• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایڈیٹر “ہم سب ” یور آنر ہم لکھاری ہیں، بھکاری نہیں ( دوسرا ، آخری حصّہ )-محمد وقاص رشید

ایڈیٹر “ہم سب ” یور آنر ہم لکھاری ہیں، بھکاری نہیں ( دوسرا ، آخری حصّہ )-محمد وقاص رشید

     میں “ایڈیٹر ہم سب ” Your Highness ہم لکھاری ہیں بھکاری نہیں ” کے اس دوسرے اور آخری حصے میں ایڈیٹر عدنان خان کاکڑ صاحب اور اپنے درمیان ہونے والی ای میلز کا ترجمہ لکھ رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں : جناب ! کیا یہ والا آرٹیکل چھپے گا یا نہیں ؟
عدنان خان کاکڑ صاحب  : آپ پہلے ہی مکالمہ پر لکھتے ہیں جو کہ ایک اچھا پلیٹ فارم ہے۔ اس لیے میں  آپکے آرٹیکلز کو Ignore کر رہا ہوں۔ ہم یہاں صرف وہی آرٹیکلز چھاپتے ہیں جو کسی دوسری ویب سائیٹس پر جمع نہیں کروائے جاتے۔
(یہ پڑھ کر میں ٹھٹھک گیا اور شک میں پڑ گیا کہ میں نے غلطی سے ایک ہی آرٹیکل دونوں کو بھیج دیا۔ اپنی یاداشت کو کوستے ہوئے میں نے جب تحقیق کی تو پتا چلا ایسا تو کچھ ہوا ہی نہیں۔ تقریباً دو سو کے لگ بھگ آرٹیکلز میں سے کوئی ایک بھی آرٹیکل مشترک نہیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں : آپکے جواب کا بہت بہت شکریہ جنابِ والا. میں نے ہمیشہ اس اصول کی سختی سے پاسداری کی کہ ایک ہی آرٹیکل کسی صورت دونوں کو نہ بھیجوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی اگر میں نے غلطی سے ایسا کیا تو آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ برائے مہربانی مجھے بتا دیجیے کہ ایسا کب ہوا ؟
اور یوں تو بہت سے ہیں جو ایک ہی وقت میں دونوں ویب سائیٹس پر لکھتے ہیں لیکن کیا یہ کوئی نئی پالیسی ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی ویب سائیٹس پر لکھا جائے؟
عدنان خان کاکڑ صاحب : میں نے آپکو پالیسی کا معاملہ بیان کر دیا، آپ کے آرٹیکلز صرف اسی صورت میں چھپ سکتے ہیں اگر آپ اس پر عمل کریں گے۔ کیونکہ ہر آرٹیکل میں شک کا عنصر تو رہتا ہی ہے اس لیے ہمیں کنفرمیشن کی ضرورت ہوتی ہے کہ اسے کہیں اور تو جمع نہیں کروایا گیا۔
(پڑھ کر بڑی حیرت ہوئی کیونکہ کنفرمیشن کا مطلب تو محض پوچھ کر یقینی بنانا ہوتا ہے جبکہ یہاں تو بغیر کہے سنے سزا سنائی گئی وہ بھی ایک ایسے لکھاری کو جو کہ پالیسی پر پہلے ہی عمل پیرا ہے اور یاد رہے کہ ایڈیٹر صاحب نے کہا تھا کہ “کیونکہ آپ پہلے سے “مکالمہ” پر لکھتے ہیں۔ پالیسی مکالمہ پر لکھنا تھی یا ہم سب والا آرٹیکل مکالمہ پر بھی چھپوانا۔ یہ پتا نہیں چل رہا تھا )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں : جناب انتہائی عزت و احترام سے عرض ہے کہ میں اس پالیسی پر سختی سے کار بند ہوں اور ہوتا آیا ہوں۔ یہ میرے لیے اخلاقی فریضہ ہے اسی لیے آپ کے جواب سے مجھے شدید حیرت ہوئی۔
آپ نے مجھے سنے بغیر سزا بھی سنا دی۔ اس جرم میں جو میں نے کیا ہی نہیں۔ آپ سے ایک بار پھر گزارش کرتا ہوں کہ خدارا کوئی ایک مضمون تو ایسا بتا دیجیے جو کہ میں نے پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دونوں ویب سائیٹس کو بھیجا۔
عدنان خان کاکڑ صاحب : پالیسی یہ ہے کہ ہم ان مضامین کو ترجیح دیتے ہیں جو کہ صرف “ہم سب” کے لیے لکھے جائیں اس لیے ہر آرٹیکل کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
(اچھا میرے لیے یہ بات ناقابلِ فہم تھی کہ یہ بار بار پوچھنے پر بھی بتا نہیں رہے۔ پالیسی کو دہرا رہے ہیں جس پر میں شروع سے سختی سے عمل پیرا ہوں اور مجھے “Ignore” کرنے کی سزا بھی سنا چکے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں : میرے پیارے اور محترم ایڈیٹر صاحب !
مجھے بصد احترام کہنے کی اجازت دیجیے کہ میں نے نہیں دراصل آپ نے اس پالیسی کی خلاف ورزی کی۔ پالیسی یہ ہے کہ وہی آرٹیکل ہم سب پر چھپیں گے جو صرف ہم سب کے لیے لکھے جائیں گے۔ پچھلے ایک سال سے خالصتاً”ہم سب” کے لیے لکھے گئے لگ بھگ پچاس مضامین میں اس پالیسی پر عملدرآمد کے باوجود مجھے آپ نے سزا سنا دی۔ اور میری تین بار کی درخواست کے باوجود میرے جرم کی نشاندہی نہیں فرما رہے۔ میں خود کو باقاعدہ معافی مانگنے کا مجاز گردانتا ہوں اگر میں نے پالیسی کی خلاف ورزی کی۔ معذرت اور ادب کے ساتھ کیا یہ آپکا اخلاقی فرض نہیں بنتا کہ آپ یہ مجھے کم ازکم بتائیں تو سہی۔ ہم ایک سال سے اکٹھے کام کر رہے ہیں میری توقع تھی کہ اس بنیاد پر کم ازکم اتنا تو میرا حق بنتا ہے کہ آپ سزا سنانے سے پہلے جرم تو بتا دیتے۔
عدنان خان کاکڑ صاحب : جناب ! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ میں اپنا جرم تسلیم کرتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم آپ کے اعلیٰ اخلاقی معیارات پر پورا نہیں اُتر سکتے آپ اپنے مضامین ان اداروں کو بھیجا کریں جو آپکے معیارات پر پورا اترتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ یہاں اس بحث کا اختتام ہو کیونکہ میرے پاس آپ جتنا فالتو وقت نہیں ہے۔
(گو کہ میں ایڈیٹر صاحب سے یہی توقع کر رہا تھا اب میری حیرت ،  رنج اور احساسِ شرمندگی میں بدل چکی تھی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں : (یہ ای میل میں نے اردو میں کی کیونکہ برداشت اور انگریزی دونوں جواب دے گئے )۔
جی جی جنابِ والا ۔۔۔
میں بالکل جانتا تھا۔ یہ سماج یونہی تو دشت نہیں ہوا۔۔احساسِ برتری کا شکار اس رویے سے میرا پہلی دفعہ سامنا نہیں ہوا نہ قول و فعل کے تضاد کا مشاہدہ زندگی میں پہلی بار ہوا۔
کوئی شک ہی نہیں کہ آپ پاکستان کے سب سے مصروف آدمی ہیں۔ جن کے پاس پے در پے  رپلائی کرنے کا وقت ہے مگر دوسرے پر الزام عائد کر کے ثبوت دینے کے لیے ایک لائین لکھنے کا وقت نہیں۔ اور غلطی تسلیم کرنا تو خیر چھوڑیے ۔۔
آپ واقعی میرے سٹینڈرڈز پر پورا نہیں اترتے کیونکہ میں نے صرف سچ بولنے کی کوشش کی اور وہ بھی عزت و احترام ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے جس کے جواب میں آپ اپنی خودساختہ احساسِ برتری سے ہلنے کو تیار نہیں۔
مجھے بہرحال افسوس ہے کہ ہمارے اس ساتھ کا انجام آپکے غیر اخلاقی رویہ کے باعث اچھا نہیں ہوا۔۔
آپکو آپکا زعم اور احساسِ برتری مبارک ہو۔۔
میں لکھاری ہوں بھکاری نہیں۔ اور آپکی احساسِ برتری کو شاید بھکاریوں کی ضرورت ہے لکھاریوں کی نہیں۔۔۔
خدا حافظ!
عدنان خان کاکڑ صاحب : جب آپکے مشتعل جذبات پُر سکون ہو جائیں تو ای میل تھریڈ غور سے پڑھیے گا۔
آپکو بتایا گیا کہ آپ کے مضامین کیوں ignore کیے جا رہے ہیں اور اسکا حل کیا ہے۔ آپ حل کو چھوڑ کر جذباتی انداز میں بحث میں لگ گئے جس سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
اور جو ڈیو ریسپیکٹ کا بھاشن آپ دے رہے ہیں آپ نے بحث کا آغاز اس جملے سے کیا تھا۔۔۔
Thank you very much for your response your highness.
اگر آپ کو یہ ہی نہیں پتا کہ کیا لکھ رہے ہیں تو آپ سے دوری میں ہی عافیت ہے۔ آپ جہاں رہیں خوش رہیں۔
خدا حافظ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں (آخری ای میل “اور اسکے بعد لائین کٹ گئی “) محترم عدنان صاحب۔۔۔۔
میں نے آرٹیکل کے چھپنے کا دو دن ہدایات کے مطابق انتظار کیا اور آج نیا آرٹیکل بھیجنے سے پہلے پوچھا کہ پچھلے والا کیا چھپے گا ؟
اس کا جواب آپکی جانب سے یہ آیا کہ کیونکہ میں “مکالمہ ” پر لکھتا ہوں جو کہ بہت اچھا پلیٹ فارم ہے اس لیے میرے آرٹیکلز یہاں Ignore کیے جا رہے ہیں۔
مجھے حیرت و شرمندگی ہوئی کہ “مکالمہ ” پر تو میں “ہم سب” سے پہلے سے لکھ رہا ہوں اور پچھلے ایک سال یعنی 22-03-2022 کو “ہم سب” پر پہلا آرٹیکل چھپنے سے لے کر آج تک ہمیشہ اسے اپنی ادبی و اخلاقی فریضہ سمجھ کر نبھایا کہ ایک آرٹیکل دونوں کو نہ بھیجوں۔
اب میں نے اپنی طرف سے کسی بھول چوک یا انسانی غلطی کی تحقیق کر کے آپ سے کہا کہ میں سختی سے اس پر عمل پیرا ہوں تو اسکے باوجود سزا سنا دی گئی۔۔۔اگر میرے سے ایسا غلطی سے ہو گیا تو میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں لیکن آپ سے گزارش ہے کہ آپ صرف مجھے یہ بتا دیجیے سزا سنانے سے پہلے کہ کیا میں نے ایسا کیا ؟ یا مجھ سے ایسی غلطی سرزد ہوئی ؟
جس کے جواب میں آپ نے کہا کہ آپ میرے سٹینڈرڈز پر پورا نہیں اتر سکتے اور میں آرٹیکل کہیں اور بھیجوں۔۔۔۔۔مجھے اپنی انگریزی کے غلطی سے پاک ہونے کا بالکل بھی کوئی دعویٰ نہیں مجھے واقعی ۔۔۔
Thank you for your response your highness..
کا ایک ہی مطلب معلوم ہے کہ “عالی جاہ ! آپکا شکریہ کہ آپ نے مجھے ای میل کا جواب دیا ”
اب اگر انگریزی میں ایک غلطی پر آپ دوری میں عافیت سمجھتے ہیں تو ظاہر ہے یہ آپکا وہی احساسِ برتری ہے جسکی بنیاد پر آپ ایک لکھاری کے آرٹیکل کو جس بنیاد پر Ignore کر رہے ہیں اسے ایک ثبوت بھی دینے کو تیار نہیں ۔۔بلکہ اسکے صرف اپنے بنیادی حق کے طور پر انسانی غلطی کی محض نشاندہی کرنے کی استدعا اور معذرت کی پیشکش کو “بھاشن ” قرار دے رہے ہیں۔
آپ بھی اپنے تکبر احساسِ برتری اور غلطی سے پاک انگریزی  کے ساتھ جہاں رہیں خوش رہیں جنابِ ایڈیٹر…
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئینِ کرام ! یہ تھا سارا قضیہ رنج و تاسف کی اوج پر مجھے ابھی تلک یہ معلوم نہیں کہ میں نے غلط کیا کیا۔ انگریزی زبان کے ایک ماہر صاحب سے پوچھا کہ لفظ ” Your Honour ” میں ایسا کیا ہے۔ کہنے لگے ہے تو کچھ نہیں مگر یہ لفظ انگلش رائل فیملی کے لیے استعمال ہوتا ہے سو ایڈیٹر صاحب شاید اسکو طنز سمجھے” میں نے سوچا گو کہ مجھے معلوم نہیں تھا لیکن اگر ایسا ہوتا بھی تو انسان دوستی اور رواداری کا نعرہ بلند کرنے والے محترم ایڈیٹر صاحب کی انا کے سامنے تو رائل فیملی بھی ہیچ ہے۔
جب میں نے کچھ تحقیق کی تو پتا چلا کہ ایڈیٹر صاحب کے اس مطلق العنان رویے کا شکار میں پہلا لکھاری نہیں۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ “ہم سب” کی انسان دوستی اور رواداری میں ساتھ چلنے کا عزم “مکالمہ” اور میرے جیسے گمنام لکھاریوں کو شامل کرتے ہوئے نہیں۔ میں تسلیم کرتا ہوں پیشہ ورانہ حسد کے ان معاملات سے مکمل لا بلد ہوں کیونکہ میرا ان دونوں سے کوئی پیشہ ورانہ تعلق ہے ہی نہیں۔
میرا مقدمہ تو صرف ہَوا میں معلق صاحبانِ اختیار کا زمین پر کھڑے ہوئے خاکزادوں کو اپنے دربار کا بھکاری سمجھنا ہے۔ جناب ہم گمنام و عامی ہی سہی ہم اپنا خون پسینہ قلم میں بھر کر آپ کی ویب سائیٹس کو پیش کرتے ہیں یہ ہمارے لیے خدمت اور آپکے لیے معیشت کا معاملہ ہے۔ ہم اس معیشت میں سے نہیں عزت میں سے اپنا حق مانگتے ہیں۔
۔Your Highness ہم لکھاری ہیں بھکاری نہیں۔۔
بقول محسن نقوی۔۔۔۔
کرم کی بھیک نہ دے اپنا تخت بخت سنبھال
ضرورتوں  کا  خدا  تُو  ،فقیر  ہم  بھی  نہیں
(خدا آپ کو اور عزت و منزلت عطا فرمائے ایڈیٹر جی )

پہلے حصّے کا لنک: https://www.mukaalma.com/172465/

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ :“مضمون آزادی اظہار رائے کے حق کے تحت شائع کیا جا رہا ہے۔ ہم سب انتظامیہ اگر جواب دینا چاہے تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply