بلاوا کِس کو کہتے ہیں-تحریر/ایوب اسماعیل

2010 ایک ایسا سال جس نے میری زندگی کا رخ ہی بدل دیا ،آج تک میں فیصلہ نہیں کرپایا کہ اس سال کو میں اپنے اچھے دنوں میں شمار کروں یا تلخ ، پھر زندگی نے سمجھایا کہ وہ تو سفید اور سیاہ کا مجموعہ ہے ، اس سال میں نے اپنے والد کو کھویا تو اسی سال حمزہ کے آنے کی نوید بھی ملی اور اسی سال میں نے اہلیہ کے ہمراہ حج ادا کیا ۔

آج تک آپ نے جتنے بھی لوگوں سے حرمین جانے اور عمرہ و حج کرنے کے ذکر سُنے ہونگے یا سفرنامے پڑھے ہونگے ان سب میں تقریباً ایک قدر مشترک ضرور ملے گی اور وہ ہے حرمین جانے کی طلب اور تڑپ جبکہ میرے ساتھ معاملہ بالکل مختلف تھا، اب آپ دل میں کوس رہے ہونگے کہ یہ کیسا بندہ ہے جسے جانے کی خواہش ہی نہیں اور چلا ہے داستان لکھنے، لیکن جو بات تھی سو تھی اس لئے آگے پڑھنا چاہیں تو ضرور پڑھیں ورنہ آگے بڑھ جائیں ۔

میں نے اپنا پہلا عمرہ کا سفر اہلیہ والدہ اور بہن کے ساتھ 2003 میں کیا تھا اور اس وقت طبیعت میں لااُبالی پن اور مادیت پرستی بہت تھی، میں آج بہت شرمسار ہو کر کہتا ہوں کہ اس سفر نے مجھ پر ذرا بھی اثر نہیں ڈالا تھا ۔۔ایک ritual کی طرح عمرہ طواف اور حاضری دی اور بغیر کسی جذباتی وابستگی کے واپس لوٹ آیا ، سال گزرتے گئے اور میں اپنے کام کاج اور فیملی میں مصروف ہوگیا ۔

میری والدہ کو حرمین جانے کا بہت شوق رہا ہے وہ دو بار حج اور کئی عمرے کر چکی ہیں اور آج بھی ہمہ وقت تیار رہتی ہیں گو کہ گھٹنوں کے درد اور شوگر کی وجہ سے چار قدم چلنے سے بھی قاصر ہیں میں ان کے شوق کو صرف جذباتیت سمجھتا تھا مگر کچھ کہتا نہیں تھا ۔

پھر سال آیا 2010 ۔۔والد نے کہا کہ اس سال حج کر آوُ ،مگر میں نے ٹال دیا کہ ابھی میرے پاس دو افراد کے پیسے مکمل نہیں ہیں، اور حج میں اپنے پیسوں سے ہی کروں گا، انہوں نے سمجھایا بھی کہ ہر سال حج مہنگا ہوتا جارہا ہے تو آگے اور مشکل ہوجائے گی مگر میں نے سنی اَن سنی کردی ۔

غالباً  اپریل یا مئی میں والدہ نے مجھ سے کہا کہ اگر حج کا ارادہ نہیں ہے تو چلو دونوں عمرہ کر کے آتے ہیں ۔ میں نے پھر ٹال دیا کہ ایک عمرہ کرچکا ہوں اور یہ فرض بھی نہیں ہے اور ویسے بھی حج کیلئے اور جمع کرنے ہونگے تو انہوں نے کہا کہ تمہارا خرچ بھی میرے ذمے ہے، بس تم ساتھ چلو ،پر میں نے پھر بھی منع کردیا اور کہا کہ بڑے بھائی کے ساتھ چلی جائیں میرے ساتھ تو پہلے بھی جاچکی ہیں۔

بالآخر کچھ ناراض ہوکر انہوں نے بھائی کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا اور اگلے ماہ عمرہ کیلئے روانہ ہوگئیں، فون پر ان سے بات ہوجاتی اور خیریت دریافت کرلیتے ،اس وقت ویسے بھی اسمارٹ فون نہیں تھے اور کال مہنگی بھی ہوتی تھی، ایک ہفتے مکے میں رہنے کے بعد وہ مدینے چلی گئیں۔

مدینے پہنچنے کے اگلے دن مجھے خیال آیا کہ روضہ رسول پر سلام تو پہنچادوں۔۔ چنانچہ بھائی کو فون کیا اور سلام کی درخواست کی انہوں نے کہا کہ کل میں تمہارا سلام دے چکا ہوں ،مجھے بڑی شرم آئی کہ حضور اکرمﷺ کو تو خبر ہوگی کہ کس نے سلام کا کہا ہے اور کس نے نہیں تو میں نے پھر انہیں کہا کہ نہیں ابھی جا کر میرا نام لے کر سلام کہو۔۔ اور پھر والدہ سے بات کر کے فون رکھ دیا ۔

میں اس وقت دکان پر تھا، دوپہر کا وقت تھا سوچا کہ اوپر گودام میں سامان بکھرا ہوا ہے چلو اسے جا کر سمیٹ لوں ،اوپر جا کے سامان سمیٹا اور وہیں بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی ( حالانکہ میری دوپہر میں سونے کی عادت بالکل نہیں تھی ) اچانک مجھے کمرے میں کسی خوشبو کا احساس ہوا، بالکل ویسی جیسے حرمین کی فضاؤں میں پھیلی ہوتی ہے اور پھر مجھے ایک آواز سنائی دی ۔

” دوسروں کے ہاتھ سلام کیوں بھیجتے ہو ، خود کیوں نہیں آتے  ۔۔؟”

مجھے نہیں معلوم کہ وہ خواب تھا یا میرا واہمہ یا پھر کچھ اور مگر اس آواز میں ایک گِلہ  سا تھا مگر ناراضگی کے بغیر بالکل ویسے جیسے ہم اپنی فرمائش پوری کروانے کیلئے والدین سے شکوہ کرتے ہیں مگر لاڈ کے ساتھ مان کے ساتھ کہ ماننا ہی ماننا ہے ۔ اب میں جواب کیا دیتا آخر ہمت کر کے کہا کہ” بلائیں گے تو ضرور آوُں گا۔ ”

پھر صدا آئی جیسے کوئی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ( جیسے کسی کی چوری پکڑی گئی ہو ) کہہ رہے ہیں

” بلاوا بھیجا تو تھا۔ ”

اور اب میری وہ حالت کہ کاٹو تو خون نہیں کیونکہ سمجھ آگیا تھا کہ والدہ کے ساتھ بلاوا ہی تو آیا تھا، میں ہی بدنصیب تھا، جو دیکھ نہیں پایا ،کچھ دیر خود پر قابو پانے کے بعد لڑکھڑاتی آواز میں دھیمے سے پوچھا ۔

“اب آجاوُں ۔۔۔؟”

پھر وہی پیار بھری آواز ۔۔۔

” دروازہ کھلا ہے جب چاہے آجاؤ۔ ۔۔”

اور پھر میری آنکھ کھل گئی، اس وقت موسم اتنا گرم نہیں تھا اور پنکھا بھی چل رہا تھا مگر میں پسینے میں شرابور اور آنکھیں تھیں  کہ چھلک چھلک جارہی تھیں اسی وقت ملازم کو دکان سنبھالنے کو کہا اور والد صاحب کے پاس گھر پہنچ گیا اور کہا کہ مجھے اسی سال حج پر جانا ہے وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگے کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تک تو اسے نہیں جانا تھا اور اب اچانک کایاپلٹ ۔

پھر کہنے لگے اچھی بات ہے چلے جاؤ، ہمیں تو خوشی ہے ۔میں نے کہا کہ میرے پاس ساڑھے چار لاکھ جمع ہیں اور دو افراد کا اس سال پرائیوٹ حج تقریباً چھ لاکھ ہے مجھے جانا بھی اپنے پیسوں سے ہے اور قرض لے کر جانا نہیں چاہتا اب بتائیں کیا کروں ؟

انہوں نے کچھ سوچا اور پھر کہا کہ ڈیڑھ لاکھ میں دے دیتا ہوں تم جمع کرتے جانا حج سے پہلے ہوجائیں تو دے دینا ورنہ واپس آکر دے دینا اور پھر ہنس کر کہا کہ مرجاؤں تو میری طرف سے معاف ۔ (مجھے کیا خبر تھی کہ ایک ماہ بعد وہ ہمیں ہمیشہ کیلئے چھوڑ جائیں گے )

خیر ایک ہفتے کے اندر سارا پیپر ورک ہوگیا اور پھر مجھے اچانک خبر ملی کہ اہلیہ امید سے ہیں میں کچھ پریشان ہوگیا کیونکہ ابھی حج میں تین ماہ باقی تھے اور دورانِ  سفر مشکلات آسکتی تھیں گروپ کے امیر سے بات کی ،انہوں نے حوصلہ دیا اور کہا کہ آپ اپنی طرف سے پوری احتیاط کریں باقی آپ الله کے مہمان ہیں انشا اللہ سب بہتر ہوجائے گا ۔

بائیس اکتوبر کو ہماری روانگی ہوئی اور دو دسمبر کو بخیریت واپسی اور 17 اپریل کو حمزہ ہماری زندگی میں نئی خوشیاں لے کر آیا ۔ اس کے بعد تو الله نے ہمیں بار بار اپنے در پہ بلایا اور کوویڈ سے ایک ماہ پہلے اہلیہ دونوں بیٹیوں اور تینوں بیٹوں کو بھی عمرہ کی سعادت حاصل ہوئی اور اب بھی انشا الله ارادہ ہے کہ جیسے ہی حمزہ کینسر سے مکمل صحتیاب ہوجائے اسے پھر حرمین ساتھ لے جاؤں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تو تیاری حج کا رپورتاژ تھا، اگر زندگی رہی تو داستان حج بھی جلد لکھوں گا ۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا کہ بلاوا آتا رہے اور ہماری ارواح دُھلتی رہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply