محوَ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔۔۔۔محمد کاشف

فلاڈلفیا چلڈرن ہسپتال کے ڈاکٹروں نے امریکی FDA سے رابطہ کیا ہے۔ وہ اگلے دو سال میں ایک جدید ترین مصنوعی بچہ دانی میں انسانی بچے  کی افزائش کریں گے۔ اس طریقہ پیدائش یا افزائش کے ذریعے مکمل کنڑولڈ حالات میں ڈیزائنر بچہ پیدا کیا جا سکے گا۔ پیدائش کے ہر مرحلے کا مکمل جائزہ لیا جا سکے گا جو ماں کے پیٹ میں ناممکن ہے۔ اگلے دس سال میں انسانی بچہ پیدا ک کرنے لئے ماں کے پیٹ کی شرط مکمل ختم ہو جائے گی۔
2050 کے بعد ایک نئی انسانی نسل وجود میں آنی شروع ہو جائے گی۔ یہ انسان کے لاکھوں سال کے ارتقا سے بہت زیادہ تیز تبدیلی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 2100 سے ایک مکمل نئی سپر خوبیوں والی، مختلف انسانی نسل موجود ہو گی۔ یہ نسل بہت تیز دوڑ سکے گی۔ جسم انتہائی مضبوط، شدید ترین جراثیم بھی اس پر کارگر نہیں ہوں گے۔ ۔ وہ حقیقت میں بیماری پروف انسان ہے۔ دماغ کے ساتھ منسلک ہونے والی chips پر کام ہو رہا ہے۔ جن کی وجہ سے دماغی کارگردگی کئی گنا بڑھ جائی گی۔ اندازہ لگائیں، اس وقت ترقی کی رفتار کیا ہو جائے گی۔ بائیسویں صدی کے انسان بائیو ٹیکنالوجی، جینٹک انجنیئرنگ، کمپیوٹنگ کا شاہکار ہوں گے۔ آنکھ  آرٹیفیشل لینز کی بدولت میلوں دور دیکھ سکے گی۔ 2020 سے انگلینڈ میں ایک نیا لینز دستیاب ہو گا، جو  آنکھ کو سب کچھ ہائی ڈیفینیشن میں اور کئی گناہ زیادہ دور تک دکھائے گا۔ سٹیم سیل ٹیکنالوجی اور مصنوعی مٹیریل سے تیار کردہ سپر اعضاء تیار کیے جائے گے، جو کبھی فیل نہیں ہوں گے۔


نیچرل ہسٹری میوزیم کے مطابق ایک ہزار برس زندہ رہنے والا شخص پیدا ہو چکا ہے۔ جی۔ ایک سو فی فیصد۔ ہاں۔ یہ صدی موت اور کینسر دونوں کی شکست کی صدی ہے۔ اگر آپ 2050 تک زندہ رہ سکتے ہیں اور آپ کے پاس ڈھیر سارا پیسہ ہے تو   آپ  آرام سے اگلے کم از کم 150 سال زندہ رہ سکتے ہیں۔ 2000 کے بعد پیدا ہونے والے (انسانوں کی دنیا میں) افراد کی اوسط عمر 150 سے 200 سال گنی جا رہی ہے۔

آئیں۔۔ عہد کریں۔۔ ہم مزید القادر یونیورسٹیاں بنائیں گے۔ پھر اس میں روحانیت پڑھا کر ان سب کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ ہمزاد، جن، پری، بھوت، نہ نظر آتے ہیں، نہ مرتے ہیں۔ سو الحمد اللہ ہم ابھی بھی کفار سے خود کو اس میدان میں  آگے پاتے ہیں۔۔۔ ہماری تعلیم کا ویسے بھی دنیا سے کیا مقابلہ۔ ہمارا بی اے پاس ماشااللہ سے اپنے لئے نوکری کی اچھی درخواست نہیں لکھ سکتا، باقی سب کچھ کر سکتا ہے۔ تعلیم کے اس منحوس نظام اور نصاب کو زمین بوس کئے بغیر ہم اس دنیا کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ تیس ہزار مدرسے اور کئی سو نام نہاد یونورسٹیاں کس قسم کی؟

مدارس لواطت اور طالبان پیدا کرنے میں بدنام ہیں تو دنیاوی تعلیم کی یونورسٹیاں ان کی تعلیم، طالب علم و استاد کو مذہب کا لبادہ  اوڑھ  کر قتل کر  ڈالتی ہیں۔ جاگ جائیں۔ شور مچائیں۔ تعلیم بدلیں۔ نسل بدلیں۔ آئیں شور مچائیں۔ کوئی نہیں سنے گا تو بھی اپنے حصے کا  چیخیں  تو سہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کے کالجز سے ڈراپ  آوٹ ہونے والے دنیا کے رہنما ہیں۔ یہاں انہیں مغربی اداروں سے پڑھ کر آنے والے پنوتی، بخشش کھانے والے یہ منی ڈکٹیٹر، اپنے ابے کی قبر کے مجاور بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حرام خور۔ اور پھر خوب تماشا لگا کر، عرس کے نام پر اپنے لئے مال بناتے ہیں، اس ناکارہ ہجوم کو کھوتا اور جاہل بنائے رکھتے ہیں۔ ۔ یہاں کے امیر سب بھاگ جائیں گے۔ یہ جاہل  گدھے  یوں ہی زندہ باد، مردہ باد کہہ کر ایک منحوس اور ذلالت بھری زندگی گزار کر، غربت کو اللہ کی طرف سے مشکل، موت اور بیماری کو اللہ کی رضا کہہ کر روز مرتے کھپتے رہیں گے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply