جناب خضر علیہ السلام اسلام آباد میں ۔۔۔ محمد اشفاق

سید پور ماڈل ولیج کے دیس پردیس ریسٹورانٹ سے سیڑھیاں اوپر پہاڑی کو جاتی ہیں۔ آپ کچھ اوپر پہنچتے ہیں تو “کافی ہٹ” آتا ہے جو اب غالباً بند ہو چکا ہے- مزید اوپر جانے پر لینڈ سکیپ ایک دم سے بدلتا محسوس ہوتا ہے- ماڈل ولیج کے رنگ اور خوشبوؤں کے سیلاب سے نکل کر آپ درختوں کے جھنڈ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہاں درخت بھی عجیب و غریب سے دکھائی دیتے ہیں، برگد اور سوہانجنا بھی جو عام طور پر اس علاقے میں نہیں پایا جاتا۔ ایک بوڑھا برگد اب تین درختوں میں تبدیل ہو چکا ہے اور اپنی زمین میں گڑی ہوئی جٹاؤں کے ساتھ بہت پراسرار سا لگتا ہے- اس سے آگے جاتے ہی آپ کو ایک نیم پختہ سی چاردیواری دکھائی دیتی ہے، جیسی عام طور پر پٹرول پمپس یا مسافر خانوں کے ساتھ واقع جائے نماز ہوتی ہے- یہ لوکل لیجنڈ کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام کی جائے نشست ہے- آپ جب اسلام آباد کے دورے پر تشریف لاتے ہیں تو یہاں استراحت فرماتے ہیں۔

حضرت خضر کی نشست گاہ کے قریب ہی ایک قبر پائی جاتی ہے- یہ مائی صاحبہ کی قبر ہے جو اس نشست گاہ کی اولین خدمت گار تھیں۔ ان کا تعلق کشمیر سے تھا۔ آج سے ساٹھ ستر برس قبل انہیں خوابوں میں ایک بزرگ ہستی دکھائی دینے لگی جو انہیں ایک مخصوص مقام پر آنے کی تاکید کرتی تھی۔ یہ خاتون ان مسلسل خوابوں سے پریشان ہو کر گھر سے نکل پڑیں، خواب ہی ان کی راہنمائی کرتے رہے اور ایک روز انہیں اس مقام پر لے آئے۔ اگلے تیس چالیس برس مائی صاحبہ اس مقام کی صفائی اور خبر گیری پہ مامور رہیں۔ ہم نے تو بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ہی میں دیکھ رکھی، مگر پنڈی اسلام آباد کی پرانی نسلیں جانتی ہیں کہ کبھی سید پور میں بھی دو دو فٹ تک برف باری ہوا کرتی تھی۔ ان شدید سردیوں میں بھی مائی صاحبہ کا ٹھکانہ یہی ہوا کرتا تھا، یہیں فوت ہوئیں اور یہی مقام ان کی آخری آرام گاہ بنا۔

حضرت خضر کی نشست گاہ کے موجودہ نگران ستر برس کے خان بابا ہیں۔ دراز قامت، سیدھی کمر، سفید داڑھی والے ملنسار اور خلیق بابا کی کہانی مائی صاحبہ سے بھی دلچسپ ہے- مائی کی وفات کے بعد کئی برس یہ مقام کسی نگراں سے محروم رہا۔ مقامی لوگ کبھی کبھار صفائی کر دیا کرتے تھے۔ بابا جی ان دنوں مزدوری کرنے خیبر پختونخوا سے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ ایک روز ان کے سینے میں شدید درد اٹھا، انہیں ہسپتال لے جایا گیا، معلوم ہوا دل کا دورہ پڑا ہے- ڈاکٹروں نے آپریشن تجویز کیا۔ گو اس تشخیص پر خوش تو اب بھی کوئی نہیں ہوتا، اس دور میں تو دل کے آپریشن کا سن کر ہی دہشت طاری ہو جایا کرتی تھی۔ غریب آدمی تب بھی اور اب بھی اس کیلئے وسائل بھی نہیں رکھتا۔ ڈسچارج ہونے کے بعد ایک روز بابا جی اپنی پریشانی میں گھومتے پھرتے سید پور آ نکلے۔ تب یہ ماڈل ولیج نہیں بنا تھا۔ جہاں دیس پردیس ہے، وہاں ٹوٹی پھوٹی سی دو دکانیں ہوا کرتی تھیں اور ان کے بیچ میں سے کچا راستہ اوپر کو جاتا تھا۔ بابا جی کو برگد کے درخت پر رنگ برنگے کپڑے کے ٹکڑے لہراتے دکھائی دیے تو اسے کوئی زیارت سمجھ کر دعا کرنے اوپر چل پڑے۔ دل کے مریض بھی تھے، ایک ایک قدم پر سانس بے قابو ہوتی رہی مگر اوپر پہنچ کر ہی دم لیا۔ یہاں زیارت تو کوئی تھی نہیں، مائی صاحبہ کی کچی قبر پہ کھڑے کھڑے انہوں نے دعا مانگی، کچھ دیر عین اسی مقام پر جو حضرت خضر کی نشست گاہ ہے، سستائے اور اللہ کو یاد کرتے نیچے اتر آئے۔

نیچے اترتے ہوئے حیرت انگیز طور پر انہیں اپنی طبیعت بہت بہتر اور ہشاش بشاش محسوس ہوئی۔ سوچا یہی کہ یہاں روز آیا کریں گے مگر پھر دو دن آ نہ سکے۔ تیسری رات انہیں خواب میں ایک بزرگ دکھائی دیے جو شکوہ کر رہے تھے کہ بس ایک روز آ کر ہمیں بھول گئے۔ بابا جی گھبرا کر اٹھ بیٹھے۔ پانی پیا، آنکھ لگی تو پھر یہی خواب۔ پھر جاگے، پھر سوئے، پھر یہی خواب۔ مسلسل تین راتیں ایسا ہی ہوتا رہا۔ آخر بابا جی اٹھ کر یہاں آن بیٹھے اور تب سے یہیں پائے جاتے ہیں۔ اور وہ دل کی تکلیف؟ “کیسی تکلیف بیٹا، وہ تو دوسری حاضری پہ ہی ختم ہو گئی تھی” بابا جی ہنستے ہوئے بولے۔ آپ نیچے گاؤں میں رہتے ہیں، روزانہ اوپر آ کر صفائی کرنا، گھڑوں میں پانی بھرنا، فرش دھونا، یہ سب اس عمر میں بھی ان کے معمولات میں شامل ہے-

قدیم زمانے میں جب دو مختلف تہذیبیں یا مذاہب آپس میں ملتے یا ٹکراتے تھے تو مغلوب ہو جانے والی تہذیب یا مذہب اپنے کچھ عقائد، کچھ روایات غالب آ جانے والے مذہب یا تہذیب میں شامل کر دیا کرتا تھا۔ یہ عمل synchretism کہلاتا ہے۔ ہم برصغیر کے باسی تو عقائد کی یہ کھچڑی اب تک کھاتے چلے آ رہے ہیں۔ لگ بھگ چھ بزار قبل مسیح سے بارہ سو قبل مسیح کے زمانے تک شام کے ایک علاقے میں اغیرت شہر پایا جاتا تھا۔ اس کے آثار 1928 میں دریافت ہوئے، مگر خوش قسمتی سے اغیرت کے معبد سے بہت سی دستاویزات بھی مل گئیں جن کی زبان سمجھنے میں ماہرین کامیاب رہے۔ “کوثر و خصیص” (kothar wa khasis) اس تہذیب کا لیجنڈ تھا۔ یہ ان کے دیوتا بال کا اسسٹنٹ تھا جو اس کی جانب سے مختلف فرائض انجام دیا کرتا تھا۔ بارہ سو قبل مسیح میں اغیری تہذیب تو فنا ہو گئی مگر کوثر کسی نہ کسی طرح سروائیو کرتا گیا۔ یہ پہلے یہودی روایات کا حصہ بنا اور پھر عیسائیت آئی تو شام میں سینٹ جارج اور یورپ میں جان دی بیپٹسٹ بھی اس میں سنکریٹائز ہو گئے۔ یہیں سے یہ خضر کے نام سے عرب روایات کا حصہ بن گیا۔

قرآن میں حضرت موسیٰ کا جو مشہور واقعہ مذکور ہے، اس میں موسیٰ کی ملاقات جس پراسرار ہستی سے ہوئی اس کا کوئی نام نہیں بتایا گیا اسے محض اللہ کا ایک نیک بندہ کہا گیا ہے- لیکن ہوا یوں کہ اس سے بہت پہلے کوثر وا خصیص کا لیجنڈ ایل کے لیجنڈ سے بھی سنکریٹائز ہو چکا تھا جس کا ٹھکانہ وہ مقام ہے جہاں دو دریا آپس میں ملتے ہیں۔ قرآن کے مطابق بھی حضرت موسیٰ کی ملاقات اس اللہ کے بندے سے “مجمع البحرین” پہ ہوئی، غالباً اس مشابہت کی بناء پر مفسرین، محدثین اور صوفیاء نے اللہ کے اس بندے کو خضر قرار دے دیا۔ یوں ہزاروں برس سے چلتا آ رہا ایک اساطیری کردار مشرف بہ اسلام ہو گیا۔

حضرت خضر کا وجود ہے یا نہیں؟ اس سے قطع نظر، میں ان مرحومہ مائی یا خان بابا کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو من گھڑت یا فرضی قصہ نہیں سمجھتا۔ ویسے بھی حضرت خضر کی نشست گاہ سے قابل ذکر مالی منفعت ہونا تقریباً ناممکن ہی ہے۔ مقامی لوگوں کو چھوڑ کر یہاں آنے والے نوے فیصد سیاحوں کو علم ہی نہیں کہ اوپر کوئی ایسا مقام بھی ہے- ان دونوں بزرگوں کو ان کے دل و دماغ نے جو کچھ دکھایا اور بتایا، انہوں نے اسے سچ مان لیا۔ اسے سچ ماننے کے سوا اور چارہ ہی کیا ہوتا ہے؟

ہم ظاہری بات ہے اسے ایک سطح کا شیزوفرینیا ہی سمجھیں گے۔ میرے پسندیدہ اقوال میں سے ایک ہے کہ “اگر آپ خدا سے باتیں کر رہے ہیں تو یہ عبادت ہے- اگر خدا آپ سے باتیں کر رہا ہے تو یہ شیزوفرینیا ہے۔” لیکن ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کب کب خدا نے سچ مچ بندے سے گفتگو کی اور کب کب یہ محض ایک فرد کا وہم تھا؟

ایک صاحب ایمرجنسی میں پہاڑ پہ چڑھے، اوپر سے آسمانی بجلی گری تو بے ہوش ہو گئے۔ ہوش آیا(؟) تو ایک غیر مرئی ہستی ان سے مخاطب تھی۔ آپ آگ لینے گئے تھے، پیغمبری لے کر واپس آئے۔ کیونکہ آپ موسیٰ تھے، پہاڑ طور تھا، آسمانی بجلی خدا کی تجلی تھی اور وہ غیر مرئی ہستی خود ذات باری تعالیٰ تھی۔ ایسا ہی واقعہ آج اگر کوئی صاحب بیان کریں تو ان کے انجام کا اندازہ آپ لگا ہی سکتے ہیں۔ جبکہ عین ممکن ہے کہ ان کے دماغ نے بھی انہیں عین یہی کچھ دکھایا ہو۔

تو ایک نفسیاتی یا ذہنی واردات، وہم یا دماغی خلل اور ایک قلبی یا روحانی واردات، وحی، الہام یا کشف میں فرق کیا ہوتا ہے اور یہ فرق ہم عامیوں کو کیسے پتہ چل سکتا ہے؟ اور کیا کسی فرد کی انفرادی قلبی یا روحانی واردات کو ماننا باقی سب پر لازم ہوتا ہے؟ اس پہ اہل علم سے راہنمائی کی درخواست ہے۔ ویسے اہل علم سے راہنمائی کم ہی ملتی ہے، اپنے سوالوں کا بوجھ بندے کو خود ہی اٹھانا پڑتا ہے- لیکن اس معاملے پر اس سے اونچی اڑان بھرتے میرے تخیل کے پر جلتے ہیں۔

عقیدے اور وہم کے بیچ بس ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے- صدیوں کے سفر میں کئی اوہام عقائد کا روپ دھار لیتے ہیں اور بہت سے عقائد بالآخر اوہام ثابت ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

“…. بتان وہم و گماں لا الہٰ الاللہ”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply