جب دونوں طرف 313 کے ماننے والے ہوں تو ؟-تحریر/محمد وقاص رشید

کہتے ہیں بچپن کا علم پتھر پر لکیر ہے۔ بچپن شخصیت سازی کی وہ بنیاد ہے کہ جس پر زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ اور بچپن میں سکول مدرسہ کا زندگی بھر کی نفسیات پر بطورِ عامل قوت کے کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ کاش کہ والدین اور اساتذہ صرف اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ وہ ایک نسل کے لیے عملی نمونہ یعنی رول ماڈل ہیں۔ یہ سوچ کر ان بچوں کے آئینے میں اپنی صورت دیکھیں۔ یہ آئینہ اجتماعی قوم شکل کا عکاس بھی ہوتا ہے۔

یہ راقم الحروف کے بچپن یعنی 80 کی دہائی کے اواخر کی کی بپتا ہے۔ دس محرم الحرام ہم بچوں کے لیے ایک بہت پُر اسرار دن ہُوا کرتا تھا۔ ہم جلوس دیکھنے جایا کرتے تھے۔
یکایک حالات نے کیا کروٹ لی کہ ہمارا بچپن جنرل ضیاالحق کی ناحق اسلامی تشریح کا شکار ہونے لگا۔ ملک میں دس محرم کا دن جو ہم بچوں کے لیے پہلے پُراسرار تھا بدقسمتی سے اب خون آشام ہوکر خوفزدہ کرنے  لگا۔ ہم گھروں میں بند کر دیے جاتے تھے۔ جلوس کی طرف جانے والے سارے راستے بند ہوا کرتے تھے۔ امن و امان کو قائم رکھنے کے لیے غیر معمولی پولیس اور رضا کار ہوا کرتے تھے۔

محرم الحرام حضرت حسین رض کربلا کی دردناک یاد کے توسط سے سب مسلمانوں کے لیے ہی افسوس کا مقام تھا لیکن ہمارے ہاں اہلِ تشیع کا یہ سوگ منانے کا طریقہِ کار ہمیشہ سے ہی زیادہ حساس اور الگ رہا ہے۔ ایک ذاتی یاد آپ سے بانٹوں تو یہ سوچ کر ہی اس وقت بڑا خوف آتا تھا کہ وہاں زنجیر زنی ہوتی ہے۔

پاکستان “مردِ مومن مردِ حق” کے ڈالر جہاد کے بعد شیعہ سُنّی پراکسی جنگ کا میدان بن گیا۔ اس  ناعاقبت اندیش نام نہاد جہاد کے بعد دنیا کے مختلف ممالک نے اپنے ایمان کی تکمیل پاکستان میں جہاد والا رکن پورا کر کے کی۔ اپنے اپنے فرقوں کی سرپرستی سے پاکستان شیعہ سُنی فسادات کی ایسی تقسیم کا گڑھ بن گیا جس نے نجانے  کتنی ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں اور بچے یتیم کر دیے۔ اسی دوران انجمن سپاہِ صحابہ نام کی جماعت بنی جس کو مبینہ طور پر سعودی نواز ضیا الحق کی سرپرستی حاصل تھی۔

ان دِنوں ہمارے ایک استاد ہوتے تھے جن کا تعلق اس جماعت سے ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے ہم دونوں بھائیوں کو سکول میں دعا و ترانہ پڑھنے اور اچھے نعت خواں ہونے کی وجہ سے ہمیں ایک مسجد میں بلایا جہاں سپاہِ صحابہ کا ایک جلسہ تھا۔ اس میں مَیں نے صحابہ کی شان میں ایک کلام پڑھا تو بڑی پذیرائی ملی۔ یاد نہیں مہمان کون تھا مگر اس سے ہمیں ملوایا گیا اور ہمیں انجمن کے لیے مزید “گلوکاری” کرنے کے لیے کہا گیا۔ مجھے یاد ہے جو تقریر ان صاحب نے کی اس میں انکے منہ سے اہلِ تشیع برادری کے خلاف جھاگ چھوٹ رہا تھا۔ مجھے یاد ہے ہم وہاں سے نکلے تو نفرت کا ایک بیج ایس ایس پی (سپاہِ صحابہ پاکستان) کے دو بیجز کے پیچھے دھڑکتے معصوم دلوں میں بویا جا چکا تھا۔

کچھ عرصے بعد ہمیں ان استاد صاحب نے ایک کیسٹ سُننے کو دی۔ یہ غالباً اس وقت کے انکی جماعت کے سربراہ کی ایک زیرخند تقریر تھی۔ جس میں ایک جملہ ایسا تھا جسکا ہمیں اس وقت مطلب نہیں پتا تھا اور میں یہاں قارئین کے تقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھنے سے بھی قاصر ہوں۔ ہم اس کیسٹ کو سُن کر اس سپاہ کے سپاہی بننے ہی والے تھے کہ خدا بھلا کرے چچا جان محمود کا۔ انکے ہماری تعمیر میں بڑے احسانات میں سے ایک یہ ہے۔ بڑے ہنسی مذاق  کے عادی ہُوا کرتے تھے لیکن مجھے یاد ہے اس لمحے انکا چہرہ سرخ ہو گیا اور انہوں نے ہمیں سختی سے منع کیا آئندہ اس طرح کی کوئی کیسٹ  سننے یا کسی جلسے جلوس میں جانے سے۔

ہمارا تو یہ سفر خدا کے فضل سے رُک گیا۔ مگر وہ پوری ایک دہائی پاکستان شیعہ سنی فسادات کی آماجگاہ بنا رہا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ محرم الحرام میں دونوں فریقین کی حضرت حسین رض کے ساتھ ایک ہی نسبت ہونے کے باوجود ملک کے بیشتر حصوں سے چودہ سو سال پہلے خانوادہ رسول ص پر ڈھائے گئے ظلم کا سوگ مناتے یہاں انکی امتی ماؤں کی گودیں اجڑ جاتیں۔ یہاں تلک کہ کرفیو نافذ کرنے پڑتے ۔ حتی کہ فوج طلب کر لی جاتی۔

اسکے بعد کچھ قومی شعور نے اس خلیج کو مزید پاٹنے کے اقدامات سے گریز کیا تو فرقہ واریت کا یہ جن کچھ نہ کچھ بوتل میں بند ہُوا۔

اس سے اگلی لہر دہشتگردی کے خلاف جنگ کے ہنگام  میں آئی، جب کہیں اہلِ تشیع کی عبادت گاہوں پر حملے شروع ہو گئے تو کہیں ہزارہ کمیونٹی کی نسل کشی کے واقعات۔ لیکن خیر یہ ہوئی کہ دونوں اطراف کے علما نے ہوش مندی سے کام لیا اور اسکی وجہ شاید یہ بھی ہو کہ انہیں ماضی میں لڑانے والوں کے ریاستی ورثا انکی پالیسیوں سے یوٹرن لے چکے تھے۔ ایک مضمون میں اس کرب کا اظہار کر چکا کہ دونوں پالیسیوں کا محرک کوئی پاکستانی قوم کا مفاد نہیں بلکہ امریکہ بہادر تھا۔

اسکے بعد ان کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر کم ازکم ظاہری حد تک اندازِ فکر بھی تبدیل کرتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دیتے ہوئے ووٹ اور انتخاب کے راستے سے قومی ارتقاء میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا گیا۔

آج دنیا میں ایک بہت بڑا اور خوش آئند انقلاب معرضِ وجود میں آ چکا ہے کہ جب سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات دہائیوں بعد بحال ہوئے اور فرقہ وارانہ عصبیت کی آگ مکمل طور پر ٹھنڈی ہونے کا ایک سنہری موقع پیدا ہوا ہے۔ اس انقلاب کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان کو حاصل ہونا چاہیے مگر آنکھ کھولیے اور دیکھیے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔

عمران خان صاحب کی حکومت جانے اور پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد ریاست مستقل طور پر عمران خان صاحب کے خلاف نبرد آزما ہے۔ کون سا سیاسی اور قانونی شکنجہ ہے جس کے ذریعے انکی مزاحمت کا سرنگوں کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی۔ مگر چند روز پہلے کا ایک منظر دیکھ کر شدید افسوس ہوا اور دل میں مندرجہ بالا تمہید کے خوفناک سائے منڈلانے لگے۔

اہلِ تشیع کی نمائندہ سیاسی جماعت وحدت المسلمین اور جھنگ سے مسلم لیگ نون کے نمایاں ایم این اے اور مندرجہ بالا تاریخ کے ضمن میں ایک اہم کردار شیخ وقاص اکرم کے عمران خان صاحب کا ساتھ دینے کا ردعمل اگر فقط یہ ہوتا کہ مولانا محمد احمد لدھیانوی پی ڈی ایم کی حمایت کا اعلان کرتے تو خیر تھی مگر کابینہ کے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے عزمِ نو کے ٹھیک چوبیس گھنٹے کے بعد سرکاری ٹی وی سے ان صاحب کی ایسی پریس کانفرنس جس سے متشدد مزہبی و فرقہ سوچ کی بو آرہی ہو وہ ہر ذی شعور کے لیے لمحِہ فکریہ ہونا چاہیے۔

انڈیا اور اسرائیل کے ایما پہ عمران خان صاحب کی جماعت کے ممی ڈیڈی برگر بچوں کے سڑکوں پر آنے کی صورت میں انہیں سبق سکھانے کی دھمکی دیتے وقت کاش کہ ہمارے چچا جان مرحوم کی طرح کا حکومت کا کوئی خیر واہ ہوتا جو انہیں مشورہ دیتا کہ بہتر ہے یہ کیسٹ نہ ہی سُنی جائے۔

313کے ماننے والے ہونے کا دعویٰ کر کے 313  ہی کے ماننے والوں پرپل پڑنے سے بڑی انڈیا اور اسرائیل کی کوئی سازش نہیں ہو سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں ایک گزارش میاں نواز شریف صاحب سے کہ آپ واپس آئیے چوتھی بار وزیراعظم بھی بنیے مگر خدارا ان کالعدم کاندھوں پر بیٹھ کر مت آئیے کہ جو ناموسِ رسالت ص کے خلاف سازش کے الزام سے لے کر مدرسوں میں بلا کر جوتے اچھالنے تک آپ کے آزمائے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply