• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہماری سیاست و سفارت, حرمت رسول اور اسلامو فوبیا ۔۔ بلال شوکت آزاد

ہماری سیاست و سفارت, حرمت رسول اور اسلامو فوبیا ۔۔ بلال شوکت آزاد

دیر سے یا جلدی, بالآخر ہماری حکومت کا بھارتی جنتا پارٹی کی سپوکس پرسن اور مودی کی چہیتی کی جانب سے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور ان کے صحابہ رضوان اللہ اجمعین علیہم کی شدید اور بدترین گستاخی پر بذریعہ ٹوئٹر ردعمل آیا تو سہی۔ ۔ ۔

لیکن بدقسمتی سے ہماری سیاسی کشمکش اور نفرتیں ہمارے عقیدے, تعامل اور عشق رسول و صحابہ پر حاوی ہوچکی ہیں, کیونکہ شہباز شریف کی مذمتی ٹوئیٹ پر پاکستانی عوام کی طرف سے جو جواب  آرہے ہیں وہ ناصرف بے موقع بلکہ انتہائی گھٹیا نوعیت کے ہیں۔

خواہ وہ کمنٹ کسی پٹواری, جیالے, یوتھیے, جمعیتی, جماعتی, پٹیالے, پلاسٹکی, چیخیے, پالشی, پٹوارلشی, جیالشی, یوتھالشی یا نیوٹرالشی کسی کے بھی ہوں, سب کے سب سیاسی اور اپنی اپنی من پسند پارٹی و شخصیات کے حوالے سے دفاعی نوعیت کے ہیں۔

افسوس کا مقام ہے کہ ہم میں اب وہ پہلی سی رمق اور سوز نہیں رہا جو ہمارے عشق رسول و صحابہ کو آتش مرگ بنادیتا تھا اور گستاخوں کی نیند حرام ہوجاتی تھی۔

آج ہر طرف سے چہ مگوئیاں پڑھنے سننے کو مل رہی ہیں کہ جی عرب دنیا اس بار سرگرم اور آتش مرگ بنی ہوئی ہے جبکہ پاکستانی اور بالخصوص وہ مخصوص سیاسی و مذہبی پارٹیاں اور افراد عنقاء ہیں جو ماضی میں پاکستان سر پر اٹھا لیتے تھے اور گستاخوں کی سزا پاکستانی عوام اور حکمرانوں کو دیتے تھے اور انتہائی نوعیت کی دھمکیاں دیکر دنیا کو وہ پیغام دیتے تھے جو دینا ان کی خواہش ہوتی تھی۔

بات دراصل یہ ہے کہ یہ اعتراض اور معترضین و سائل سب حق پر ہیں لیکن میں چیزوں کو عوامی عینک اور بھیڑ چال میں بہہ کر نہیں دیکھتا اس لیے میرا ماننا ہے کہ تین وجہ سے پاکستان کا موجودہ ردعمل بہتر ہے اور اس میں اللہ کی حکمت اور مصلحت پوشیدہ ہے۔

وہ تین وجوہات جن کی وجہ سے میرا موقف یہ بنا کہ پاکستان اور اسکی عوام اس بار سیکنڈ لائن ڈیفنس یا اٹیک پر ہے خواہ کسی بھی وجہ سے ہو وہ بہتر اور وقت کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہیں۔ ۔

1- ہر دفعہ پاکستان کی عوام بالخصوص مخصوص سیاسی و مذہبی پارٹیوں اور افراد کی جانب سے گستاخی کے معاملات پر بجز سیاست کی جاتی رہی اور انہیں انٹرنیشنلی مس ہینڈل کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے ہمارا حقیقی پیغام دنیا کو جیسے پہنچنا تھا ویسے نہیں پہنچا بلکہ اسلامو فوبیا کی شدید ترین لہر چل پڑی جس کی وجہ سے اول اسلام اور دوم پاکستان ناصرف بدنام ہوئے بلکہ مغرب میں دونوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا تا آنکہ عمران خان نے اس کا مدلل اور مستقل مقدمہ لڑ کر مغرب کو باور کروایا کہ ہمیں تکلیف ہوتی ہے اور غصہ آتا ہے جب کوئی ہمارے نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا یا کرواتا ہے لہذا اس حرکت کو آزادی اظہار رائے کہہ کر آگ میں تیل ڈالنا بند کیا جائے اور اس عمل کو اسلامو فوبیا کہنا اور ماننا ترک  کیا جائے۔

2- ہمیشہ پاکستان اور اسکی عوام ہی گستاخانہ معاملات پر صف اول میں براجمان رہتی اور نظر آتی تھی جبکہ عرب انتہائی نوعیت کے معاملات میں ہی متحرک ہوتے تھے ورنہ خاموش رہتے تھے تو دنیا بالخصوص مغرب اور اہل طاغوت یہ کہنے لگ پڑے تھے کہ مسلمان اور عاشقان صرف پاکستان میں ہی کیوں بستے ہیں, باقی دنیا بالخصوص عرب ممالک کیوں چپ رہتے ہیں۔ ۔ اس کا مطلب یا تو ہمارا عمل گستاخی نہیں واقعی آزادی اظہار رائے ہے جسکی عرب کو سمجھ ہے لیکن پاکستانیوں کو نہیں یا پھر عرب میں مسلمان اور عاشقان نہیں بستے جیسے پاکستان میں بستے ہیں مطلب متشدد اور انتہا پسند۔ ۔

3-اس وقت پاکستان کی موجودہ سیاسی و سفارتی صورتحال مخدوش ترین اور تقریباً نااہل ہے جس کی وجہ سے ملک پر طرح طرح کی مصیبتیں اورمشکلات پہلے ہی مسلط ہیں اور دوسرا یہ کہ عمران خان نے گستاخی کے معاملے کو اپنے دور حکومت میں عالم اسلام کا مشترکہ مسئلہ ثابت اور باور کروادیا ہوا ہے لہذا پاکستان فی الوقت انتہائی اور شدید ردعمل نہیں بھی دیتا اور باقی مسلم دنیا بالخصوص عرب جن کے بھارت سے بہت گہرے تجارتی و سفارتی تعلقات ہیں کو اس معاملے میں فرسٹ لائن ڈیفنس بلکہ اٹیک کرنے دیتا ہے تو یہ بہتر ہے کیونکہ دنیا کو اب یہ بتانا اور سمجھانا اشد ضروری ہے کہ نبی حضرت محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم فقط پاکستانیوں کے ہی نبی نہیں بلکہ ساری امت مسلمہ اور عالم اسلام کے نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔

تو اوپر درج تین وجوہات کی روشنی میں مجھے یہ لگتا ہے کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کا ردعمل جیسا آیا ہے یا آئے گا بانسبت ماضی کے وہ فی الحال وقت کی عین ضرورت ہے اور کیونکہ یہ معاملہ بھارت میں ہوا ہے جہاں ہر پل ایسا ہوتا ہے لیکن وہ کسی سرکاری سطح پر نہیں ہوتا اور معمول بن چکا ہے تو وہاں اور یہاں اتنی بے چینی نہیں پھیلتی لیکن اس بار اس واقعہ پر اگر حسب معمول پاکستان سے ردعمل کی ابتداء ہوتی تو دنیا اور عرب ممالک تک میں یہی تاثر جاتا کہ جی یہ تو اول دن سے دشمن پڑوسی ہیں اور پاکستان تو شدت پسندی اور انتہا پسندی کا گڑھ ہے لہذا ان کو ہی نمٹنے دو جبکہ بھارت باآسانی پاکستان کے ردعمل کو دہشت گردی اور انتہا پسندی جبکہ اپنے عمل کو اسلامو فوبیا اور آزادی اظہار رائے ثابت کرکے معصوم بن جاتا لہذا اس دفعہ اللہ نے عربوں کی غیرت و حمیت کو آنچ دیدی تاکہ بھارت اور ساری طاغوتی دنیا کی غلط فہمی یا خوش فہمی دور ہوجائے کہ مسلمان اور عشاق بس پاکستان میں ہی بستے ہیں۔ ۔ اور ماشاء اللہ ایسا ہوبھی گیا ہے ۔عرب دنیا کے شدید ردعمل کی وجہ سے بھارت نے گھٹنےٹیک دیے ہیں اور معافی تلافی کی کوششیں شروع کردی ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود پاکستانی عوام کا اپنے وزیر اعظم کی اس ٹوئیٹ جس میں وہ نبی صل اللہ علیہ والہ وسلم کی گستاخی پر ردعمل دےرہا ہے پر سیاسی محاذ آرائی کسی صورت قبول اور معافی کے قابل نہیں۔

دنیا کو ہم اس طرح کیا پیغام دے رہے ہیں  کہ جی حرمت رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم بھی ہمارا سیاسی مسئلہ ہے کہ ہمارا من پسند لیڈر اور جماعت اس معاملے میں سرگرم ہوگی تو ہم تسلیم کریں گے اور متحرک ہوں گے ورنہ اور کوئی بھی کرے گا تو ہم لاتعلق یا مخالف ہوجائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری سیاست و سفارت اور حرمت رسول کو الگ مت کریں ورنہ دنیا اسلامو فوبیا کا نعرہ مستانہ لگا کر جو بھی کرے اور کہے وہ ہم سے ہینڈل نہیں ہوسکے گا۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply