوئی‘جب ان کے بڑے جسمانی‘ذہنی اور عقلی طور پر ریٹائرڈ ہو گئے‘ان کی اولادیں سامنے آ گئیں۔اس میں کیا دو رائے ہیں کہ آنے والے وقتوں میں ہم بلاول اور مریم کے بچوں کے بھی ایسے ہی غلام ہوں گے۔کیا ہم صرف انہی دو خاندانوں کی غلامی کے لیے پیدا کیے گئے یا یہ ملک صرف شریفوں اور ذرداریوں کی حکمرانی کے لیے بنایا گیا تھا۔مولانا فضل الرحمن کی اس لیے بات نہیں کر رہا کیونکہ مولانا کی ہمیشہ ضرورت اسی وقت پڑتی ہے جب اپوزیشن کو کوئی اور نہیں مل رہا ہوتا۔آپ آج نون لیگ یا پیپلز پارٹی کی حکومت لے آئیں‘دیکھیے مولانا کیسے منظر سے غائب ہوتے ہیں۔سو مجھے یہ کہتے ہوئے ذرا تامل نہیں کہ اپوزیشن اپنا آخری حربہ استعمال کر رہی ہے اور مجھے قوی یقین ہے کہ نواز شریف اور ذرداری کے بعد اب ان دو جماعتوں کا سیاسی مستقبل زیرو ہے اور زیرو ہی ہونا چاہیے۔

جہاں تک سوال عمران خان کی حکومت یا گڈگوررننس کا ہے تو اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے پاکستانی عوام کو حد سے زیادہ مایوس کیا۔میرے سمیت عوام نے جن وعدوں اور امیدوں پر عمران خان کو ووٹ دیا تھا ان میں سے آدھے بھی پورے نہ ہو سکے۔عمران خان اس کا الزام کابینہ کو دیں یا اپوزیشن کی چوریوں کو‘یہ سچ ہے کہ عمران خان سے یہ حکومت نہ چل سکی۔

اڑھائی سالو ں میں جس قدر تیزی سے مہنگائی بڑھی اور جتنی تیزی سے غریب عوام کو بے گھر کیا گیا‘اس کا اندازہ شاید ابھی تک سرکار بہادر کو نہیں ہو سکا۔جن اداروں میں عمران خان اصلاحات لانے کا وعدہ کرتے رہے‘وہ پہلے سے زیادہ خراب ہو گئے۔احتساب کا نعرہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ کھوکھلا ہوتا جا رہا ہے۔اب تو احتساب کا نام سنتے ہی ہنسی نکل جاتی ہے‘کیسا احتساب‘کس کا احتساب اور کیوں احتساب؟یہ وہ سوالات ہے جنہوں نے عمران خان کی پوزیشن کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ عمران خان اگرچہ ایک دیانت دار لیڈر ہے مگر کیا عمران خان کی کابینہ ان کے ساتھ مخلص ہے؟۔

یہی وہ سوال ہے جس نے عوام کو شدید اضطراب میں مبتلا کر رکھا ہے۔عمران خان اگر ایسے ہی اگلے دو سال محض احتساب اور این آ ر او کا شور ڈالتے گزار دیں گے تو یقینا ً اگلے پانچ سال وہ گھر بیٹھ کر نیند پوری کریں گے۔عوام نے عمران خان کا انتخاب محض اس لیے نہیں کیا تھا کہ وہ ایک ہینڈ سم لیڈر ہے بلکہ یہ انتخاب اپنے مسائل کا حل سمجھ کر کیا تھا۔مگر ہینڈ سم نے روز بروز مایوسی میں اضافہ کیا۔ایسے میں اگر اپوزیشن یا پی ڈی ایم باہر نکلی ہے تو یقینا ً کچھ غلط بھی نہیں۔اس حوالے سے اپوزیشن کو درست بھی مانا جا سکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھی اور غریب‘غریب تر ہوتا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہاں یہ یاد رہے کہ میں پی ڈی ایم کے جلسوں کو قطعاً سپورٹ نہیں کر رہا بلکہ ان کے ایسے موقف کی حمایت کر رہا ہوں جس کا تعلق عوام سے ہے۔حالانکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ جلسے اور لانگ مارچ صرف اپنی چوری بچانے‘این آر او لینے اور حکومت سے راضی نامہ کرنے کے ہتھیار ہیں۔اگر مریم نواز یا بلاول یہ کہتے ہیں کہ ہم غریب کے لیے گھروں سے نکلے ہیں تو یہ سفید جھوٹ ہے۔یہ لوگ محض اپنے کرپشن چھپانے‘اپنی بقا کی جنگ لڑنے اور اگلے جنرل الیکشن میں جیتنے کی غرض سے باہر نکلے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں تو شاید بے جا نہ ہو کہ یہ لوگ مستقبل میں بھی ہمیں اپنا غلام دیکھنا چاہتے ہیں سواگر ہم آج بھی ان کی باتوں میں آ گئے تو ہم غلام ابنِ غلام ابنِ غلام۔۔ ہوں گے۔فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے‘ہم نے آزادی حاصل کرنی ہے یا اگلی کئی دہائیاں بھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی نسلوں کی غلامی کرنی ہے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply