ابو جہل یا ابو لہب۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

ایک عمومی غلط فہمی یہ ہے کہ قرآن تمام انسانوں کیلئے ہدایت کا سرچشمہ ہے، ایسا ہرگز نہیں، قرآن کی ابتدائی آیت ہی اس فلسفے کی تردید کرتی دکھائی دیتی ہے
” ذلک الکتاب لاریب فیه هدی للمتقین ”
یعنی کہ متقین کیلئے ہدایت ہے، نہ کہ ہر شخص کیلئے، گویا کہ ایسے لوگوں کیلئے جو اپنی شخصیت میں خیر کے کچھ پہلو سنبھالے ہوئے ہیں۔
تاریخِ اسلام کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جیسے اسلام قبول کرنے والوں کے مختلف درجہ جات ہیں، اسی طرح اسلام مخالف افراد کو بھی ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا جائز نہیں، اسلام اور کفر پر قائم افراد کے درجات ان افراد میں موجود شخصی خصوصیات اور ان کے کردار کے نفسیاتی و سماجی مطالعے سے بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ حضورﷺ کی سیرۃ مبارکہ، اور قرآن کے مطالعے سے، شخصی اعتبار سے کفر پر براجمان رہنے والوں کے چار مختلف درجات سامنے آتے ہیں۔
پہلا گروہ وہ ہے جو اسلام تو قبول نہ کر سکے، مگر انہوں نے اسلام اور حضورﷺ کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ اپنے تئیں ہر ممکن مدد کی، ایسے افراد ہم مسلمانوں کیلئے محسنین کا درجہ رکھتے ہیں، ان میں سب سے پہلا نام جنابِ ابی طالب کا ہے، ان کے احسانات اور ان کے مثبت کردار سے ہر شخص واقف ہے، اسی طرح ایک اور شخص، معتم بن عدی ،جو کہ اگرچہ اس درجہ معروف نہ ہو سکا، مگر اس شخص کے اس فعل کو نہ سراہنا زیادتی ہوگی کہ جب طائف سے واپسی پر حضورﷺ مکہ واپس تشریف لانا چاہتے ہیں تو تب تک انﷺ کے قتلِ عام کا کھلا اعلان ہو چکا تھا، اور مخالفین موقع کی تلاش میں تھے، ایسے میں مکہ میں داخل ہونا یقینا خطرناک تھا، تب حضورﷺ نے اس شخص کو پیغام کے ذریعے اپنی امان میں لینے کی درخواست کی، اور معتم بن عدی کی مروت و شرافت ملاحظہ فرمائیے کہ دشمن ہونے کے باوجود ، اپنے بیٹوں کے ساتھ، مکہ سے باہر آکر حضورﷺ کو اپنی امان میں لیتے ہوئے مکہ میں داخل ہوتا ہے، اس شخص کے اس احسان کی اہمیت کا اندازہ لگائیے کہ جنگِ بدر کے موقع پر جب کفار کے ستر سے زیادہ افراد جنگی اسیر کی حیثیت سے مسلمانوں کے قبضے میں تھے تو تب حضورﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر آج معتم بن عدی زندہ ہوتا اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کی درخواست کرتا تو میں بغیر کسی معاوضے کے ان کو رہا کر دیتا۔
یہ وہ افراد ہیں جو کفر پر رہنے کے باوجود بہترین و مثبت شخصیات کے مالک تھے، بد قسمتی کہ ایسے افراد ایمان نہ لا سکے، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اگر یہ دونوں افراد ایمان لے آتے تو ان کے کردار کی بلندی سے کیا یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوگا کہ یہ مقامِ صدیقیت پر فائز ہوتے؟
دوسرے درجے پر وہ افراد ہیں جو درحقیقت اسلام اور حضورﷺ کے واقعتاً دشمن تھے، مگر ان افراد نے یہ دشمنی پورے خلوص اور بہادری سے نبھائی، ایسے افراد کی دشمنی آبائی تعصبیت اور ذاتی تکبر کی بنا پر تھی، مگر ان میں منافقت، بخل، بزدلی اور کمینے پن جیسی گھٹیا اوصاف ناپید تھے، ان میں ابوجہل اور عتبہ ابنِ ربیعہ قابلِ ذکر ہیں، ابوجہل نے کبھی پیٹھ پر وار نہیں کیا، بلکہ میدانِ جنگ میں آکر للکارا، سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اس کا اپنا قول ہے کہ بنو ہاشم نے جو دسترخوان سجائے، ہم نے ان سے بھی بڑھ کر سجائے، یہ دونوں افراد اپنے کردار میں دوٹوک اور بہترین خصوصیات کے حامل تھے، اس کی سب سے بڑی دلیل حضورﷺ کی وہ دعا ہے، جس میں اسلام کی سربلندی کیلئے عمر ابن خطاب یا عمر ابن ہشام (ابو جہل ) میں سے کسی ایک کو مانگا جا رہا ہے، اس سے ابوجہل کے کردار ، مروت و بہادری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، عمر ابن ہشام اور عتبہ ابن ربیعہ، یہ دونوں اگر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے تو کیا شک ہے کہ جنابِ عمر ابن خطاب اور جناب امیر حمزہ جیسے بلند پایہ صحابی ثابت ہوتے۔
اسلام دشمنی میں تیسرے درجے پر ایسے افراد تھے جو صرف مخالف نہیں، بلکہ بطور فرد، ایک گھٹیا کردار کے مالک تھے، انہوں نے حق کو پہچاننے کے باوجود اس کی تصدیق میں منافقت سے کام لیا، اور بزدل ہونے کی وجہ سے سامنے مقابلہ کرنے سے گھبراتے تھے، اس لیے میٹھی چھری بننے پر اکتفا کرتے ہوئے اپنے سماجی مقام کی بقا کو ترجیح دینا پسند کیا، قرآن میں سب سے زیادہ ذکر ایسے ہی مخالفین کا ہے، ان میں سرِ فہرست ولید ابن مغیرہ ہے، اپنی شخصیت میں یہ ایک منافق دشمن تھا اور اگر ایمان لے آتا تو یقیناً عبداللہ ابن ابی کا ہم رکاب ہوتا۔
آخری درجے میں وہ شخص ہے، جو اپنی دشمنی، منافقت، کمینگی ، ہٹ دھرمی اور بخل میں سب سے آگے ہے، اس شخص کو نہ قرابت کا پاس ہے، نہ ہی شرافت و ہمسائیگی کا احساس ہے، حضورﷺ کے صاحبزادے جنابِ قاسم کی وفات پر اس شخص نے باقاعدہ جشن منایا، ہمسایہ اور سگا چچا ہونے کے باوجود اس شخص نے ہر وہ گھٹیا حرکت کی جس کی توقع بدترین دشمن سے بھی نہ کی جا سکتی تھی، سماجی طور پر کمینگی کے اس مقام پر فائز تھا کہ کعبہ کے بیت المال کے خزانچی ہونے کی حیثیت سے اس نے چڑھاوا چڑھائے جانے والے سونے کے ہرن چرا لیے تھے، اور مکہ میں “ہرن چور ” کے لقب سے بھی پہچانا جاتا تھا، اس کی بزدلی، بخل، منافقت اور اس کے کردار کی نجاست کی صحیح تصویر کشی کیلئے باقاعدہ اس کا نام لے کر قرآن میں اس کی بربادی کو موضوع بنایا گیا، یہ کوئی اور نہیں، بلکہ بنی ہاشم کا سردار، حضورﷺ کا چچا اور ہمسایہ ابو لہب ہے، شخصی اعتبار سے یہ شخص نہ ہی اپنی روایات کا امین تھا اور نہ ہی خیر کے کسی پہلو سے شناسائی رکھتا تھا۔
یمارے ہاں، اردو ادب میں ہمیشہ کمینگی و جہالت کی مثال دیتے ہوئے نہ جانے کیوں ابوجہل کا نام پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ شخصی اعتبار سے وہ اس کا قطعاً حقدار نہیں، ایسے مواقع کیلئے درست مثال ابو لہب کی دی جانی چاہیے، مگر دینی و غیر دینی طبقات نے ہمیشہ ابوجہل کی مذمت کو اسلام دوستی سے تعبیر کیا، اور حقیقی و گھٹیا دشمن کو اس طرح واضح نہ کیا گیا جس کا وہ حقدار تھا، تاریخ ایسی ناانصافیوں سے بھری پڑی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply