اس کے علاوہ عجائب نگاری کی بہت زیادہ کوشش ہوتی ہے ۔ طلسم و سحر، نیرنگ و فسوں پر دفتر کے دفتر سیاہ کر دیے جاتے ہیں۔ بقول صغیر افراہیم داستان دراصل زندگی اور اس کی حقیقتوں سے فرار کا دوسرا نام ہے ۔ خواہشات کی تکمیل جب حقیقی عنوان سے نہ ہو پاتی تو تخیل کے سہارے ان کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی اس لیے انسان جب اپنے حالات سے فرار حاصل کرتا تو عموماً داستانوں کی دنیا میں پہنچ کر ذہنی و قلبی سکون حاصل کرتا۔صفدر امام قادری نے لکھا ہے۔”اردو میں داستانوں پر گفتگو کرتے ہوئے ہم اکثر اُن کی زبانی روایت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ یہ داستانیں تحریرکے قالب میں آنے سے پہلے زبانی روایت کا حصّہ تھیں لیکن اِسی کے ساتھ ہمیں یہ بات بھی یاد رہتی ہے کہ اِن داستانوں کو قلم بند کرنے کا سلسلہ بھی اردو کے حلقے میں بھی چار پانچ سو برس سے بھی ضرور قائم ہے۔ اس میں کچھ ترجمہ اور کچھ بادشاہوں کی فرمائش کا بھی ہاتھ رہا ورنہ ’سب رس‘ جیسی کتاب آج سے تقریباً چار سو برس پہلے کیسے سامنے آگئی ہوتی۔ سچّائی یہ ہے کہ ہماری موجودہ نسل داستانوں کو تحریری شکل میں ہی پڑھتی رہی ہے اور اُن کے الفاظ یا داستانی روایت کا مکمّل عرفان ہم نے کتابوں کے مطالعے سے کِیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چھاپہ خانے اور بدلتی ہوئی دنیا میں زبانی روایت کے معاملے محدود کر دیے اور رفتہ رفتہ ہم کتابوں میں سِمٹنے کے لیے مجبور ہوئے۔” برصغیر پاک وہند میں ویسے تو بہت سی داستانیں مشہور ہوئیں لیکن سب سے مشہور داستانِ امیر حمزہ تھی۔جب اسے فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا تو وہ بہت پھیلتی چلی گئی۔ 19 ویں صدی کے آخیر میں جب داستانِ امیر حمزہ کو چھپوانا شروع کیا گیا تو اُس کی کوئی 46 جلدیں بنیں۔ داستانِ امیر حمزہ کا ہی ایک ٹکڑا ہے طلسمِ ہوش رُبا جو نو جلدوں پر محیط ہے۔ ان 46 جلدوں کو اکٹھا کرنے اور پڑھنے اور تنقید کرنے کا کام بھارت کے نقاد شمس الرحمان فاروقی صاحب نے کیا۔ قصہ گوئی کے بارے میں اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ داستان گوئی کا کمال یہ تھا کہ بڑے بڑے مجمعوں میں داستان گو اپنی داستان اگر شروع کرتا تھا تو لوگ سحر زدہ حالت میں اسے سنتے تھے۔ وہ اپنی کہانی شروع کرتا تھا درمیان میں فرض کریں بادشاہ کا ذکر آیا تو مجمع میں سے ہی ایک شخص بادشاہ کے لباس میں ملبوس بادشاہ کی کہانی شروع کر دیتا تھا۔ پھر فرض کریں ذکر آیا ملکہ کا تو ایک اور شخص ملکہ کے لباس میں موجود ملکہ کی کہانی شروع کرتا تھا۔ گویا داستان گو حضرات نے ایسا ڈرامائی تاثر قائم کیا تھا جسے ایک زمانے تک عوام میں پذیرائی ملی”۔ میر باقر علی اردو داستان گوئی اور دلی کی تہذیب کی آخری نشانی تھے ۔ داستان گوئی کے فن میں میر باقر علی نے خصوصی شہرت حاصل کی تھی یہ ان دنوں کی بات ہے جب دلی ہندوستان کا دل تھی۔ قلعہ برباد ہو چکا تھا لیکن شاہجہانی دہلی کے یادگارِ زمانہ لوگ اس کے سہاگ کی داستان اور آپ بیتیاں گھر گھر سناتے نظر آتے تھے۔ میر باقر علی داستان گو بھی اسی دلی کی یادگار ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی داستان گوئی کا فن بس انہی پر ختم ہے۔ تحریری شکل میں ان کی کل 17 داستانیں بطور یادگار موجود ہیں۔ جن میں سے پہلی داستان یہی کتاب “خلیل خاں فاختہ” ہے۔
میر باقر علی داستان گو 1850ء میں دہلی میں پیدا ہوئے اور 1928 میں ان کا انتقال ہوا۔ میر صاحب کے بزرگ ایران سے ہندوستان تشریف لائے تھے۔ میر باقر علی نے داستان گوئی کا فن اپنے ماموں میر کاظم علی سے سیکھا تھا جو اس وقت نظام حیدرآباد کے ہاں داستان گو مقرر تھے۔
میر باقر علی داستان کیا کہتے تھے چلتی پھرتی تصویریں پیش کرتے تھے بلکہ یوں کہیے خود تصویر بن جاتے تھے۔ اہل علم اور بڑے بڑے راجہ نواب انہیں یاد فرمایا کرتے تھے خصوصاً نظام حیدرآباد اور رام پور، لوہارو، دوجانہ، مالیرکوٹلہ، پٹیالہ، کشمیر وغیرہ کے والیانِ ریاست نے میر صاحب کے فن کی بڑی قدر و منزلت کی اور انہیں ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھایا
۔یہ فن انہیں اپنے ننھیال سے ملا تھا۔ان کے نانا میر امیر علی اور ماموں میر کاظم علی کا تعلق دہلی دربار سےتھا ۔ یہ دونوں مانے ہوئے داستان گو تھے ۔1890 میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام میر حسن علی تھا۔کم عمری میں والد کے انتقال کے بعد ننھیال میں پرورش پائی،اور غالباًنانا اور ماموں کے ساتھ محفل داستان سرائی کی محفلوں میں شرکت سے بچپن ہی سے داستان گوئی سے رغبت پیدا ہوگئی،اور ایسی رغبت پیدا ہوئی کہ اس فن میں امام کا درجہ پایا۔ انہوں نے 18مارچ 1928 کو دہلی میں انتقال فرمایا۔شاہد احمد دہلوی نے ان کی داستان گوئی کی محفل کا نقشہ یوں کھینچا ہے کہ “اجلی اجلی چاندنیوں کے فرش بچھ جاتے،میر صاحب کے لئے ایک چھوٹا سا تخت لگا دیا جاتا اس پر قالین اور گاؤ تکیہ ہوتا۔سامعین گاؤ تکئے سے لگ کر بیٹھ جاتے۔پان اور حقہ کا دور چلتا ۔گرمیوں میں شربت اور جاڑوں میں چائے سے تواضع کی جاتی۔یہ صاحب تخت پر براجمان ہوتے۔کٹورے یا گلاس میں پانی منگواتے ۔جیب سے چاندی کی ڈبیا اور چاندی کی چھوٹی سی پیالی نکالتے ۔ڈبیا سے افیون کی گولی نکالتے۔اسے دوائی میں لپیٹتے ۔پیالی میں تھوڑا سا پانی نکال کر اس میں گھولتے رہتے۔اور دوستوں سے باتیں کرتے رہتے۔جب ساری افیون پانی میں آجاتی تو روئی نکال کر اگالدان میں پھینک دیتے۔اور گھوٹوے کی چسکی لگا لیتے۔اس کے بعد چائے کا ایک گھونٹ پیتے۔اور فرماتے “چائے کی خوبی یہ ہے کہ لب بند ، لب ریز اور لب سوزہو”پھر داستان شروع کر دیتے۔ 16ویں صدی میں پنپنے والی داستان گوئی کی صنف کا سلسلہ ختم ہوئے زیادہ عرصہ نہیں بیتا۔ دلی کے آخری داستان گو میر باقرعلی کا انتقال 1928 میں ہوا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ داستان گوئی کے قواعد کے بارے میں زیادہ کوئی علم موجود نہیں ہے۔ داستان گوئی سے متعلق مرزا اسد اللہ خاں غالب کا خیال ہے کہ ”داستان طرازی من جملہ فنون سخن ہے ، سچ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے ۔“ بقول کلیم الدین احمد ”داستان کہانی کی طویل پیچیدہ اور بھاری بھرکم صورت ہے ۔“ گیان چند جین کے مطابق ”داستان کے لغوی معنی قصہ۔ کہانی اور افسانہ کے ہیں۔ خواہ وہ منظوم ہو یا منثور۔ جس کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ضرور ہو اور جس میں فطری اور حقیقی زندگی بھی ہو سکتی ہے اور اس کے علاوہ غیر فطری، اکتسابی اور فوق العادت شاذ و نادر فوق العجائب بھی ہو سکتے ہیں۔ افسانوں کی قسموں میں داستان ایک مخصوص صنف کا نام ہو گیا تھا۔“ یورپ میں جو عاشقانہ داستانیں تصنیف کی جاتی تھیں اور ان میں کچھ کہانیاں ہیجان انگیز اور پْرکشش ہوتی تھیں وہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ ان تخیلی عاشقانہ داستانوں کو ”رومان“ کہا جاتا تھا۔ رومان کی کئی قسمیں ہوتی تھیں۔ اردو میں تاریخ گوئی اور داستان گوئی ایک عرصے سے ہورہی ہے جس پر فارسی ادبیات کا خاصا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھی گئی۔ اس سلسلے میں تسلیم سہوانی کی ” ملخص تسلیم بہ زبان فارسی {۱۸۸۵۔} ۔۔ الم کی ” گبن تاریخ”{۱۸۹۵}، کافی مشہور ہوئی۔ اس حوالے سے حافظ فیروز الدین کی ایک عمدہ کتاب” تاریخی خزانہ ” ہے۔
یگانہ نجمی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ” پچھلی صدی میں داستان نگاری کا فن عروج پر نظر آتا ہے ۔اس زمانے میں جو داستانیں منظر عام پر آئیں ان میں خواجہ سگ پرست ، شہزاد جانِ عالم کی سواری ، حمام بارد گرد وغیرہ شامل ہیں ۔بلا شبہ تمام داستانیں انسان کو زمانے کے پیچ وخم اور مصیبت واکرام میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے نصیحت ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کیا موجودہ دور کا قاری اس سائنسی ایجاد کے اس دور میں داستانوں کی طرف راغب ہوسکتا ہےآج کل کے قاری کے پاس تو ایسی طویل داستانوں کو پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں وہ جدید ٹیکنالوجی کا عادی ہے جب کہ اس ٹیکنالوجی کو بنانے والے کے ہاں سائنس فکشن پر مبنی ناول اور مختصر کہانیاں تخلیق پا رہی ہیں تو اس کا دائرہ انگریزی ادب تک محدود ہے جس کی مثال مشہور ناول ’’ہیری پوٹر‘‘ہے جس میں داستان کی طرح واقعہ در واقعہ سمونے کی کوشش بڑی کامیابی سے کی گئی ہے ۔ لیکن ہم اہل مشرق سےاردو ادب میں اس سلسلے میں کوئی کام نہیں ہورہا اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی امید رکھی جاسکتی ہے اس لیے کہ انگریزی ادب پڑھنے والے خال خال ہیں جو اس قسم کی کہانیاں بہ طور اسٹیٹس پڑھتے ہیں ،اور اردو زبان کی ترقی تو ہمارے ملک میں ویسے بھینہیں اورادب تو پہلے ہی داؤ پر لگا ہوا ہےلیکن کیا موجودہ دور کا قاری اس سائنسی ایجاد کے اس دور میں داستانوں کی طرف راغب ہوسکتا ہےآج کل کے قاری کے پاس تو ایسی طویل داستانوں کو پڑھنے کے لیے وقت ہی نہیں وہ جدید ٹیکنالوجی کا عادی ہے جب کہ اس ٹیکنالوجی کو بنانے والے کے ہاں سائنس فکشن پر مبنی ناول اور مختصر کہانیاں تخلیق پا رہی ہیں تو اس کا دائرہ انگریزی ادب تک محدود ہے جس کی مثال مشہور ناول ’’ہیری پوٹر‘‘ہے جس میں داستان کی طرح واقعہ در واقعہ سمونے کی کوشش بڑی کامیابی سے کی گئی ہے ۔ لیکن ہم اہل مشرق سےاردو ادب میں اس سلسلے میں کوئی کام نہیں ہورہا اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی امید رکھی جاسکتی ہے اس لیے کہ انگریزی ادب پڑھنے والے خال خال ہیں جو اس قسم کی کہانیاں بہ طور اسٹیٹس پڑھتے ہیں ،اور اردو زبان کی ترقی تو ہمارے ملک میں ویسے بھی نہیں اورادب تو پہلے ہی داؤ پر لگا ہوا ہے” { “داستان گوئی’ خیال یا حقیقت” روزنامہ جنگ کراچی، میگزین 29 جولائی 2020}۔
داستان گوئی سے متعلق مرزا اسد اللہ خاں غالب کا خیال ہے کہ ”داستان طرازی من جملہ فنون سخن ہے ، سچ ہے کہ دل بہلانے کے لیے اچھا فن ہے ۔“ بقول کلیم الدین احمد ”داستان کہانی کی طویل پیچیدہ اور بھاری بھرکم صورت ہے ۔“ گیان چند جین کے مطابق ”داستان کے لغوی معنی قصہ۔ کہانی اور افسانہ کے ہیں۔ خواہ وہ منظوم ہو یا منثور۔ جس کا تعلق زمانہ گذشتہ سے ضرور ہو اور جس میں فطری اور حقیقی زندگی بھی ہو سکتی ہے اور اس کے علاوہ غیر فطری، اکتسابی اور فوق العادت شاذ و نادر فوق العجائب بھی ہو سکتے ہیں۔ افسانوں کی قسموں میں داستان ایک مخصوص صنف کا نام ہو گیا تھا۔“ یورپ میں جو عاشقانہ داستانیں تصنیف کی جاتی تھیں اور ان میں کچھ کہانیاں ہیجان انگیز اور پْرکشش ہوتی تھیں وہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی تھیں۔ ان تخیلی عاشقانہ داستانوں کو ”رومان“ کہا جاتا تھا۔ رومان کی کئی قسمیں ہوتی تھیں۔ اردو میں تاریخ گوئی اور داستان گوئی ایک عرصے سے ہورہی ہے جس پر فارسی ادبیات کا خاصا اثر دکھائی دیتا ہے۔ اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھی گئی۔ اس سلسلے میں تسلیم سہوانی کی ” ملخص تسلیم بہ زبان فارسی {۱۸۸۵۔} ۔۔ الم کی ” گبن تاریخ”{۱۸۹۵}، کافی مشہور ہوئی۔ اس حوالے سے حافظ فیروز الدین کی ایک عمدہ کتاب” تاریخی خزانہ ” ہے۔
حوالے جات:
ہماری داستانیں۔ سیدوقار عظیم، مکتبہ عالیہ زیارت خرمہ والی۔ راج دوارہ، رامپور، یو.پی.، طبع اول نومبر1968 اردو زبان اور فنِ داستان گوئی۔ کلیم الدین احمد، ادارہ فروغ اردو امین آباد، پارک لکھنوٴ اتر پردیش اردو اکادمی لکھنوٴ اردو کی نثری داستانیں۔ ڈاکٹر گیان چند جین، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنوٴ فارسی زبان میں داستان نویسی کا آغاز و ارتقا۔ ڈاکٹر محمد استعلامی کناڈا، ترجمہ رئیس احمد نعمانی داستانوں کی تکنیک۔ ڈاکٹر گیان چند جین، رسالہ آج کل، دہلی جولائی 1955، ص8-9 اردو داستان تنقید و تحقیق۔ سہیل بخاری، پاکستان، ص۔47-50 نثری داستانوں کا سفر۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم، ایجوکیشنل بک ہاوٴس، علی گڑھ یو.پی. ص۔22 :۔۔”میر باقر علی داستان گو – داستانیں اور داستان گوئی ” ازعقیل عباّس جعفری، انجمن ترقی اردو، پاکستان 2014۔۔۔۔ محمد فاروقی اور محمود کاظم نے بھی ” داستان گوئی” کے نام سے کتاب لکھی ہے۔ یہ کتاب عرشیہ پبلیکیشنز دہلی نے 2011 مین شائع کی۔
{احمد سہیل} 📗📘📚🖋
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں