خدا کے وجود پر ملحدوں کے دو بنیادی سوالوں کے جوابات۔۔خرم خان

اگر کبھی ملحد لوگوں سے گفتگو کی جائے خدا کے وجود پر تو ان کے دو ہی سوالات ہوتے ہیں جن کے جوابات نہ  ملنے کی بِنا پر وہ خدا کے وجود کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں

اگر خدا ہی کائنات اور اُس کی ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے تو خدا کو پیدا کرنے والا کون ہے؟
دنیا میں ہر مذہب اپنے خدا کو ہی اصل خدا مانتا ہے اور ہر دوسرے مذہب کے خدا کو باطل قرار دیتا ہے تو ہم کیسے کہیں کہ کونسا خدا اصل خدا ہے؟

یہ کافی بنیادی سوالات ہیں اور ہر ذی شعور اور سوچ بچار رکھنے والا شخص ان سوالات کا سامنا کرتا ہے، مگر ہمارے یہاں مذہبی حلقوں اور گھروں میں بدقسمتی سے سوالات کرنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور اس زمانے میں جہاں علم کا دور ہے اور لوگ ہر چیز کو علمی سطح پر سمجھ کر اور دل کا اطمینان پا کر اختیار کرتے ہیں، تو جن لوگوں کو اِن سوالات کا تسلی بخش جوابات نہیں  ملتا وہ خدا کے وجود سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر جوابات نہیں  پارہے تو اس کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ جوابات ہیں نہیں اور خدا کے وجود کا ہی انکار کر دیں بلکہ ان سوالات کے جوابات ایک سوچ بچار رکھنے والا شخص کوئی بہت  زیادہ سعی کیے بغیر بھی حاصل کر سکتا ہے۔

میرے فہم کے مطابق ان سوالات کے جوابات یہ ہیں جو کہ مجھے    بھی خود ہی ملے، تو پہلا سوال:

اگر خدا ہی کائنات اور اُس کی ہر شے کا پیدا کرنے والا ہے تو خدا کو پیدا کرنے والا کون ہے؟

یہ سوال کرتے ہوئے پہلے تو یہ ذہن میں ہونا چاہیے کہ ہم خدا کو اپنی جیسی مخلوق نہ  سمجھیں جس کو پیدا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات تو قطعی ہے کہ ہم مخلوق ہیں اور ہم اپنے آپ کے خود خالق نہیں  ہیں۔ مخلوق کا تو خالق ہونا چاہیے مگر خالق کا بھی اگر خالق ہوا تو پھر تو لا  متناہی سلسلا چل پڑے گا اور پھر یہ سوال ہر خالق کے بارے میں اٹھایا جائے گا کہ اُس کا خالق کون ہے؟ اِس سوال کو کہیں رکنا ہوگا اور جہاں وہ رکے گا وہیں خدا کی ذات ہوگی جس کو کسی خالق کی ضرورت نہیں  اور وہ  ہر شئے کا خود خالق ہے   ۔

جو لوگ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ خدا کو کس نے پیدا کیا کیونکہ یہ سوال بڑا کلیدی ہے اور اس کے جواب کے بغیر ان کی تسلی نہیں  ہوگی تو کیا یہ انتہائی مضحکہ خیز بات نہیں  کہ اس بات سے تو ان کی تسلی ہوجاتی ہے کہ ان کے مطابق اس کائنات کا خالق نہیں  ہے اور کائنات بغیر خالق کے ہمیشہ سے موجود ہو سکتی ہے، جس کی شروعات نہیں  ہے مگر ان کے لیے یہ بات قابلِ قبول نہیں  کہ خدا بغیر خالق کے  ہو! اور جو ملحد فلسفی جیسے کہ برٹرینڈ رسل ایک زمانے میں یہ بات کیا کرتے تھے کہ اس کائنات کی کوئی شروعات نہیں  ہے اور ہمیشہ سے ہے اس بات کوسائنس نے خود ہی اٹھا کر پھینک دیا جب یہ دریافت ہوا کہ کائنات بگ بینگ سے وجود پذیر ہوئی اور اس کائنات کی عمر بھی بتا دی جو کہ لگ بھگ ۱۴ ارب سال کے قریب ہے۔

اور اگر کوئی یہ دلیل دیتا ہے کہ کیونکہ ہم اس کائنات کو دیکھ سکتے ہیں تو ہم کیسے انکار کریں۔ تو پھر تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ہر چیز جو اس کائنات میں ہو رہی ہے اس کو دیکھ کر ہی مانتے ہیں؟ ہماری آنکھیں آج بھی یہ ہی دیکھتی ہیں کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں  ہے اور یہ ہم نے اب تک کسی تصویر جو کہ نظام شمسی سے باہر نکل کر لی گئی ہو اس میں نہیں  دیکھا ہے! بلکہ مشاہدات کرکے اور عقل کا استعمال کر کے اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اصل میں زمین ہے جو کہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اسی طرح بلیک ہولز کو ایک عرصے سے دنیا مان رہی تھی اور اس کو ابھی حال ہی میں دیکھنے کی صلاحیت مل پائی مگر اس کے بارے میں ہم کسی اشکال میں نہیں  آتے تھے اور نہ کبھی اس کے انکاری ہوئے! اسی طرح کشش ثقل کو کس نے دیکھا ہے مگر ہم اس کے اثرات کی وجہ سے جانتے ہیں کہ موجود ہے۔ اسی طرح ہمیں کیا ہر دفعہ  آگ کے شعلے ہی دیکھنے ہوتے ہیں تب ہی ہم یہ جانتے ہیں کہ کہیں آگ لگ گئی ہے؟؟ ہم دھواں دیکھ کر جان جاتے ہیں کہ کہیں آگ لگ گئی ہے۔ اس کائنات میں بہت کچھ ہو رہا ہے جو کہ ہمیں نظر نہیں  آتا اور نہ  آنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اس کے اثرات اور نشانات کو پڑھ کر اور عقل کا استعمال کر کے پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ عقل کی استنباطی صلاحیت ہی ہے جس کو استعمال کر کے ہم بہت سارے انکشافات کر چکے ہیں اور اس نے ہماری دنیا تبدیل کردی۔

خدا کا معاملہ بھی یہ ہی ہے کیونکہ ہم اُس کو دیکھ نہیں  سکتے تو ہم استنباطی صلاحیت ہی کو استعمال کر کے اس کے وجود تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم دیکھتے ہیں یہ کہ کائنات ہر لحاظ سے بنی ہوئی ہے اور اس میں جو ریاضی اور اعلیٰ درجہ کا ڈیزائن پاتے ہیں بغیر کسی خامی کے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ کسی خالق کے بغیر ممکن نہیں  اور اس کے ہونے کی واحد توجیہ یہی پاتے ہیں۔ ہر شے کا خالق ہونا ضروری نہیں  مگر ہر وہ شے جو بنی ہو اس کا خالق ہونا ضروری ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر کہیں لکڑی کا ایک ٹکڑا پڑا ہوا ہو تو ہم اس کا خالق نہیں ڈھونڈتے مگر اسی لکڑی کے ٹکڑے کی کہیں کرسی بنی پاتے ہیں تو فوراً ہماری عقل اس بات کو قبول کر لیتی ہے کہ اس کا ایک لازمی خالق ہے اور ہم اس خالق کے خالق کو نہیں  تلاش کرتے تاکہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ کیا اس کرسی کا خالق ہے؟؟

اور خود ہم انسان کیسے وجود میں آئے؟ ہم جانتے ہیں کہ ہم محض ایک گوشت کا لوتھڑا نہیں  ہیں، ہمیں  جِسم عطا ہوا ہے اور ہم جِسم نہیں  ہیں۔ ہم اپنا الگ سے شعور رکھتے ہیں کہ ہم کچھ ہیں، اور ہم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ سب کیسے ہوا؟ کچھ ملحد حضرات نظریہ  ارتقاء کا حوالہ دینگے تاکہ کچھ سمجھا سکیں کہ  کیسے ہوا۔ حالانکہ ابھی بھی بہت سارے سوالات ہیں نظریہ ارتقا ء  پر جو اس بحث کا موضوع نہیں ہے، مگر اگر ارتقاء  کے نظریے کو مان بھی یہ لیا جائے تو تب بھی اس سے یہ تو جواب مل سکتا ہے کہ انسانی جِسم کس طرح بنا، مگر انسان جِسم نہیں  ہے، جِسم اس کے پاس ہے اور وہ اِس کو دنیا میں استعمال کرتا ہے تو پھر انسان کا وجود کیسے ہوا؟ اس کو کس نے پیدا کیا ؟؟

کائنات اور انسان کا ہونا اس کے علاوہ اور کوئی توجیہ نہیں  پاتے کہ ان کا ایک عظیم خالق ہے جس نے سب کو عدم سے پیدا کیا۔ اور یہ ہی واحد توجیہ ہے جو ہمیشہ سے ہے اور یہاں تک کہ اب کا جدید علمی انسانی  ذہن بھی اس کے علاوہ کوئی مضبوط اور قابلِ قبول توجیہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

اب آتے ہیں دوسرے سوال کی طرف:

دنیا میں ہر مذہب اپنے خدا کو ہی اصل خدا مانتا ہے اور ہر دوسرے مذہب کے خدا کو باطل قرار دیتا ہے تو ہم کیسے کہیں کہ کونسا خدا اصل خدا ہے؟

آسمانی خدا کا تصور تو ہر مذہب میں ملتا ہے اور شرک اور بت پرستی پیدا ہی کسی خدا کو ماننے سے ہوتی ہے تو خدا تو موجود ہوا نا، تو یہ اعتراض ہی بھونڈا ہے کہ کیونکہ ہر مذہب ایک اپنا الگ خدا مانتا ہے تو کیسے کہیں کہ کس کا خدا اصل میں خدا ہے تو اس لیے خدا کو ماننے سے ہی انکار کردیں۔

اور مثال کے طور پر الہامی مذاہب میں اگر اسلام کی بات کریں تو وہ تو یہ کہتا ہے کہ سارے الہامی مذاہب ایک ہی ہیں اور ہر رسول نے ایک ہی خدا کی بات کی اور رسول اللہ ﷺ اسلام کے پہلے نہیں آخری رسول ہیں اور یہ تو لوگوں نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اختلافات پیدا کر لیے اور اپنے اپنے ناموں سے مذہب بنا ڈالے، ورنہ سب ایک مسلمان ہی تھے اور ہر ایک کا مذہب اسلام ہی تھا۔

مندرجہ ذیل قرآنی آیات یہ ہی بات صاف صاف بتا رہی ہیںٍ:ٍ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہ جن کو دی گئی، اِس میں اختلاف بھی اُنھی لوگوں نے کیا، نہایت واضح دلائل کے اُن کے سامنے آ جانے کے بعد، محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے۔ پھر یہ جو (قرآن کے) ماننے والے ہیں، اللہ نے اپنی توفیق سے اُس حق کے بارے میں اِن کی رہنمائی کی جس میں یہ اختلاف کر رہے تھے۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔
قرآن ۲ : ۲۱۳

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
(اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف اُسی طرح وحی کی ہے، جس طرح نوح کی طرف اور اُس کے بعد آنے والے پیغمبروں کی طرف کی تھی۔ ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی کی اور داؤد کو ہم نے زبور عطافرمائی تھی۔ ہم نے اُن رسولوں کی طرف بھی اِسی طرح وحی بھیجی جن کا ذکر تم سے پہلے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں کی طرف بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا تھا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے۔ یہ رسول جو بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ لوگوں کے لیے اِن رسولوں کے بعد اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے۔ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔
قرآن ۴ : ۱۶۳ ۔ ۱۶۵

یہ سارے الہامی مذہب در حقیقت اسلام کے ہی فرقے ہیں جنھوں نے الگ الگ مذاہب کی شکل لے لی اور ان سب کی اصل شکل مسخ ہو کر رہ گئی ۔اور اسی طرح جیسے کہ ابھی بھی اسلام میں فرقے بنے ہوئے ہیں، جن کی سب سے بڑی مثال سنی اور شیعہ فرقے ہیں، اب صرف فرق یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو الگ مذہب نہیں  کہتے بلکہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قطع نظر اس بحث کے کہ کس کا خدا اصل خدا ہے، الہامی اور غیر الہامی مذاہب سب میں خدا کا تصور ضرور پایا جاتا ہے، اگر اصل کی تلاش ہے، تو تحقیق کریں، تاریخ کا مطالعہ کریں، مذاہب کا مطالعہ کریں اور عقل کا استعمال کریں اور پہنچ جائیں اصل خدا تک! آخر کو ہم انسانوں نے علمی اور تحقیقی رویے کے ذریعے بڑے بڑے کائنات میں انکشافات کیے ہیں چاہے وہ نظر آتے ہوں یا چھپے ہوئے ہوں، اسی طرح اصل خدا کو بھی دریافت کر لیں گے۔

Facebook Comments

خرم خان
شعبہ سوفٹوئیر انجئینیرنگ سے تعلق ہے میرا۔ مذہب کے فہم کو بڑھانے کے لئے قرآن کا مطالعہ کرتا ہوں۔ اس کے علاوہ اسلام کے مختلف اہل علم کی رائے اور فہم کو پڑھ اور سن کر اپنا علم بڑھانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ مذہب میں تقلیدی رویے کی شدید مذمت کرتا ہوں، اور عقل کے استعمال کو فروغ دیتا ہوں جیسا کہ قرآن کا تقاضہ ہے، اور کسی بھی فرقے سے تعلق نہی رکھتا، صرف مسلمان کہلانا پسند کرتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply