مقبرہ علی مردان خان۔۔طلحہ شفیق

یہ مقبرہ سنگھ پورہ کی پرانی سبزی منڈی میں لوکو جنرل  سٹور کے قریب واقع ہے۔
علی مردان خان عہدِ شاہجہان کے امراء میں سے تھا۔ اس کا تذکرہ مغل دور کی تواریخ میں کثرت سے ملتا ہے۔ صاحب مآثرالامراء نے علی مردان خان کا تعارف یوں کروایا ہے “اس کا باپ گنج علی خان زیک ہے کہ جو کردوں کے قبیلے سے ہے اور شاہ عباس ماضی کا قدیم ملازم تھا۔ شاہ کی طفولیت کے زمانے اور ہرات کے قیام کے دوران میں وہ بھی اچھی خدمت گزاری کے لئے مقیم رہا۔ اس کی فرمانروائی کے زمانے میں جب خراسان کے اوزبکوں نے فتور برپا کیا اور جنگ شروع کر دی تو (گنج علی خان نے) بہت اچھی خدمات انجام دیں اور بہادری دکھائی, لہذا وہ خان کے خطاب اور ارجمند بابا کے لقب سے سرفراز ہوا۔ تقریبا ًتیس سال تک نہایت استقلال کے ساتھ کرمان کا حاکم رہا۔ ہمیشہ اس سے انصاف اور رعیت پروری کے آثار ظاہر ہوتے تھے۔ (اس کی وفات کے بعد) شاہ نے اس کے لڑکے علی مردان کو خان کے خطاب اور قندھار کی ریاست پر سرفراز فرما کر بابائے ثانی, کا لقب مرحمت فرمایا۔” شاہ عباس ماضی کی وفات کے بعد تخت اس کے بھتیجے شاہ صفی کو ملا۔ اوائل میں علی مردان اس کے ساتھ وفادار رہا۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اِس نے شاہ صفی کا ساتھ چھوڑ کر شاہجہان کی ملازمت میں آنے کا فیصلہ کیا۔ اس معاملے کی تمام تر تفصیل محمد صالح کمبوہ نے اپنی کتاب میں درج کی ہے۔

ویسے بھی مغلوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ قندھار پر مغل جھنڈا لہرائے اس لیے جب علی مردان خان نے مغل راج میں دلچسپی دکھائی تو شاہجہان بھی فوراً تیار ہوگیا۔ بعض لکھاری اس واقعہ کی بنیاد پر علی مردان خان پہ طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ مثلاً سلمان راشد صاحب “ایکسپریس ٹریبیون” میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ علی مردان خان دغا باز، موقع پرست و چالباز تھا۔ لیکن اگر اس معاملے کو سیاق وسباق میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ علی مردان خان کا شاہ صفی کو چھوڑ کر شاہ جہان کے دربار میں جانے کا باعث اس کا موقع پرست ہونا نہیں بلکہ موقع کی نزاکت کو سمجھنا تھا۔ جیسا کہ خافی خان نے منتخب اللباب میں درج کیا ہے کہ “علی مردان خان وحشت افزا خبریں سن سُن کر بہت زیادہ مشکوک ہوگیا تھا۔ سیاوش کے خط سے اس کے شبہات اور قوی ہو گئے اور اس نے شاہ جہان بادشاہ کی طرف رجوع کرنے کی بدنامی کو گوارہ کر لیا۔” اسی طرح صمصام الدولہ شاہنواز خان نے بیان کیا ہے کہ “جب شاہ عباس ماضی کے مرنے کے بعد حکومت اس کے بھتیجے شاہ صفی کو ملی تو اس نے بے بنیاد بدگمانیوں اور دور از کار احتیاط کی وجہ سے عباس شاہ کے زمانے کے اکثر امراء کو معزول کیا۔ علی مردان خان بھی خوف زدہ ہوا۔ اس نے اپنی سلامتی شاہ جہان بادشاہ کی بارگاہ میں توسل پیدا کرنے میں سمجھی۔”
علی مردان خان تقریباً ١٦٣۲ء میں شاہ جہان کے دربار سے منسلک ہوا اور ١٦٣۹ء میں اس نے دربار میں حاضری دی۔ علی مردان کے شاہجہان سے قرب کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاہ جہان نے نے علی مردان خان کو کشمیر کے ساتھ ساتھ لاہور کی بھی صوبیداری بھی سونپ دی۔ تاکہ وہ گرمیاں کشمیر اور سردیاں لاہور میں گزار سکے۔ صوبہ اودھ بھی اس کو جاگیر میں عطا ہوا۔ ١٦٤١ء میں علی مردان خان کو کابل کی صوبے داری بھی مل گئی۔ عنایت خان و صالح کمبوہ کے بیانات کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ بادشاہ علی مردان خان پر خاصا مہربان تھا۔ اس کو اکثر انعام و اکرام سے نوازا جاتا تھا۔ شاہ جہان نے تقریباً پانچ مرتبہ علی مردان خان کو اُس کی حویلی میں دعوت کا شرف بخشا, ہر مرتبہ بادشاہ کی جانب سے بیش بہا تحائف بھی عنایت ہوئے۔ جنوری ١٦٤٣ء میں امیر الامراء کا خطاب بھی ملا۔ جس کا احوال عمل صالح میں یوں درج ہے “علی مردان خان کو خلعتِ خاصہ مع چار اب زردوزی, جیغہ اور مرصع تلوار عنایت کر کے امیر الامرا کے عظیم الشان خطاب سے سر بلند فرمایا۔ کروڑ دام انعام میں دیے۔ ہفت ہزاری ذات ہفت ہزار سوار, پانچ ہزار سوار دو اسپہ سہ اسیہ کا منصب ملا جس کی تنخواہ گیارہ کروڑ دام (ساڑھے ستائیس لاکھ روپے) قرار پائی۔”

علی مردان خان کی وجہ شہرت اس کی تعمیرات بھی ہیں۔ نقوش لاہور نمبر میں درج ہے “نواب علی مردان خان زبردست انجینئر تھا۔ باغات و عمارات کا بڑا شوق تھا۔ اس نے کابل, کشمیر میں انہار جاری کرائیں۔ باغات بنوائے۔ دہلی کی نہر جو شہر اور قلعہ کے درمیان پھرتی ہے، اسی کی یادگار ہے۔ نہر فیروزپور جو دہلی سے حصار کو جاتی ہے۔ اس کی درستی اسی کی ہاتھوں ہوئی۔ مادھو پور کے قریب جو نہر راوی سے نکل کر شالامار باغ کو سیراب کرتی ہے اسی کے ماتحت جاری ہوئی۔ کشمیر میں باغ علی مردان خان کے کھنڈر بڈشاہی تعمیرات کے کھنڈروں پر وچار ناگ میں اب بھی نظر آرہے ہیں۔ پشاور اور کابل اور عملہ میں بھی باغات اور عمارات کی صورت میں اس کی یادگاریں موجود ہیں۔” لیکن اس ضمن میں عموماً مبالغہ آرائی بھی کی جاتی ہے۔ مثلاً شالامار باغ کو علی مردان خان سے منسوب کیا جاتا ہے, نور احمد چشتی, کہنیالال وغیرہ نے نولکھا باغ لاہور کو بھی علی مردان خان کی تعمیر بتایا ہے۔ مگر ڈاکٹر عبداللہ چغتائی فرماتے ہیں کہ باغ کو سیراب کرنے کے لیے نہر نکالنے کی تجویز ضرور اِس نے دی مگر “تعمیر باغ یا اس کے بنانے میں علی مردان خان کا ہاتھ نہیں ہے” یونہی نولکھا باغ کے متعلق مورخین کا بیان “کسی قدر مزید تحقیق کا محتاج ہے”۔ بقول ڈبلو ایچ مورلینڈ “علی مردان خان کو اکثر انجینئیر بتایا جاتا ہے، مگر غالباً اس کو ایک منصوبہ بند کہنا زیادہ موزوں ہوگا۔”

علی مردان خان کے حوالے سے کچھ لوک داستانیں بھی موجود ہیں۔ سید فیاض محمود صاحب نے اپنی کتاب “فولک رومینس آف پاکستان” میں ایک ایسی ہی داستان درج کی ہے، جو راقم کے خیال میں کسی حد تک لایعنی ہے۔ اس داستان کا نتیجہ یہ ہے کہ علی مردان خان کے پاس سنگ فارس تھا۔ اکثر تواریخ کشمیر میں بھی ایسے بیانات ملتے ہیں، جیسا کہ محمد امین پنڈت فرماتے ہیں “کہتے ہیں قندھار میں کیکاوسی خزانہ کا ایک حصہ (اسے) ملا تھا۔ جس میں سنگ پارس بھی شامل تھا۔” علی مردان کے ذاتی کردار کے متعلق بھی متضاد بیانات ملتے ہیں۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی صوبیداری کے زمانے تارک صوم و صلواۃ اور دیگر فسق و فجور میں مبتلا لوگوں کو سزائیں دیں۔ جبکہ سید محمود آذاد صاحب اپنی کتاب “تاریخ کشمیر” میں لکھتے ہیں “علی مردان خان ایک عیاش اور رنگین مزاج شخص تھا۔” لیکن آگے لکھتے ہیں “مگر اس کے باوجود اہل کشمیر کے مسائل سے بڑی گہری دلچسپی لیتا تھا۔۔۔اُسے ملک کے غرباء و مساکین کا خاص طور خیال رہتا تھا اور خصوصاً اپاہجوں و نادار لوگوں کے لیے جو مطبخ قائم کرایا تھا, اس سے ہر محتاج کو صبح شام کھانا ملتا تھا۔ علی مردان خان کا عہد حکومت اہل کشمیر کے لیے نہ صرف امن و سکون کا عہد ہے بلکہ تعمیری و ترقیاتی لحاظ سے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس کے زمانے میں کشمیریوں نے زندگی کے تمام شعبوں میں شاندار ترقی کی اور اس نے اہل کشمیر کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہیں دیا۔”

علی مردان خان نے ١٦٥٧ء میں وفات پائی۔ صاحب عمل صالح نے علی مردان کی وفات کے متعلق لکھا ہے”دہلی پہنچ کر اطلاع ملی کہ امیرالامراء علی مردان خان جو اسہال کے مرض میں مبتلا تھا, جہان فانی سے گزر گیا۔ کشمیر کی آب و ہوا اُسے سازگار تھی، لہذا بیماری کے زمانے میں حضرت نے اسے اُدھر رخصت کر دیا تھا۔ ضعف و ناتوانی کے سبب ماچھی واڑے سے کشتی میں سوار ہوکر چلا۔ موضع تہار تک پہنچا تھا کہ بخشیانِ قضا و قدر نے عمر و رزق کے دروازے اُس پر بند کر دیے۔ داعی اجل نے اپنی صورت دکھائی اور دستور زمانہ کے مطابق بتاریخ ١۲ رجب ملک عدم میں تعینات ہو گیا۔ اس کے بیٹے ابراہیم خان وغیرہ جنازے کو لیے لاہور پہنچے اور اس کی ماں کے مقبرے میں دفن کر دیا۔ عالی شان, باتدبیر امیر تھا۔ اقبال و عزت, دولت و حشمت اور کثرت فوج کے سبب بہت امتیاز پایا۔ اعلی حضرت کی پیہم عنایات کے سبب اسے بڑی عزت حاصل تھی۔ ہفت ہزاری ذات ہفت ہزار سوار پانچ ہزار دو اسپہ سہ اسپہ کا منصب تھا۔ ڈھائی لاکھ روپے بطور انعام ملتے تھے۔ سالانہ تنخواہ تیس لاکھ روپے تھی۔” علی مردان خان کے بعد اس کی اولاد نے بھی ترقی پائی۔ عہد عالمگیر میں اہم عہدے بھی ملے۔ انڈین ہسٹری کانگریس میں محمد افضل خان صاحب کے علی مردان خان پر پڑھے گئے مقالے میں اس کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔

کچھ عرصہ قبل قاضی محمد اعظم صاحب کے ہمراہ مقبرہ علی مردان خان کی زیارت کو گئے۔ پہلے تو مقبرہ بند ملا پھر عبد الوحید فاروقی صاحب کی مہربانی کی بدولت دوبارہ حاضری دینے پر مقبرے کے درشن کا موقع ملا۔ مقبرے کی مرمت تو ہوئی تھی، لیکن اس کی حالت اب بھی نہایت خراب ہے۔ خیر زمانے کے ستم کے باوجود مقبرہ اب تک قائم تو ہے۔ لاہور کے دیگر مقابر و عمارات کی طرح سکھ راج اس مقبرے کے لیے بھی کوئی اچھا ثابت نہ ہوا۔ کہنیالال ہندی لکھتے ہیں “اس کی چار دیواری کی اینٹیں لاہور کے کشمیری خشت فروش اکھاڑ کر لے گئے۔ باقی ماندہ عمارتیں سردار گلاب سنگھ بھوونڈیہ نے گرا کر چھاؤنی کو اینٹیں لگا لیں۔۔۔ سکھوں کے وقت میں اس ڈیوڑھی کو مسمی گوردت سنگھ کرنیل افسر پلٹن مصراں والی نے اپنا مسکن بنایا ہوا تھا۔۔۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وقت اس عالی شان مقبرے میں میکھ زین ( اسلحہ) بھرا رہتا تھا۔۔۔اس مقبرے کی پہلی منزل میں سنگ سرخ و سنگ ابری کی بڑی بڑی سلیں نصب تھیں جو سکھوں نے براہِ سنگ دلی اُکھاڑ لی تھیں۔” اس مقبرے کی بربادی میں سلطان محمد ٹھیکے دار نے بھی حسب توفیق اپنا حصہ ڈالا۔ مقبرہ تین منزلہ ہے۔ تہہ خانے میں تین قبریں ہیں۔ علی مردان خان اور انکی والدہ کی۔ تیسری نامعلوم ہے۔ البتہ بعض کا کہنا ہے کہ تیسری قبر علی مردان کی والدہ کی خادمہ کی ہے۔ کتبہ فقط ایک ہی قبر پر نصب ہے، جس پر درج ذیل عبارت موجود ہے:
قطعہ تاریخ وفات
نواب علی مردان خان

Advertisements
julia rana solicitors

بن امیر گنج علی خان
امیر صاحب دولت مشیر صاحب حشمت
ثنا گوئے علی مرد و حق آگاہ مردان خان
سفر چوں کرد زیں دنیائے دوں سوئے بقا آخر
ندا آمد بتاریخش کہ عالی جاہ مرداں خان
یہ مقبرہ ماضی میں تو بہت دلکش تھا، حتی کہ کہا گیا “اس مقبرے کی عظمت و شان کا کچھ حساب نہیں, بلکہ اتنا بلند مقبرہ لاہور میں اور کوئی نہیں ہے۔” مقبرہ بلند تو اب بھی ہے مگر اس کی تزئین و آرائش کے لیے کیا گیا بیشتر کام اب موجود نہیں۔ بلکہ آثار تک نظر نہیں آتے۔ البتہ یہاں جو باغ تھا، اس کے دروازے پر موجود کاشی کاری کا کام شکستہ سہی لیکن اب تلک ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مقبرہ کس قدر پرکشش و خوشنما تھا۔ جب اوپری منزل سے ہو کر تہہ خانے میں فاتحہ کے واسطے پہنچے, تو قبر پر ڈالی گئی چادروں کو دیکھ کر حیرت ہوئی۔ پھر خاصی تعداد میں دیے بھی نظر آئے۔ سمجھ سے بالا ہے کہ ہر پرانی قبر کو مزار کیوں بنا دیا جاتا ہے۔ شنید ہے کہ جمعرات کو یہاں بے اولاد حضرات تشریف لا کر سابق گورنر کابل و کشمیر سے اولاد مانگتے ہیں۔ ممکن ہے کہ علی مردان خان کا رب سے خاص تعلق ہو یا وہ متقی و متصوف ہو۔ جیسا کہ ماہر تعمیرات توحید عزیز صاحب فرماتے ہیں “(علی مردان خان کی) قبر کا شرعی احکامات کی پابندی پر پورا اُترنا، یعنی قبر تک سورج کی روشنی کا براہِ راست پُہنچنا اور بارش کے پانی کا قبر کو چھونا۔ اس قدر وسیع اور بُلند عمارت کے قبر پر موجود ہونے کے با وجود ان دو شرعی لوازم کا پورا ھونا اس بات کا ثبوت ہے کہ معمار /مہندس شعارِ اسلامی سے مکمل واقف بھی تھا اور اُن کی پاسداری کا پابند بھی۔ یہی ایک بات اس چیز کی نشاندہی کرتی ہے کہ صاحبِ مقبرہ ایک بُلند پایا انجینئر بھی تھا اور صوفی منش بھی۔”
لیکن کسی بزرگ کے مزار پر بھی محبوب کو قدموں میں لانے و ساس و شوہر کو فرمانبردار کرنے یا کسی کی بربادی کے واسطے تعویذ گنڈے کرنا مناسب نہیں۔ یہاں آنے والے زائرین کی انہی عجیب و غریب حرکات کے باعث یہ مقبرہ بند بھی کردیا گیا تھا۔ اب بھی یہاں پہنچنا کافی مشکل ہے۔ دوسرا اس مقبرے کو آسیب زدہ بھی بتایا جاتا ہے۔ یعنی انسانوں سے بھی زیادہ بھیانک مخلوق کا یہاں ڈیرہ ہے۔ سانپوں کی بھی یہ آماجگاہ ہے جو کہ اس کو مزید پر سرار بنائے ہوئے ہے۔ جن کے ہاتھ میں امور مملکت کی باگ ڈور ہے، ان سے التجاء ہے کہ از راہ کرم اس مقبرے کو آباد کریں۔ یہاں تک سیاح حضرات کی آسان رسائی ممکن بنائیں۔ تاریخی عمارت کو جادو ٹونے کی جگہ بنانے کی بجائے اس کو تاریخ سے شغف رکھنے والوں کے لیے کھولیں۔ اگر چندہ کرنے کی نوبت نہ آئے تو چند روہے خرچ کر یہاں کوئی معلوماتی بورڈ بھی لگا دیں۔ باقی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ یہاں ضرور جائیں اور اس مقبرے کے متعلق بنائی گئی بے سر و پا کہانیوں پر توجہ دینے کی بجائے اس شاندار مقبرے کے کاریگروں کو سراہیں اور مقبرے کی بحالی و بہتری کے لیے بھی آواز اٹھائیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply