قیدی (15)۔۔وہاراامباکر

دسمبر 1995 میں جین بوبی فرنچ میگزین ایلے کے چیف ایڈیٹر تھے۔ ایک روز، بغیر کسی پیشگی وارننگ کے، انہیں سٹروک ہوا۔ وہ کوما میں چلے گئے۔ بیس روز بعد انہیں ہوش آیا۔ وہ اپنے گرد و پیش سے ذہنی طور پر مکمل آگاہ تھے۔ کہی ہوئی بات کا ہر لفظ سن اور سمجھ سکتے تھے لیکن کوئی حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ اپنے بازو، انگلیاں، چہرہ یا پیر کو حرکت نہیں دے سکتے تھے۔ بول نہیں سکتے تھے۔ رو نہیں سکتے تھے۔ ان کی اپنی مرضی سے کی جانے والی واحد حرکت بائیں پلک کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ اپنے جسم کے منجمد قیدخانے میں مقفل ہو گئے تھے۔
کچھ تھراپسٹ کی مدد سے رفتہ رفتہ وہ اس قابل ہو گئے کہ رابطہ کر سکیں۔ بول کر نہیں بلکہ پلک جھپکنے سے۔ تھراپسٹ آہستہ آہست حرف بولتی جاتی اور جو حرف بوبی نے بتانا ہوتا، وہ اس پر پلک جھپک دیتے۔ تھراپسٹ حرف لکھ لیتی اور پھر دوبارہ حروف بولنے لگتی۔ ایک لفظ کو لکھنے میں دو منٹ تک لگ جاتے لیکن وہ رابطہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ انتہائی صبر کے ساتھ، انہوں نے کتاب لکھی جس میں انہوں نے لاکڈ اِن سنڈروم میں گزاری اپنی زندگی کا تجربہ بیان کیا۔ اس کتاب کی لفاظی اور اندازِ بیان کی خوبصورتی ان کی جسمانی حالت سے متضاد تھی۔ اس میں انہوں نے اپنے دکھ کا لکھا۔ انہوں نے واقعہ بتایا کہ جب وہ اپنی اسسٹنٹ کے پرس کو دیکھ رہے تھے جو نیم وا میز پر پڑا تھا۔ اس میں پڑا بس کا ٹکٹ، کمرے کی چابی، سو فرانک کا کرنسی نوٹ نظر آ رہا تھا۔ یہ اشیا انہیں زندگی کے اس وقت کی یاد دلا رہی تھیں جو ہمیشہ کے لئے ان سے چھن گیا تھا۔
مارچ 1997 کو ان کی کتاب “گرتی گھنٹی اور تتلی” کے عنوان سے شائع ہوئی۔ پہلے ہفتے میں ہی اس کی ڈیڑھ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں اور یہ یورپ کی نمبر ون بیسٹ سیلر بن گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں مفلوج، گونگا، نیم مردہ، ہر خوشی سے محروم پڑا ہوں۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ مصائب کے ڈھیر کو چھوڑ کر قہقہہ لگانے کو دل کرتا ہے۔ جب قسمت نے مذاق کیا ہے تو کیوں نہ اسے صرف مذاق کے طور پر ہی لیا جائے۔
زندگی جاری ہے۔ اس کے ساتھ خواہشات بھی۔ جتنا ضروری میرے لئے سانس لینا ہے۔ اتنا ہی ضروری محبت اور چاہے جانا بھی۔ محسوس کر لینا بھی۔
میں بجھ رہا ہوں۔ آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر۔ جس طرح ایک ملاح اپنے وطن کے ساحل کو غائب ہوتے دیکھ رہا ہوتا ہے، میں اپنا ماضی غائب ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ میری پرانی زندگی کا شعلہ ابھی تک مجھ میں بجھا نہیں لیکن اب یہ یاد کی راکھ بنتا جا رہا ہے۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کتاب کے شائع ہونے کے کچھ ہی روز بعد بوبی کا انتقال ہو گیا۔ کئی ملین پڑھنے والے اس کتاب کو پڑھ چکے ہیں۔ نہ جانے، اس کے صفحات پر کتنے ہی آنسو ٹپکے ہوں گے۔ نہ جانے کتنے لوگ، شاید زندگی میں پہلی بار، اس بات کے شکرگزار ہوئے ہوں گے کہ وہ اپنے گوشت کے بنے اس روبوٹ کو کنٹرول کرنے پر قادر ہیں اور اتنی مہارت سے یہ کام کرتے ہیں کہ خود بھی اس عمل کے لئے ہونے والے بڑے آپریشنز سے آگاہ نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن بوبی حرکت کیوں نہیں کر سکتے تھے؟ عام حالات میں جب دماغ ٹانگ ہلانے کا فیصلہ کرتا ہے تو نیورل ایکٹیویٹی کا ایک پیٹرن موٹر کمانڈ کو ریڑھ کی ہڈی سے گزرتی ہوئی ڈیٹا کیبلز سے یہ اعصاب کے اگلے جال تک پہنچتا ہے۔ یہاں یہ برقی سگنل کیمیکلز (نیوروٹرانسمیٹر) کو ریلیز کرتے ہیں۔ ان سے پٹھے سکڑتے ہیں۔ لیکن بوبی کے لئے یہ سگنل دماغ سے باہر اپنا سفر نہیں کر پا رہا تھا۔ ان کے پٹھوں کو یہ پیغام وصول ہی نہیں ہو رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے کہ ہم کبھی سپائنل کورڈ کے ضرر کو ٹھیک کر سکیں۔ یہ اس وقت ممکن نہیں۔ لیکن اس کا ایک اور حل بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ اگر بوبی کی آنکھ جھپکنے کے عمل کے بجائے دماغ کی سپائیک کو استعمال کیا جا سکتا؟ ہم ان کے نیورل سرکٹ میں جھانک کر پتا لگا لیتے کہ پٹھوں کو کیا پیغام بھیجا جا رہا ہے اور اس کی مدد سے ایکشن لے سکتے؟
بوبی کی موت کے ایک سال بعد ایموری یونیورسٹی کے محققین نے لاکڈ اِن سنڈروم کے ایک اور مریض جونی رے کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ ان کا امپلانٹ پیغامات کمپیوٹر کو پہنچا سکتا تھا۔
میٹ نیگل فٹبال کے کھلاڑی تھے جو مفلوج ہو گئے۔ 2006 میں وہ ایک مصنوعی ہاتھ کو کسی حد تک دماغی سگنل سے کنٹرول کر سکتے تھے۔ ای میل پڑھ سکتے تھے، ویڈیو گیم پونگ کھیل سکتے تھے۔ سکرین پر دائرہ بنا سکتے تھے۔
یہ ٹیکنالوجی زیادہ اچھا کام نہیں کرتی تھی لیکن یہ بتاتی تھی کہ کیا ممکن ہے۔
پٹسبرگ یونیورسٹی میں 2011 میں نیورسائنٹسٹ اینڈریو شوارٹز نے ایک مصنوعی بازو بنایا جو ایک خاتون جین کے نیورل سگنلز سے منسلک کیا گیا۔ یہ اصل بازو سے قریب تر تھا۔ جین اپنے تصور کے زور سے روبوٹک بازو کو کنٹرول کر لیتی ہیں۔ یہ بازو کمرے میں کہیں دور بھی ہو تو کوئی مسئلہ نہیں۔ سگنلز کا راستہ اعصاب کے بجائے تاروں کا بنڈل ہے۔ جین پچھلے برسوں میں خود بھی اس میں مہارت حاصل کر رہی ہیں اور ساتھ ٹیکنالوجی کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے۔ دماغ اور مشین کا یہ انٹرفیس مفلوج ہو جانے والے افراد کو واپس مکمل حرکت میں لانے کا ایکٹو ایریا ہے جس پر عالمی تعان سے “واک اگین پراجیکٹ” پر کام کیا جا رہا ہے۔
فائن سٹائن انسٹی ٹیوٹ نے ایک اور طریقہ اپنایا اور 2016 میں انہوں نے دماغ سے یہ سگنل حاصل کر کے روبوٹک عضو کے بجائے مریض کے اپنے بائیولوجیکل عضو کو فیڈ کیا۔ درمیان میں ضرر کا شکار اعصابی نیٹ ورک کے بجائے دوسرے راستے سے بازو تک سگنل پہنچایا۔ مفلوج مریض اس سے ہاتھوں، کلائی، انگلیوں کی حرکات کی مدد سے چیز پکڑنے، چھوڑنے، فون ڈائل کرنے اور کی بورڈ استعمال کرنے کے قابل ہو گیا۔
مستقبل کی طرف اشارہ کرنے کے بھی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply