علی اکبر کا ناول:”نو لکھی کوٹھی“/تبصرہ:نعیم اشرف

گزشتہ دنوں علی اکبر ناطق کا تحریر شُدہ ناول ”نو لکھی کوٹھی“ پڑھا۔ یہ ایک تاریخی ناول ہے جو متحدہ ہندوستان کے وسطی پنجاب میں 1930ء کی دہائی سے لے کر 1990 ء کی دھائی تک کی نصف صدی پر محیط طویل دورانئے میں زندگی کرنے والے، چند افراد کی زندگیوں کے گرد گھومتی کہانی ہے۔ اس کہانی کی بنت بہت خوبصورت ہے۔ وسطی پنجاب کی تہذیب و ثقافت بہت بارک بینی سے بیان کی گئی ہے۔ منظر کشی اتنی باریک ہے کہ قاری اپنے آپ کو ان جگہوں پر گھومتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔ ناول کے شروع میں ہی ہماری ملاقات اس کے مرکزی کردار برطانوی باشندے ولیم سے ہوتی ہے۔ولیم کا خاندان ہندوستان میں افسر شاہی کے حوالے سے اہم ہے۔پچاس سال قبل انگلستان سے ہندوستان میں تعینات ہونے والے خاندان میں ولیم کا باپ جانس اور دادا گوگیرہ یک بعد دیگرے پنجاب میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں۔
ہماری ملاقات ولیم سے بحری جہاز میں اس سمے ہوتی ہے جب وہ انگلستان میں آٹھ سال گزار کر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہندوستان واپس پہنچ رہاہے۔ اپنے دادا گوگیرہ اور باپ جانسن کی طرح ولیم بھی سول سروس کے لئے منتخب ہو چکا ہے۔ منٹگمری کے نواع میں اپنے دادا کے ہاتھوں بنایا گیا ایک وسیع و عریض اور عالیشان بنگلہ العروف ”نو لکھی کوٹھی“ میں گزرے بچپن کے دن یاد کر رہا ہے۔ ولیم کو ہندوستان کی سر زمین بہت بھاتی ہے۔ آنے والے سالوں میں وہ ہندوستان میں مختلف تحصیلوں اور اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر رہ کر ذرعی اصلاحات کے حوالے سے بہت کام کرواتا ہے۔ وہ مقامی لوگوں میں آگاہی اور تعلیم کو فروغ دینے کی بھی کوشش بھی کرتا ہے۔ مگر اس کی سینیئر انگریز افسر شاہی اس کو ایسے کام سے باز رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
اس اثناء ہندوستان کی تقسیم ہو جاتی ہے۔ پاکستان وجود میں آ جاتا ہے۔ مگر ولیم اس جگہ اور خاص کر ”نو لکھی کو ٹھی“ کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ وہ یہاں پر ہی ریٹائرڈ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس سے اس کا آبائی بنگلہ چھین لیا جاتا ہے اور وہ کہیں اور منتقل ہو کر کسموپرسی کی حالت میں مر جاتا ہے۔۔۔اس طرح ولیم کی روکھی پھیکی داستان اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔
غلام حیدر اس کہانی کا دوسرا بڑا کردار ہے۔ اس کا تعارف ناول کے شروع میں ہی بڑے حقیقی انداز سے کروایاگیا ہے کہ یہ پنجاب میں ز مینداروں کا عام چلن ہے:
”شیر حیدر کی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا غلام حیدر کلکٹر بنے۔ اس سلسلے میں اسے میٹرک کے بعد لندن بھیجا گیا،مگر غلام حیدر نے وہاں خاص کامیابی حاصل نہ کی اوردو سال بعد ہی لوٹ آیا۔ ویسے بھی ہندوستانیوں کا اِس معیار پر پورا اُترناکچھ خالہ جی کا کھیل نہ تھا۔ البتہ تعلیم کا سلسلہ جاری رہااور وہ گورنمنٹ کالج سے بی اے کر گیا۔شیر حیدر اپنے بیٹے کو کسی نہ کسی طرح اقتدار کی حویلیوں تک لے جانا چاہتا تھا۔جس کے لئے بڑے اور پڑے لکھے لوگوں میں اُٹھنے بیٹھنے کے آداب، جلال آباد(آبائی بستی) کے دیہاتیوں سے دُور رہ کر ہی آ سکتے تھے۔اس بات کے پیشِ نظر لاہور میں اُس کے لئے ایک کوٹھی بنوا دی۔جہاں دو چار ملازم بھیج دئیے گئے۔اس طرح لاہور میں طویل قیام نے غلام حیدر کے مزاج میں ایک تہذیبی رچاؤ داخل کر دیا۔پیسے کی کمی نہیں تھی جس کے سبب اعلیٰ سوسائٹی اور کلبوں میں آمدو رفت کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔انہی مشاغل میں بہت سے ایسے دوست نکل آئے، جن کا تعلق اقتدار کے حلقوں میں تھا۔ ان میں خاص کر دو دوست میجر رچرڈ اور نواب افتخار، غلام حیدر کے ساتھ کچھ زیادہ ہی شیر و شکر ہو گئے۔میجر رچرڈ جو بعد میں کرنل بن گئے تھے، ایک دفعہ غلام حیدر کے ساتھ سیر و شکار کے لئے جلال آباد بھی جا چُکے تھے۔نواب افتخار کی زمین بھی اسی طرف تھی۔اس لحاظ سے یہ تعلق ایک ثلاثہ بن گیا تھا کہ اچانک نواب افتخار لندن چلا گیا اور چار سال تک اس کے آنے کا امکان نہ رہا۔جب کہ کرنل بنارس کی پوسٹنگ بنارس ہو گئی۔ اس طرح یہ سلسلہ بیچ میں ہی رہ گیا۔البتہ اتنا ہوا کہ وہ جاتے جاتے ایک ولایتی بندوق بمعہ لائسنس غلام حیدر کو تحفے میں دے گیا۔(صفحہ: 34)
غلام حیدر کے مرحوم باپ شیر حیدر کا خاندان سکھ دشمنی کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہ دشمنی جو کبڈی کے مقابلے سے غلام حیدر کے دادا اور سردار سودھا سنگھ کے باپ کے مابین شروع ہوئی تھی سال ہا سال سے چلی آتی ہے۔ ناول میں قاری سے غلام حیدر کی ملاقات اس وقت ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے باپ کے سکھوں کے ہاتھوں قتل کے بعد جلال آباد پہنچتا ہے۔ والد کی وفات کے تیسرے روز سکھوں کی طرف سے غلام حیدر کی ملکیت ایک گاؤں پر حملہ ہو جاتا ہے۔ سکھ حملہ کر کے اس کے ایک پرانے نمک خوار سمیت دو اور افراد کو قتل کر کے مال مویشی چُرا کر لے جاتے ہیں۔ یہ افراد سردار سودھا سنگھ کے بھجوائے گئے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کہانی کا تیسرا اہم کردار سردار سودھا سنگھ ہے۔ جو شیر حیدر کی وفات کے بعد اس کے نا تجربہ کار اور نو وارد بیٹے سے پرکھوں کا انتقام لینے کے بہانے یک بعد دیگرے اس کی عملداری میں جلال آباد سے ملحقہ دیہات پر حملے کروا کر لوٹ مار کرواتا ہے۔ غلام حیدر پُر امن طریقے سے انگریز سرکار کے اعلی ٰ عہدے داران جن میں کہانی کا اہم کردار ولیم بھی شامل ہے، انصاف کی فراہمی کے لئے کوشش کرتا ہے۔ مگر انگریزوں اور مہاراجہ کشمیر سودھا سنگھ کی پشت پنائی اور ساز باز کی وجہ سے شنوائی نہیں ہو پاتی۔بالآخر غلام حیدر اپنے والد کے پرانے نمک خوار مگر جرائم پیشہ شخص ملک بہزاد کی معاونت سے سودھا سنگھ سمیت پندرہ افراد کو دن دھاڑے اپنی ولائتی رائفل کی گولیوں سے چھلنی کر کے فرار ہو جاتا ہے۔ وہ رو پوش ہو نے کے لئے نواب افتخارکی مدد حاصل کرتا ہے۔ جو اس کے والد کے دوست ا بیٹا اور بچپن کا دوست ہے۔۔ نواب صاحب غلام حیدر کو کشمیر کے کسی دور دراز کے علاقے میں دس سال کے لئے روپوش کروا دیتے ہیں۔
جب تحریک پاکستان زور پکڑتی ہے اور مسلم لیگ کو غلام حیدر جیسے جّری نوجوانوں کی ضرورت پڑ تی ہے۔ تو قائد اعظم وائسرائے ہند سے سفارش کر کے عدالت کے مفرور اور روپوش غلام حیدر کو پندرہ افراد کے قتل میں دی گئی سزائے موت معاف کروا کر با عزت بری کروا دیتے ہیں۔ اور یہ کام نواب افتخار کے کہنے پر کیا جاتا ہے۔ جو قائد اعظم کے قریبی دوستوں میں سے ہیں۔نواب افتخار ممدوٹ غلام حیدر کی سزا معاف کروانے کے لئے قائداعظم محمد علی جناح کو اپنی من گھڑت کہانی کیسے سناتے ہیں؟ ملاحظہ ہو::
”مثلاً؟ جناح نے وضاحت چاہی۔
مثلاً، میرا ایک دوست غلام حیدر ہے(نواب نے منصوبے کے مطابق اب کہانی شروع کی) جس نے میرے ساتھ ایچی سن کالج سے بی اے کیا ہے۔وہ مسلم لیگ کا انتہائی سر گرم رکن ہے۔ اس پر اسی دن سے پورے پندرہ بندوں کا مقدمہ درج ہے۔ جس دن اس نے مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی تھی۔اس کی وجہ سے وہ پچھلے دس سال سے روپوش ہے۔ اور اپنے علاقے میں داخل نہیں ہو سکا۔ عدالت اس کی غیر مو جودگی میں اسے سزائے موت سنا چکی ہے۔ بیچارہ پتہ نہیں کہاں جان بچاتا پھر رہا ہے۔ اس کا مال اور جائداد ضبط کی جا چکی ہے۔ پڑھا لکھا اور شریف زمیندارہونے کے ساتھ علاقے میں اس کی حیثیت ایک با اثر مسلم لیگ کے کارکن کی ہے۔ اس کی شرافت اور ہر دل عزیزی کی وجہ سے سینکڑوں ووٹ اس کی جیب میں ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں،جب اتنے اہم شخص کے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے تو پھر ان کی کیا حیثیت ہے؟اس پر بلا جواز مقدمات درج کر کے فیروز پور میں مسلم لیگ کی تحریک کو سبو تاژکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور سرور بہکاں والے کو مجھ پر سوار کرایا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے جب تک میری گاڑی میں غلام حیدر نہیں بیٹھ جاتااور میرے جلسوں میں شریک نہیں ہو جاتا، مجھے الیکشن نہیں لڑنا چاہیے۔ورنہ ذلت سے دوچار ہونا پڑے گا۔۔۔“
”اوکے دیکھتے ہیں۔ جناح نے اٹھتے ہوئے کہا۔ تم الیکشن کی تیاری کرو، میری تین تاریخ کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات ہے۔“اتنا کہہ کرجناح صاحب دوبارہ اپنے کمرے کی طرف چل پڑے اور مزیدایک لفظ بھی کہنا گوارا نہ کیا۔۔۔
نواب افتخار، جناح کے اٹھتے ہی خود بھی جلدی سے تکریم کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا اور اُسے جاتے ہوئے دیکھنے لگا۔جناح کا کہنا”تُم الیکشن کی تیاری کرو“ کا مطلب تھا، کام اسی فیصد ہو چُکا ہے اور واقعی وہی کچھ ہوا۔دو ہفتے بعد ہی جلال آبادتحصیل میں غلام حیدر کی سزا کی معافی اوراُ س کی جائداد کی واپسی کا حکم پہنچ گیا۔ یہ ایک ایسا معجزہ تھا جو فی الحال کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ اِتنے زیادہ قتل کا مقدمہ، جس میں غلام حیدر کے اشتہاری ہونے کے بعد اُس کو سزائے موت ہو چُکی تھی، کا آ ّسانی سے ختم ہو جانا سمجھ میں نہیں آتا تھا۔وہ بھی انگیز سرکار میں۔۔۔۔“(صفحہ نمبر : 9 33)
”ہوا یہ کہ جناح صاحب کو ماونٹ بیٹن کے ساتھ ملاقات میں نواب افتخار کی بات یاد تھی۔ انہوں نے اس تشویش کا اظہار لارڈ صاحب سے کر دیاکہ گورنمنٹ پنجاب میں ان کے خلاف سازش بُن رہی ہے۔ اس بات کا لارڈ صاحب نے فوراً انکار کر دیا اور کہا اس بات کا ثبوت دیں۔جناح نے نواب افتخار کے حوالے سے غلام حیدر پر مقدمات کا ذکر کر دیا، جس کی تفصیل بعد میں انھوں نے خود معلوم کر لی تھی۔ ماونٹ بیٹن نے غلام حیدر کی خوش بختی سے وہیں بیٹھے جناح صاحب کی تشویش دور کرنے کے لئے گورنر صاحب کو فون کر مارا اور کسی لہر میں آ کر یہ بات کر دی’غلام حیدر پر قائم تمام مقدمات فوری طور پر اُٹھا لئے جائیں۔گورنمنٹ اس کی سزا معاف کرتے ہوئے اس کو بری کرتی ہے۔۔۔“ (صفحہ 340:)۔ہندوستان برطانیہ کے تسلط کے خاتمے کے بعد تقسیم ہو جاتا ہے۔ پاکستان وجود میں آجاتا ہے۔ دونوں اطرف بڑے پیمانے پر ہجرت ہوتی ہے۔ہندو مسلمان اور سکھ آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔ خون کی ندیاں بہہ جاتی ہیں۔ دوست دشمن بن جاتے ہیں۔ عورتیں بے آبرو ہو جاتی ہیں۔ کنواری لڑکیاں اپنی عصمت بچانے کے لئے دریاوں اور کنؤوں میں کودنا گوارا کر لیتی ہیں۔ غلام حید پاکستان کی طرف آتے ہوئے، سرحد عبور کرتے ہوئے،ہندوستانی بارڈر سیکورٹی فورس سے بھڑ جاتا ہے۔ جو اس کو گولی مار دیتے ہیں۔
کہانی کاچوتھا کردار مولوی کرامت ہے۔ مولوی کرامت ایک نادار امام مسجد ہے۔مگر ولیم کی نظر کرم سے ایک منشی یعنی استاد کے رتبے پر فائز ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی میں بہت محنت کرتا ہے۔ اور اپنے اکلوتے بیٹے فضل دین کو معقول تعلیم دلوانے میں کامیاب ہوتا جاتاہے۔فضل دین لاہور جا کرایچی سن کالج جیسے ادارے سے تعلیم حاصل کر کے، اپنے باپ کے پرانے مربی ڈپٹی کمشنر ولیم، جو، اب لاہور میں افسر بکارِ خاص تعینات ہے، کی مدد سے گورنر ہاوس میں ایک بابو تعینات ہو جاتا ہے۔ مگر اپنی تیزی طراری اور چاپلوسی کی مدد سے ایک بڑے عہدے تک جا پہنچتا ہے ۔دریں اثناء پاکستان معرض وجود میں آجاتا ہے۔ پاکستان ببنے کے بعد فضل دین کی چاندی ہو جاتی ہے۔ وہ بے پناہ اراضی اپنے نام کروا لیتا ہے۔ مولوی کرامت کی وفات کے بعد فضل دین لاہور اور پنجاب کی معزز شخصیت بن کر ابھرتا ہے۔
یوں ناول کے یہ چار کردار اپنی اپنی رام کہانی ناول میں پیش کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔ بغیر کسی کلائمکس، بغیر کسی موثر پیغام کے اور خاص کر بغیر کسی نئے زاویہِ نظر کے۔۔۔اس کہانی میں اگر ربط ہے تو وہ غلام حیدر اور سودھا سنگھ کا یا پھر کسی حد تک ولیم اور مولوی کرامت کا۔
یہ ناول مجموعی طور پر فنی اعتبار سے ایک اچھا ناول ہے اور کسی حد تک ادب کی کسوٹی پر بھی پورا اترتا ہوگا مگر فکری،تاریخی و زمینی حقائق کے بیان کے اعتبار سے ایک کمزور ناول ہے۔ اس کی دیگر کے علاوہ درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:
اول: بانیئ پاکستا ن محمد علی جناح سے عقیدت رکھنے والے لوگ ان کے حوالے سے بغیر تحقیق کے کہی گئی باتیں پڑھ کر ُدکھی ہوسکتے ہیں۔
دوئم: محمد علی جناح کی قد آور شخصیت اور پیشہ وارانہ مہارت کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو جناح کے ایک زیرک اور ذہین وکیل ہونے پر کسی کو کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں ۔یہ کیسے ممکن ہے کہ جناح بغیر کسی تحقیق کے ایک پندرہ افراد کے قاتل اور روپوش مفرور کی وکالت لارڈ ماونٹ بیٹن سے کرتے ہوئے اس کو بری کروا دیں۔ جناح کی شخصیت و کردار کے حوالے سے یہ بات قرین از قیاس نہیں۔۔۔۔
سوئم: تاریخی حوالے دیکھا جائے تو یہ بات بھی واضح ہے کہ پاکستان جس طریقے سے بھی وجود میں آیا، اس طریقے پر تو بات ہو سکتی ہے مگر پاکستان آج ایک حقیقت ہے۔ہمارے رہنماوں و اکابرین و اجداد سے ضرور غلطیاں ہوئی ہونگی اور تاریخ کسی کو بھی معاف نہیں کرتی۔ مگرہمارے ادیب کے لئے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اپنے وجود ، اپنی دھرتی ماں سے نفرت کر کے کسی بیماری کا علاج ممکن نہیں ہے۔
چہارم: مطالعہ پذیری (Readibilty) کے اعتبار سے بھی ناول کی 431 صفحات پر مشتمل طویل داستان جگہ جگہ روکھی پھیکی، رومان سے تہی دامن محسوس ہوتی ہے۔ جو مارا ماری، منافرت، دشمنی،بد امنی اور خطرات سے پراگندہ مناظر پیش کرتی ہے۔ پنجاب میں پُر امن محبت کرنے والے،وفا شعار اور برداشت اور معاف کر دینے والے لوگ بھی بستے ہیں۔ یہ بابا گرو نانک، علی ھجویری، سلطان باہو اور وارث شاہ کا دیس ہے جن کی تعلیمات سے محبت یگانگت اور امن کی خوشبو آتی تھی۔ ادب تخلیق کرتے وقت توازن اور زمینی حقائق سے رو گردانی نہیں ہونی چاہئے۔ اس سب کے با وجود ”نو لکھی کوٹھی“ ادبی منظر پر ایک بہر حال ایک اہم اضافہ ضرورہے۔

Facebook Comments