میڈیا کو ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ جب کسی مسئلے ادارے، ریاست یا حکومت کو زیرِ غور لانا ہو تو اس کا سب سے بہترین ذریعہ میڈیا ہی ہوتا ہے، چاہے وہ سوشل میڈیا ہو، الیکٹرانک ، یا پرنٹ میڈیا ہو، میڈیا کی تینوں اقسام پوری دنیا میں اپنی الگ پہچان رکھتی ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت معلومات کا اس قدر بہاؤ ہے جس کی نذیر تاریخ میں نہیں ملتی، دنیا کے بڑے بڑے مصنفین کی شہرہ آفاق کتب کسی بھی شخص کی دسترس میں لمحوں میں آجاتی ہیں، تاریخ، سائنس، فلسفہ غرضیکہ جس موضوع پر کوئی بھی ادراک حاصل کرنا چاہتا ہو اب یہ نہایت ممکن ہے کہ اس طرح کی معلومات کا خزانہ اکثر و بیشتر بلا معاوضہ دستیاب ہے، اس سے بڑا کرشمہ تاریخ انسانی میں اور کیا ہوگا، دور حاضر میں سوشل میڈیا ایک بہت حیران کن پلیٹ فارم بن کر ابھرا ہے اس نے لوگوں کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے، کئی گمنام لوگ ایسے نامور بنے کہ کیا کہنے، سوشل میڈیا عام آدمی کی آواز بننے لگا ہے ، لیکن دوسری طرف یہی سوشل میڈیا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے دردِ سر بھی بن چکا ہے، لوگوں کی ذاتی زندگیاں تک محفوظ نہیں رہیں، اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال ہے، سوشل میڈیا کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اسے استعمال کرنے والے لوگوں کی اکثریت کو اس کے عمومی قواعد وضوابط کا ادراک ہی نہیں ہے ، جس کی وجہ بارہا غیر تصدیق شدہ اور جھوٹ پر مبنی معلومات کا بے دریغ تبادلہ ہے۔
اس وقت پوری دنیا ایک موذی اور جان لیوا وباء کی بدترین لپیٹ میں ہے، لیکن ان حالات میں سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ معلومات کے تبادلے کی وجہ سے لوگوں میں خوف ہراس پھیل رہا ہے، جس سے یقینی طور پر عام سوچ سمجھ رکھنے والا آدمی نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتا ہے، حکومت کو آنے والے وقتوں میں سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق عوامی شعور اور آگاہی کے لیے ملک گیر مہم چلانی پڑے گی اور کوئی قابل عمل اصول وضوابط کا اطلاق کرنا ہوگا ، دوسری طرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ افراد اس کٹھن وقت میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن ایک عجیب سی الجھن دیکھنے میں آرہی ہے کہ ایک طرف تو میڈیا کوشش کررہا ہے کہ اس موذی وباء سے نمٹنے کے لیے حکومت سخت انتظامات و اقدامات کرے تاکہ یہ وباء مزید قیمتی جانیں نہ نگل پائے۔
مگر دوسری طرف اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائے تو، وہ متاثرہ شخص کو سامنے لا کر اس پر ظلم کی داستان سنا کر اداروں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔
ایک طرف میڈیا نے ہی گورنمنٹ پر زور ڈالا کہ مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے مگر دوسری طرف ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے دوست کیمرہ لے کر دیہاڑی داروں کی روزمرہ زندگی کے مسائل پر رپورٹنگ شروع کر دیتے ہیں،میڈیا کا کام بہت اہم اور قابلِ ستائش ہے مگر یہ وقت لوگوں کو شعور اور آگاہی دینےکا ہے، حکومت کے اقدامات ہمیشہ عوام کے بہترین مفادات کے پیشِ نظر ہوتے ہیں،میڈیا کو سوچنا ہوگا کہ ہماری اولین ترجیحات کیا ہیں۔
کیا ہمیں اس وقت عوام الناس کو آگاہی دینی ہے یا پھر حکومتی اقدامات کو نشانہ بنانا ہے، ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان معاشی طور پر شدید ترین مسائل کا شکار ہے اس آفت نے تو پورے یورپ کی معیشت تباہ کر کے رکھ دی ہے ، اور حکومت اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے پوری کوشش کر رہی کہ اس بد ترین آفت کا بخوبی مقابلہ کر سکے اور یہ کافی حد تک ممکن بھی ہوا ہے، بے شک اس وقت سب سے زیادہ پریشان وہ طبقہ ہے کہ جو روزانہ کی بنیاد پر کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے اور یہ نہایت خوددار لوگ ہیں، ان کی معاونت کے لیے وفاقی، صوبائی حکومتیں اور ضلعی انتظامیہ ان کے کوائف مرتب کر کے ان کو معاشی پیکج کے تحت ممکنہ سہولیات/راشن و مال امداد پہنچانے باقاعدہ آغاز کر چکی ہے ، یہ وقت ایک بہت کڑا ہے، ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے، اس وقت میں میڈیا کو چاہیے کہ وہ اپنے چینلز پر اس موذی وباء کو کم سے کم اجاگر کرے اور خاص طور پر عوام الناس کے لیے کچھ اچھے اور میعاری قسم کے تفریحی پروگراموں کا آغاز کرے، بچوں کو مد نظر رکھ کر ان کے لیے کھیل کھیل میں تعلیم کے پروگرامز کو اپنے چینلز میں خاص جگہ دے، اور سب سے بڑھ کر بچوں کے لیے اینی میشنز پر مبنی کارٹونز بنائے تاکہ ہم اپنے بچوں کو بھارتی چینلز پر دکھائے جانے والے کارٹون کریکٹرز اور انکی کلچر کی ترویج کی حوصلہ شکنی کرسکیں۔
پاکستانی لوگوں میں بہت ہمت اور جذبہ موجود ہے، انشاء ﷲ اس وباء کو ہم مل کر شکست فاش دیں گے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں